کب تک مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا جائےگا؟

(محمد قاسم ٹانڈؔوی، 09319019005)
مئ/2014 سے پہلے یعنی مرکزی حکومت کی زمامِ اقتدار جب تک بی جے پی کے ہاتھوں میں نہیں آئ تھی، بڑے ہی دھڑلے سے یہ بات کہی جاتی تھی:
’’مانا کہ ہر مسلمان دھشت گرد نہیں ہے مگر گرفتار ہونے والا ہر دھشت گرد مسلمان کیوں ہوتا ہے؟ اور یہ بات کوئ اور نہیں بلکہ بی جے پی کے اعلیٰ لیڈران کی زبانی آئے دن سننے کو ملتی تھی۔ اسی لئے ہر خاص و عام کے ذہن میں یہ بات جگہ کر گئی تھی کہ مسلمان ہی اصل دھشت گرد ہیں؟‘‘
چنانچہ ‘رجت شرماکے خاص شو ’’آپ کی عدالت‘‘میں شامِل ناظرین میں سے ایک طالبہ بھی حالات سے مرعوب ہو کر یا بی جے پی لیڈران کی زبانی اس بات کو سن کر جب بیرسٹر اسدالدین اوؔیسی صاحب سے یہی مزعومہ سوال کر بیٹھی تو اس وقت تمام ناظرین کی سماعت کے حوالے جو مُسکِت و مدلّل جواب دیا گیا تھا، اسے سن کر اس طالبہ کو بھی ویسے ہی منھ کی کھانی پڑی تھی جیسے کہ ہر بار عدالتوں سے رہائی پانے والے گرفتار شدہ مسلم نوجوانوں کی رہائی کے بعد تحقیقی ایجینسیوں اور گودی میڈیا کو کھانی پڑتی ہے۔
کیوں کہ ممبئی 26/11 کے حملے کے بعد حالات نے پلٹا ہی کچھ اس طرح کھایا کہ جو مفسِد ذہن اور مفاد پرست لیڈران ہر وقت ہر تخریبی کارروائی کو مسلمانوں کے سَرمنڈنے کی فِراق میں لگے رہتے تھے، اچانک ان کی زبانوں پر تالا لگ گیا اور ان سب کو سانپ سونگھ گیا، پھر کیا تھا اس کے بعد تو ایک کے بعد راز کھلتا چلا گیا اور سیاست کے گلیاروں میں سنّاٹا چھاتا گیا۔ اور یہ ثابت ہوا کہ آج تک سیاسی جماعتوں سے وابستہ افراد کے قتل کرنے، جا بجا بم دھماکوں میں شامل تخریب پسند لوگوں کو حِراست میں لینے اور ملک کے پوشیدہ راز افشاں کرنے میں جتنی بھی گرفتاریاں ہوئ ہیں ان میں نہ کوئی مسلم شامل ہے اور نہ ہی کہیں کسی ایک مسلم کا نام سامنے آیا ہے، وہ الگ بات ہے کہ ایسے مواقع پر پولیس، خفیہ اداروں، تحقیقی ایجینسیوں اور میڈیا کا دوغلا پَن اپنانے کی وجہ سے وقتی طور پر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے، ان کو بدنام کرنے اور مذہبِ اسلام کی شبیہ کو مسخ کرنے کی ناکام کوششیں ہر بار بڑے پیمانے پر کی گئیں، لیکن پولیس اور ایجینسیوں کی طرف سے جب عدالتوں میں پختہ ثبوت پیش نہ کئے جا سکے تو گرفتار شدہ مسلم نوجوانوں کو باعزت رہائ بھی نصیب ہوئ اس کے بعد تمام دنیا کے سامنے ملک کی متعصبانہ پولیس اور تحقیقی ایجینسیوں اور دوغلی میڈیا کا دوغلا پن آشکارہ ہوا اور جگ ہنسائی اور کِرکِری بھی ہوئ۔
اسی سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دو مرتبہ شاہین باغ میں گولی کا چلنا، اس سے پہلے گاندھی جی کے یومِ شہادت پر جامعہ کے گِرد پُرامن و پُرسکون انداز میں احتجاج کرتے ہوئے لوگوں پر ‘گوپال نامی شخص کا پولیس کی موجودگی میں نِہتے مظاہرین پر گولی چلانا، اس سے قبل نقاب پوش بلوائ اور غنڈوں کے ذریعے جامعہ کیمپس میں داخل ہو کر وہاں کے اسٹوڈنٹس کے ساتھ ہاتھاپائی کی ناکام کوشش کرنا؛ ان تمام کو اتفاق یا محض گھٹنا سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا بلکہ کسی بھی جمہوری نظامِ حکومت میں اگر پے بہ پے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو ان کو منظّم سازش اور حکمراں طبقے کی طرف سے طے کردہ پِلاننِگ کا حصہ کہا جانا چاہیئے اور اہلِ علم و ماہرینِ تحقیق کو پیش آمدہ حادثات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش و جستجو کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا چاہئیے؟ اور مذکورہ واقعات میں تو کوئی ڈھکی چھپی بات ہے ہی نہیں، یہاں تو سب کچھ جگ ظاہر ہے۔ معاملہ کی تہہ تک جانے میں بس تحقیقی اداروں کی تھوڑی سی ہمت و جرآت درکار ہے، وہ اس لئے کہ یہاں سب سے بڑا جو سوال کھڑا ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ پولیس؛ جس کی اولین ذمہ داری امن و امان کو سبوتاژ کرنے والوں کو سبق سکھانا اور جرائِم پیشہ افراد کو لگام دینا ہو کیا وہ ایسے مواقع پر ہاتھ میں ہاتھ ڈالے یوں ہی مجسم تصویر بنی سب کچھ شرپسندوں کے حوالے کرکے لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کا دم بھرتی رہےگی؟
