انسانیت کا پیغام — چین کے نام کرونا وائرس اور روحانی علاج !

مفتی محمد زاہد ناصری القاسمی
ہمارے پڑوسی ممالک میں ایک عوامی جمہوریہ چین بھی ہے، جس کو مختصر لفظوں میں عموماً چین اور چائنہ بھی کہتے ہیں، دنیا بھر کے مسائل حل کرنے کا مدعی’’اقوام متحدہ سلامتی کونسل‘‘(United Nations Security Council) کے پندرہ ارکان میں سے پانچ مستقل اراکین ہیں، جن میں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس کے ساتھ چین بھی ایک مستقل رکن ہے، کسی بھی قرارداد کے پاس ہونے کے لیے ان پانچوں کا متفق ہونا ضروری ہے، ان میں سے کسی ایک نے بھی ویٹو کردیا، یعنی قرارداد کی مخالفت میں ووٹ ڈال دیا تو وہ پاس نہیں ہو سکتی۔
چین میں ایک صوبہ ہوبائی (Hubei) ہے، جس کی راجدھانی ووہان (Wuhan) کہلاتی ہے، جو ایک کروڑ دس لاکھ کی آبادی والا شہر ہے، ان دنوں چین میں ایک وبا پھیلی ہوئی ہے، جس کا مرکزی مقام وہی مذکورہ شہر ہے، چین کے علاوہ تھائی لینڈ، امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ میں بھی اس نے دستک دیدی ہے، ماہرین نے مذکورہ وبا کا نام "کورونا وائرس”(Corona Virus) رکھا ہے، اس کے بارے میں اب تک ہمیں جو معلومات حاصل ہوئی ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں: یہ وائرس کسی بھی انسان کو ایک سے چودہ دنوں کے درمیان اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے، اس کی علامتوں میں بخار، سردرد، نزلہ و زکام، سوکھی کھانسی، سانس لینے میں دشواری اور رفتہ رفتہ پھیپھڑے کا ناکارہ ہونا ہے، یہ علامتیں فورا بھی ظاہر ہوسکتی ہیں کہ ایک انسان اپنی معمولاتِ زندگی میں مصروف رہتے ہوئے وائرس سے متاثر ہوکر اچانک موت کے آغوش میں چلا جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک انسان وائرس سے متاثر تو ہو؛ لیکن مذکورہ بالا علامتیں فورا ظاہر نہ ہوں، اب تک اس وائرس سے سیکڑوں لوگ ہلاک، جبکہ ہزاروں افراد متأثر ہو چکے ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ وائرس میں پھیلاؤ، یعنی متعدی ہو نے اور دوسروں کو لگنے کی غیر معمولی صلاحیت موجود ہے، علامات کے بغیر کسی متأثر شخص کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اسے کوئی مرض لاحق ہے؛ لیکن وہ اس کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتا ہے، اسی وجہ سے اس پر قابو پانے میں بہت ہی زیادہ دشواریاں ہیں، یہ خیال بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں پھیلا ہے۔
واضح رہے کہ دوائیں دو طرح کی ہوتی ہیں: ایک وہ جو کسی بیماری کوکم یا ختم کرنے کے لیے ہوتی ہے، جسے میڈیسن (Medicine) کہا جاتا ہے اور دوسری وہ جو حفظِ ماتقدم کے طور پر بیماری سے حفاظت کے لیے استعمال کی جاتی ہے، اسے ویکیسین (Vaccine) کہا جاتا ہے، طبی ماہرین کے مطابق نہ تو اس کے لیے میڈیسین موجود ہے اور نہ ہی ویکیسین۔
اس میں دو رائے نہیں ہے کہ عالم اسباب میں چین بھی اپنی ایک مستقل شناخت اور پہچان رکھتا ہے، بظاھر اس کے پاس ہر طرح کے وسائل موجود ہیں اور وہ ہر اعتبار سے ایک طاقتور اور مستحکم ملک سمجھا جاتا ہے؛ لیکن مذکورہ وائرس نے وہاں کے عوام و خواص اور ارباب اقتدار کو حیران و پریشان کر رکھا ہے، وہ انگشت بدنداں ہیں اور ان کی نیندیں اڑ چکی ہیں؛ کیونکہ وہ اتنا خطرناک وائرس ہے، جو کبھی بھی حاکم و محکوم میں فرق کیے بغیر کسی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اس سے حفاظت کی تمام ممکنہ تدبیریں اختیار کر نے میں دن و رات ایک کیے ہوئے ہیں؛ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جو قوم یاد ماضی کو عذاب سمجھ کر اسے فراموش کر دیتی ہے اور اس سے سبق حاصل کرنے کی بجائے صرف مستقبل کی پلاننگ کو ہی کافی سمجھتی ہے، انھیں نہ تو ناکامیوں سے نجات ملتی ہے اور نہ ہی کوئی پائیدار کامیابی حاصل ہوتی ہے؛ لہذا میں اس موقع پر انہیں اولا احتساب، یعنی ماضی کی سرگزشت کا جائزہ لینے کی دعوت دیتا ہوں، وہ غور کریں کہ آخر یہ سب کیوں ہورہاہے اور اس کی وجوہات کیا ہیں؟؟ ہم بہت ہی غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ان کا یہ حال رب چاہی زندگی کو چھوڑ کر من چاہی زندگی میں کھو جانے کی وجہ سے ہواہے، اللہ تعالیٰ نے روئے زمین میں جن حلال اور پاکیزہ چیزوں کو پیدا فرمایا ہے، تمام انسانوں کو انہی پر اکتفا کرنے کی اجازت دی ہے، شیطان کے نقوش قدم پر چلنے کی ممانعت فرمائی ہے اور اس کو انسان کا کھلا ہوا دشمن بتایا ہے۔(سورہ بقرہ : 168) مختلف ذرائع سے یہ بات کردش کررہی ہے کہ ان کے وہاں کھانے میں خنزیر، کتا، بلی، سانپ، بچھو، چوہا اور چمگادڑ وغیرہ کا استعمال عام سی بات ہے، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ان ہی چیزوں کی وجہ سے یہ وائرس وجود میں آیا ہے اور الحمدللہ اس کا تھوڑا بہت احساس چین کی حکومت کو بھی ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نے خنزیر کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اب تک ہزاروں کی تعداد میں اسے ہلاک بھی کیا جا چکا ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مذکورہ اشیاء ہمارے مذہب میں ناجائز و حرام ہیں اور وہ کسی بھی طرح سے انسانی مزاج و طبیعت کے موافق نہیں ہوسکتیں، مگر چونکہ انسان مختلف الاعتقاد ہوتے ہیں اور اختلاف عقائد کا اثر اختلاف مسائل کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے؛ چونکہ ہم لوگ الحمدللہ مسلمان ہیں اور ہمارے یہاں ان چیزوں میں حلال و حرام کا لحاظ ہوتاہے، وہ چونکہ مسلمان نہیں ہیں؛ اس لیے کوئی یہ کہ سکتا ہے کہ وہ ہماری شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کے مکلف نہیں ہیں، ممکن ہے ان کے پاس اس کی اجازت موجود ہو، مگر ہاں! ایک اور وجہ ہے اور وہ ہے ظلم، جس کی اجازت کسی بھی مذہب میں نہیں دی گئی ہے، حتیٰ کہ ظالم بھی اسے صحیح نہیں سمجھتا، یہ اور بات ہے کہ ظلم کے وقت اس کی بصارت و بصیرت سلب ہو جاتی ہے؛ اس لیے وہ اس میں مبتلا ہو جاتا ہے، قرآن کریم میں مختلف مقامات پر، مختلف پیرائے میں اس کی ممانعت کی گئی ہے، مثلا ایک جگہ یہ اعلان موجود ہے کہ : ’’والله لا يحب الظالمين ‘‘ (آل عمران : 57) اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتے” اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا :” اتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ ؛ فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ "(صحیح بخاری، حدیث نمبر : 2448)ترجمہ : "مظلوم کی بد دعا سے بچو؛ کیونکہ اس کی بد دعا اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب اور پردہ نہیں ہوتا ہے”۔
ایک وقت تھا جب چین میں ایغور مسلمانوں پرظلم و زیادتی کی انتہا کردی گئی تھی، انھیں بری طرح زدوکوب کیا گیا تھا، زبردستی ان کی داڑھیاں مونڈی گئی تھیں، قرآن مجید کے نسخے جلائے گئے تھے اور دس لاکھ مسلمانوں کو اپنی زمین و جائیداد ہوتے ہوئے بھی، اپنوں سے دور "حراستی کیمپ” میں نظر بند کردیا گیا تھا، جو آج بھی وہیں کسمپرسی کے عالم میں کسی طرح جی رہے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کی اور ان کے رشتہ داروں کی آہیں اپنا رنگ دکھا رہی ہوں اور اللہ کا ڈراؤنا عذاب” ہی "کرونا وائرس” کی شکل میں آیا