شہریت ترمیمی سیاہ قانون؛خواتین کی تحریک رنگ ضرور لائیگی!

عاقل حسین
بیوروچیف قومی تنظیم مدھوبنی
شہریت ترمیمی سیاہ قانون کے خلاف ملک میں گذشتہ 2؍مہینہ سے ملک کی خواتین اور نوجوان سڑکوں پر ہیں اپنا آندولن برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ان کا آندولن ضرور رنگ لائے گا۔ کیوںکہ ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی خواتین نے کسی بھی تحریک کی باگ ڈور سنبھالی ہے وہ تحریک کامیابی کے منزل تک پہنچی ہے۔ آج ملک کے دارالسلطنت دہلی میں سی اے اے، این آرسی اور این پی آر کے خلاف تقریباً گذشتہ 2؍ مہینہ سے شاہین باغ کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف ریاستوں کے گائوں اور قصبوں میں خواتین احتجاج کررہی ہیں۔ مرکزی حکومت کے وزراء شاہین باغ میں احتجاجی تحریک چلارہی خواتین کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں‘ ملک کے وزیر داخلہ سے لے کر ملک کے وزیر اعظم تک انتخابی ریلیوں میں اس کا ذکر کرتے ہیں۔ لگتا ہے انہیں احساس ہورہا ہے کہ یہ خواتین نہ تو ڈرنے والی ہیں اور نہ ہی ہٹنے والی ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر مرکزی حکومت کے وزارء اور بی جے پی لیڈران کو بار بار سبھائوں اور رات کے خوابوں میں شاہین باغ ہی کیوں نظر آرہا ہے؟ ویسے بھی ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ خواتین نے تحریک کی قیادت کی ہے تو جو بھی حکمران رہے ہوں‘ انہیں پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔ حالیہ کچھ سالوں میں ملک کی شمالی مشرقی ریاست منی پور امپال کی ایک خاتون 47؍ سالہ ایروم شرمیلا حقوق انسانی کی علمبردار کے طور پر شہریت حاصل کرچکی ہیں۔ کیوںکہ وہ منی پور میں آرمی کے مبینہ مظالم اور سخت گیر قانون آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ (افسپا) کی منسوخی کے لئے4؍نومبر 2000سے9؍ اگست 2016 تک 16؍ سال تک بھوک ہڑتال کے ذریعہ تحریک کرچکی ہیں۔ تحریک کو کمزور کرنے کے لئے حکومت نے اسے خودکشی کرنے کی کوشش کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ اس کےبعد بھی خاتون نے اپنی تحریک کمزور نہیں ہونے دی اور پولیس کی نگرانی میں اس کا سالوں تک اسپتال میں علاج کرایا گیا۔ ناک کے راستے غذائی اشیاء اس کے بطن تک پہنچائی گئی اس کے بعد بھی خاتون نے تحریک ختم نہیں کی۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل نے حکومت سے آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ (افسپا)کو ختم کرنے اور ایروم کے خلاف درج سبھی مقدمات کو ختم کرنے کی اپیل کی تھی۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم کے جاری بیانیہ میں کہاگیا تھا کہ ایروم کی 16؍ سال تک تحریک اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ حقوق انسانی کی علمبردار ہیں اور ایک خاص سماج میں آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ (افسپا) جیسے قانون کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس لئے اس قانون کی منسوخی اور مذاکرات کے لئے ایک موقع دیا جانا چاہئے۔ ایک خاتون جب ایک سیاہ قانون کے خلاف 16؍ سال تک تحریک چلاسکتی ہے اور اس کا نوٹس بین الاقوامی حقوق انسانی تنظیم لیتی ہے تو پھر شہریت ترمیم سیاہ قانون کے خلاف ملک کے مختلف ریاستوں میں سڑکوں پر کروڑوں خواتین اُتری ہوئی ہیں اور مرکزی حکومت اس قانون کو واپس کیوں نہیں لے سکتی ہے؟ خواتین اور نوجوانوں کی جاری تحریک کو منزل تک پہنچنے میں کچھ وقت ضرور لگے مگر امید قوی ہے کہ ان کی تحریک ضرور رنگ لائے گی۔

Comments are closed.