کیا وہ نقضِ امن پیدا کرنے والوں کی پیٹھ تھپتھپانے کےلئے ان کے آگے پیچھے دائیں بائیں کھڑے ہو کر تماشا دیکھنے کے واسطے بھرتی کی جاتی ہے؟
کیا اسے ہوا میں لہراتے پِسٹل کو دیکھ کر خود کو دو قدم آگے بڑھا کر اس کو روکنے یا کسی بڑی شازش کو رچنے سے باز رہنے کی اپنی طرف سے سنجیدہ کوشش نہیں کرنی چاہیے تھی؟
اور جب یہی حملہ آور شخص ‘کپل گوجرپولیس کی کسٹدی میں آتا ہے تو اس کی بات کو سن کر اور بھی زیادہ حیرت ہوتی ہے، اس لئے کہ جو بات اس نے کہی ہے وہ ملک کی سلامتی اور اس میں آباد اقلیتوں کےلئے اور بھی زیادہ خطرناک ہے؛ وہ کہتا ہےکہ:
’’یہ ملک ہندؤں کا ہے اور یہ ہندوراشٹر وادی ہے یہاں جو بھی چلےگا وہ صرف ہندؤں کا ہی چلےگا’’ اتنا بولتے ہی وہ ‘جئے شری رام‘‘ کا نعرہ لگاتا ہے اور کہتا ہےکہ یہ (احتجاج کرنے والے، مسلمان) ہوتے کون ہیں؟
اب یہاں مزید کچھ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں رہ جاتی، اس لئے کہ سب جانتے ہیں کہ کِس کے اِشارہ پر شاہین باغ میں احتجاج کر رہی خواتین کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ اس معاملہ کو بی جے پی کے ‘انوراگ ٹھاکر اور یوپی کے وزیرِاعلیٰ کا نامناسب اور آئین مخالف بیان دینے والوں کی کم ظرفی، گھٹیا سوچ اور ان کی فرقہ واریت پر مبنی سیاست کا نتیجہ ہی کہا جا سکتا ہے اور حالیہ واقعات کو ان کے بیانات سے مربوط کیا جا سکتا ہے جو انہوں نے دہلی اسمبلی کے ہونے والے انتخابات کی فضا کو اپنی پارٹی کے حق میں ہموار کرنے کے واسطے شاہین باغ میں کئے جانے والے احتجاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
’’دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو ۔ جو بولی سے نہیں سمجھےگا اسے گولی سے سمجھایا جائےگا‘‘، وغیرہ۔
بی جے پی لیڈران کی طرف سے آنے والے یہ بیانات اور نوجوان طبقے کو جرائم پر آمادہ کرنے والی یہ غیر مہذب اور ناشائستہ گفتگو نہیں بتا رہی ہے کہ یہ لوگ ملک کو کس انارکی کا شکار بنا دینا چاہتے ہیں؟ اسی طرح مرکزی حکومت کی طرف سے آئے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف پورے ملک میں جو احتجاج ہو رہے ہیں، جس میں مسلمانوں سمیت سبھی اقلیتوں کے لوگ شامل ہیں، کسی بھی جمہوری ملک میں احتجاج و مظاہرہ عوام کا آئینی، دستوری اور جمہوری حق ہوا کرتا ہے، اور ایسا بھی نہیں ہےکہ یہ سیاہ قانون جس کی زد میں تمام اقلیتی طبقات کا مستقبل داؤ پر لگا ہے وہ پہلی مرتبہ حکومت کے خلاف سڑکوں اور روڈوں پر اترے ہوں بلکہ جب بھی کبھی حکومتوں نے ایسے قانون بنائے یا ایوان میں بِل پیش کئے تو انصاف پسند اور سیکولر ذہن افراد نے ہمیشہ ان بِلوں کی مخالفت کی ہے اور جو بھی مناسب اور جمہوری طریقہ ہو سکتا تھا اس کی مخالفت میں تحریکیں چلائ ہیں اسی لئے آج بھی مرکزی حکومت کے اس سیاہ قانون کی مخالفت میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ وہ تمام طبقات کے لوگ بھی شامل ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اگر آج ہم نے مسلمانوں کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر اس بل کی مخالفت میں صدائے احتجاج بلند نہیں کی اور بل کی واپسی میں اپنا تعاون نہیں دیا تو کل ہمیں بھی سکھ، عیسائی اور دلت و اقلیتی برادری کے زمرے میں لاکر اس ملک کے شہری ہونے سے ہاتھ دھونا پڑےگا۔ اس لئے وہ تمام طبقات اس میدانِ عمل میں متحد و متفق ہیں اور یہی آپسی اتحاد و اتفاق ہماری شناخت، قومی یکجہتی کی علامت اور یہی باہمی رواداری اس ملک کی خوشحالی و ترقی کی ضامِن ہے۔
Comments are closed.