ہو؛ اس لیے خیر اسی میں ہے کہ ان مظلوموں کی نظر بندی ختم کرکے انھیں بھی آزادی کے ساتھ زندگی گزار نے کے مواقع فراہم کیے جائیں؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے اور اس کے عذاب سے نجات حاصل کرنے کے لیے یہ بھی ایک اہم تدبیر ہے؛ اس لیے چینی حکومت سے ہماری یہ درخواست ہے کہ موجودہ متأثرین کے بارے میں جس طرح آپ لوگ فکر مند ہیں، اسی طرح ایغور مسلمانوں کے بارے میں بھی غور وفکر کریں، اگر آپ ان پر رحم کریں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ بھی رحم کا معاملہ فرمائیں گے، کیونکہ صحابی رسول حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک پیام رحمت اس طرح نقل کیا ہے :” الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمُ الرَّحْمَنُ، ارْحَمُوا مَنْ فِي الْأَرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ، الرَّحِمُ شُجْنَةٌ مِنَ الرَّحْمن، فَمَنْ وَصَلَهَا ؛ وَصَلَهُ اللَّهُ، وَمَنْ قَطَعَهَا ؛ قَطَعَهُ اللَّهُ "(سنن ترمذی، حدیث نمبر :1924)ترجمہ : "رحم کرنے والوں پر خدائے رحمان کی رحمت ہوتی ہے؛ اس لیے زمین والوں پر رحم کریں تو آسمان والے، یعنی فرشتے رحمت کی دعائیں اور اللہ پاک رحمت کا نزول فرمائیں گے، رحمت رحمان کی لازمی صفت ہے؛ لہذا جو اسے اختیار کرے گا اللہ اسے اپنا قرب عطا کریں گے اور جو اس سے دور رہے گا اللہ تعالیٰ اسے اپنے سے دور کردیں گے۔”
ڈاکٹروں کا یہ کہنا کہ مذکورہ وائرس ایک متعدی بیماری ہے تو اس سلسلے میں یہ بات ذہن میں رہے کہ ساری کائنات کو ایک اللہ نے تنہا وجود بخشا ہے اور نظامِ کائنات اسی کی مشیت، یعنی چاہنے اور نہ چاہنے پر موقوف ہے، ہرطرح کا خیر وشر اور بھلائی و برائی اسی کی طرف سے مقدر ہے، اللہ تعالیٰ جسے بیماری میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں، بیماری اسی کو اپنی گرفت میں لیتی ہے، قرآن کریم میں اس حقیقت کا واضح اعلان موجود ہے :”ما أصاب من مصيبة إلا بإذن الله…..” (سورہ تغابن: 11)ترجمہ : "کوئی مصیبت اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی”، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک عام ضابطہ بتادیا ہے کہ ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی ہے؛ چنانچہ حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” لَا عَدْوَى’….”(صحیح بخاری، حدیث نمبر : 5707) "ترجمہ : کوئی بھی بیماری متعدی، یعنی مؤثر بالذات نہیں ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خود آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کسی مریض سے دوری اختیار نہیں فرمائی، بلکہ بعض بیماروں کے ساتھ کھانا بھی تناول فرمایا ہے؛ چنانچہ حضرتِ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجذوم، یعنی کوڑھ سے متأثر شخص کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ پیالے میں رکھا اور فرمایا کہ بسم اللہ پڑھ کر، اللہ پر اعتماد اور اسی پر بھروسہ کرتے ہوئے کھاؤ۔”(سنن ترمذی، حدیث نمبر : 1817)
ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں بھی وبا پھیلتی ہے وہاں کے سارے لوگ ہلاک نہیں ہوتے، بلکہ کچھ لوگ ہلاک ہوتے ہیں اور اکثر محفوظ رہتے ہیں، یا اکثر لوگ ہلاک ہوتے ہیں اور کچھ لوگ بچ جاتے ہیں، مگر چونکہ لوگ مختلف الاعتقاد ہوتے ہیں؛ لہذا جو کامل الاعتقاد ہوں، ان کے لیے تو وہی حکم ہے جو اوپر بیان ہوا؛ لیکن جو عقیدہ کے کمزور ہوں، یا جن کے بارے میں فساد عقیدہ کا اندیشہ ہو تو ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک الگ احتیاطی فرمان جاری فرمایا ہے؛ چنانچہ بخاری شریف کی مذکورہ بالا روایت کا ہی ایک حصہ یہ بھی ہے کہ: ” فِرَّ مِنَ الْمَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الْأَسَدِ ".(صحیح بخاری، حدیث نمبر : 5707)ترجمہ : مجذوم، یعنی کوڑھی سے اسی طرح احتیاطی تدابیر اختیار کرو، جس طرح شیر سے کرتے ہو۔
لہذا اگر مذکورہ بالا آیت پاک اور حدیث شریف کے پہلے جملے کے مطابق یہ عقیدہ ہو کہ بیماری بھی اللہ ہی کے حکم سے آتی ہے اور دوسرے جملے کے مطابق ڈاکٹروں کی پیش کردہ احتیاطی تدابیر پر عمل کر لیا جائے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے؛ بلکہ فساد عقیدہ کا ڈر ہو تو اس پر عمل کرنا لازم اور ضروری ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے پیرانہ سالی اور موت کے علاوہ جو بھی بیماری نازل فرمائی ہے، اس کی دوا بھی مقرر فرما دی ہے، مگر اس دوا کی تلاش وجستجو کامکلف اس فن کے ماہرین کو بنایا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَاءً إِلَّا أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً ".(صحیح بخاری، حدیث نمبر : 5678)ترجمہ: اللہ نے جو بھی بیماری نازل فرمائی ہے، اس کے لیے شفا بھی اتاری ہے۔”لیکن شفا یابی کے لیے بھی چند شرائط ہیں :
(١) کسی ماہر ڈاکٹر نے بیماری کی صحیح تشخیص کی ہو۔ (٢) تشخیص شدہ بیماری کے مطابق صحیح دوا تجویز کی گئی ہو۔ (٣) اللہ تعالیٰ نے شفا دینے کا فیصلہ فرمایا ہو۔ مذکورہ تینوں باتیں درج ذیل حدیث شریف سے سمجھ میں آتی ہیں، صحابی رسول حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ، فَإِذَا أُصِيبَ دَوَاء الدّاءَ بَرَأَ بِإِذْنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ".(صحیح مسلم، حدیث نمبر : 2204) "ترجمہ : ہر بیماری کی دوا موجود ہے، جب دوا مرض تک پہنچتی ہے تو اللہ عزوجل کے حکم سے شفایابی ہوتی ہے۔
ماہرین موجودہ وائرس کے لیے دوا کی تلاش وجستجو جاری رکھیں، بیماری کی ہر پہلو سے تشخیص کریں، دوا کی دریافت کے بعد صحیح اور مناسب مقدار میں مریض کو کھلائیں اور پھر شفا کی امید اللہ سے رکھیں، زندگی باقی ہوگی تو انشاءاللہ صحت بھی حاصل ہوگی، ورنہ تو موت بھی برحق ہے، ہمیں معلوم ہے کہ ایک وقت تک کینسر لاعلاج مرض تھا، مگر اب اس کا علاج موجود ہے، ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اب کینسر کے مریضوں کو شفا مل رہی ہے؛ لیکن یہ خبر بھی ہے کہ علاج کے باوجود بہت سے بیمار مرجاتے ہیں، یہ سب خدائے واحد کی کرشمہ سازی نہیں تو اور کیا ہے؟
طبیب عالم جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیمار اور بیماری سے متعلق بلا تفریق دین و دھرم تمام ہی انسانوں کے لئے مختلف دعائیں بیان فرمائی ہیں، بعض دعاؤں میں تو کچھ بیماریوں کا نام بہ نام تذکرہ بھی موجود ہے، جبکہ کچھ دعائیں ایسی بھی ہیں جو قیامت تک آنے والی تمام بیماریوں کو محیط ہیں، ان میں سے دو دعائیں میں قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں :(١) خادم رسول حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (عموماً) یہ دعا کیا کرتے تھے : ” اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبَرَصِ وَالْجُنُونِ وَالْجُذَامِ، وَمِنْ سَيِّئِ الْأَسْقَامِ ".(سنن ابوداؤد، حدیث نمبر : 1554)ترجمہ : "اے اللہ ! میں برص، جنون، کوڑھ اور تمام بری اور مہلک بیماریوں سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔(۲) صحابی رسول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر کوئی آدمی کسی کو مصیبت میں مبتلا دیکھے اور یہ دعا پڑھ لے تو وہ مصیبت اسے نہیں پہنچیگی :” الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلَاكَ بِهِ، وَفَضَّلَنِي عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلًا ……”(سنن ترمذی، حدیث نمبر : 3432)ترجمہ : "تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے اس مصیبت سے جس میں آپ مبتلا ہیں، مجھے محفوظ رکھا ہے اور بہت سی مخلوقات پر مجھے فضیلت بخشی ہے۔
یعنی مرض و بیماری، فقر و محتاجی، آفات سماوی، ظلم نا انصافی، قید و بند اور ذلت و رسوائی وغیرہ مصیبت ہی کے انواع واقسام ہیں، اگر ہم اللہ کی کسی مخلوق کو ان میں سے کسی میں بھی مبتلا دیکھ کر مذکورہ دعا پڑھ لیں گے تو اللہ تعالیٰ اس سے ہماری حفاظت فرمائیں گے۔
یہ تو وہ دعائیں ہیں جو بیماری یا پریشانی سے اپنی حفاظت کے لیے پیش بندی کے طور پر پڑھیں جاتی ہیں، رہی وہ دعائیں جن کے ذریعے کسی بیمار کی شفایابی مقصود ہو تی ہے، ان میں سے دو یہ ہیں :(١) سات مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھ کر مریض کو اس طرح پھونکا جائے کہ تلاوت کرنے والے کے تھوک کے اجزاء کی چھینٹے اس تک پہنچیں، اس کا ثبوت صحابی رسول حضرت ابوسعید انصاری رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے ہوتا ہے، جو بخاری شریف اور دیگر کتب حدیث میں موجود ہے، روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ تیس افراد پر مشتمل صحابہ کرام کی ایک جماعت نے دوران سفر ایک گاؤں میں شب گذاری فرمائی، گاؤں کے پردھان کو ایک بچھو نے ڈس لیا تھا اور علاج کی ساری تدبیریں ناکام ہو چکی تھیں، گاؤں کے کچھ لوگ حضرات صحابہ کرام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا قصہ سناکر دریافت کیا کہ کیا آپ میں سے کسی پاس اس کا کوئی علاج موجود ہے؟ ایک صحابی نے جواب دیا کہ ہاں، میں جھاڑ پھونک سے واقف ہوں، چنانچہ وہ تشریف لے گئے اور انہوں نے مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق علاج فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے پردھان کو شفایاب کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا تو آپ نے "أصبتم” فرماکر ان کی تصویب و تحسین بھی فرمائی۔(فتح الباری شرح صحیح بخاری، حدیث نمبر :2276)(٢) ” صحابی رسول حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : "جو شخص کسی ایسے مریض کی عیادت کرے، جس کی موت کا وقت ابھی نہ آیا ہو اور سات مرتبہ یہ دعا پڑھے تو اللہ تعالیٰ اسے اس بیماری سے عافیت عطا فرمادیتے ہیں”۔ وہ دعا یہ ہے :” أَسْأَلُ اللَّهَ الْعَظِيمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ أَنْ يَشْفِيَكَ ".(سنن ابوداؤد، حدیث نمبر : 3106)ترجمہ : میں عظمت و برتری والے اللہ سے، جو عرش عظیم کا مالک ہے، آپ کو شفا یاب کرنے کی درخواست کرتا ہوں۔
لہذا مذکورہ بالا دعاؤں، یاان کے علاوہ جن دعاؤں سے آپ واقف ہوں، ان کا خوب اہتمام کریں، ساتھ ہی اپنے اہل خانہ اور متعلقین کو بھی اس طرف متوجہ کریں، نیز غیر مسلم بھائیوں اور بہنوں کا بھی خاص خیال رکھیں؛ کیونکہ اعلان خداوندی کے مطابق ہم پوری انسانیت کے فائدے کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔(آل عمران : 110)
اخیر میں ہم مصیبت کی اس نازک گھڑی میں چینی حکومت، وہاں کے باشندوں اور کرونا وائرس سے متأثر لوگوں سے اظہار غم کرتے ہیں اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ جو لوگ مبتلا ئے مرض ہیں انھیں شفائےکلی عطا فرمائے اور جو لوگ اب تک محفوظ ہیں انھیں آئندہ بھی محفوظ رکھے، آمین۔
ناظم : مدرسہ صفۃ الصحابہ ، وادئ عمر، شاہین نکر، حیدرآباد
Comments are closed.