۔۔۔۔احتجاج جاری رہے

ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)
سرکار نے لوک سبھا میں کہا ہے کہ ’ پورے ملک میں ٰاین آر سی لانے کے بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے ‘ یہ بات ایک سوال کے جواب میں تحریری طور پر کہی گئی۔اس لئے اسے سرکار کا سیاسی نہیں بلکہ سرکاری اقدام سمجھنا چاہئے لیکن کتنے لوگ ہیں جو سرکار کی باتوں پر بھروسہ کرتے ہیں؟ جب ملک گیر این آرسی کی کوئی چرچا نہیں ہوئی کوئی فیصلہ نہیں ہوا تواس سے پہلے ہی وزیر داخلہ پورے ملک میں اس کی کرونولوجی کیوں سمجھا تے پھر رہے تھے؟ شہریت ترمی قانون ( سی اے اے ) کے پہلے ہی سے ملک گیر این آرسی کی باتیں کیوں ہورہی تھیں؟کرونولوجی سمجھائی جارہی تھی کہ پہلے شہریت ترمیمی قانون آئے گا پھر ملک گیر این آرسی کیا جائے گا، ہند و ’ شرناتھیوں ‘ کو شہریت دی جائے گی لیکن ایک ایک گھس پیٹھئے یعنی این آر سی میں شہریت ثابت نہ کر پانے والے مسلمانوں کو یاتو ڈیٹینشن سینٹر میں ڈال دیا جائے گا یا ملک سے باہر نکال دیا جائے ۔ سرکار سی سے سے اور این آر سی کو دراصل اپنی کٹر ہندووادی اور مسلم مخالف شبیہ کے عملی مظاہرے کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے لیکن ملک کے ہندوؤں کو سمجھنا چاہئے کہ اگر ملک گیر این آر سی ہوا تو اس میں مسلمانوں سے زیادہ ہندو ہوں گے جو اپنی شہریت ثابت نہیں کر پائیں گے جیسا کہ آسام میں ہوا ۔ اسی صورت حال سے نمٹنے کے لئے یعنی شہریت ثابت نہ کرپانے والے ہندوؤں کو واپس بھارتی شہریت دینے کے لئے ہی سرکار سی اے اے لائی ہے لیکن ہندوؤں کو خوش نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ایک تو یہ کہ انہیں بھی شہریت ثابت کر نے کے دشوار مرحلہ سے اسی طرح گزرنا ہوگا جس طرح مسلمان گزریں گے اور اگر وہ شہریت ثابت نہ کرپائے تو دوبارہ شہریت کے حصول کے لئے انہیں یہ کہنا ہوگا کہ وہ دراصل اس ملک بھارت کے بنیادی شہری نہیں ہیں بلکہ پڑوسی ممالک پاکستان بنگلہ دیش یا افغانستان سے بھاگ کر غیر قانونی طور پر یہاں آ بسے ہیںجبکہ ہم مسلمان اگر ڈیٹینشن کیمپ میں بھی ڈالیں جائیں گے یا ملک بدر بھی کئے جائیں گے تو ہم یہی کہیں گے کہ ہم اصل بھارتی ہیں ہمارے باپ دادا بھی یہیں پیدا ہوئے اوراسی مٹی میں مل چکے ہیں ، ہم کسی ملک سے بھاگ کر یہاں نہیں آئے ،سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ارے ہم تو ہندوؤں سے زیادہ بھارتی ہیں کہ آزادی کے بعد جب ہمیں ہندوستان اور پاکستان کے متبادل دئے گئے تو ہم نے ہمارے نام پر بنے پاکستان کو ٹھوکر مار کر اسی بھارتی سر زمین کو اپنا ملک چنا اوریہ بات اگر سرکار نہیں بھی مانے گی تو دنیا ضرور مانے گی کہ یہ تاریخی طور پر ثابت اور بین الاقوامی طور پر منظور شدہ ہے ۔دوسرے یہ کہ ابھی یہ طے نہیں ہوا کہ اس نئے بھارت یعنی این آر سی کے بعد کے بھارت یا ہندو راشٹر میں سی اے اے کے تحت شہریت پانے والوں کی حیثیت کیا ہوگی کیا انہیں پہلے ہی کی طرح شہری سمجھا جائے گا یا یہاں بسائے گئے ’شر نارتھی‘؟خاص طور سے ان لوگوں کا کیا جنہیں ابھی ریزرویشن اور دوسرے خصوصی حقوق حاصل ہیں کیا ان کی یہ سہولیات اسی طرح قائم رہیں گی یا چھین لی جائے گی؟ ہوسکتا ہے کہ این آر سی کے بعد ہندوؤں کو اپنے حقوق کے لئے اسی طرح احتجاج کرنا پڑے جس طرح آج سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ہو رہے ہیں تو مستقبل کی اس صورت حال سے بچنے کے لئے ہندوؤں نے آج مسلمانوں سے زیادہ تعداد میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاجات میں شامل ہونا چاہئے ۔ یہ صرف مسلمانوں کی لڑائی نہیں ہے بلکہ ملک کے ہر ہر شہری کی لڑائی ہے ،ہندو مسلم اورذات پات سے اوپر اٹھ کر ملک کے تمام شہریوں کو اس لڑائی میں اسی طرح شامل ہونا چاہئے جس طرح انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی میں ہمارے پرکھے شامل ہوئے تھے ۔ اورخوش آئند ہے کہ یہ تحریک اسی طرح بڑھ رہی ہے ۔ پہلے تواس تحریک کوصرف مسلمانوں سے جوڑنے کے لئے ایک ورگ وشیش کا احتجاج اور ایک ورگ وشیش کے لئے احتجاج بھی کہا جا چکا ہے ، ابتداء میں اس میں ہوئے تشدد اور توڑ پھوڑ کے بہانے اسے delegitimise کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے لیکن احتجاج میں مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کی بڑی تعداد میںشمولیت نے اور تشدد کے بالکل خاتمے نے اس احتجاج کو ورگ وشیش کے طعنے سے بھی دور کردیا ہے اور legitimiseبھی ۔ نہ صرف دہلی شاہین باغ میں مسلسل احتجاج ہورہا ہے بلکہ ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں شاہین باغ بنائے جارہے ہیں ۔ پہلے مودی جی کا وزیر داخلہ کی کرونولوجی سے انکار کرتے ہوئے ملک گیر این آر سی کو خارج کرنا اور اب لوک سبھا میں خود وزارت داخلہ کا مذکورہ بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک گیر پیمانے پر ملک کے تمام شہریوں کے اجتماعی اور گنگا جمنی احتجاج نے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹنے کا اعلان کر نے والی سرکار کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا ہے ۔لیکن یہ سب بھی ابھی ادھورا ہے کیونکہ حکومت دوہری سیاست کر رہی ہے ایک تو اس نے بڑی شاطرانہ چال چلتے ہوئے ملک گیر این آر سی کے انکار کو بھی ’ ابھی یا فی الحال‘ سے مشروط کیا ہے ۔دوسرے اس نے دہلی میں ترقی ورقی کو چھوڑ کر شاہین باغ کو انتخابی اشو بنایااور احتجاجیوں کے خلاف اشتعال انگیزی اور دشنام طرازی پر اتر آئی ہے ، وزیر داخلہ نے شاہین باغ کو کرنٹ لگانے کے لئے ووٹ مانگا توایک وزیر محترم نے دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو کا نعرہ لگا کر دراصل سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ہی غدار کہا ہے اور ان کے اس نعرے کے بعد ’ غداروں ‘ کو گولیاں مارنے والے بھی میدان میں نکل آئے ہیں ،اسی طرح ان کی پارٹی کے ایک لیڈر نے دلی میں ہندوستان پاکستان کی لکیر بھی کھینچ دی ،یعنی مطلب صاف ہے کہ حتجاج کو بدنام کر کے اور ملک گیر این آر سی سے انکار کر کے حکومت کسی بھی صورت احتجاج ختم کروانے کی سازش کر رہی ہے ،احتجاج کے ختم ہونے کے بعد ،حالات نارمل ہونے کے بعد حکومت یک لخت ملک گیر این آر سی کا فیصلہ کرلے ، ایسا ہوا تو ہمیں پھر نئے سرے سے احتجاج شروع کرنا ہوگا اس لئے بہتر ہوگاکہ اسی احتجاج کو اس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک حکومت یا تو سی اے اے واپس نہیں لے لیتی یا اس میں مسلمانوں کو بھی شامل نہیں کرلیتی ۔سمجھئے ابھی ہم نے ایک مرحلہ طے کیا ہے منزل اب بھی دور ہے لیکن ہمارا احتجاج اسی طرح چلتا رہا تو جیت ان شاء اللہ بھارت کے شہریوں کی ہی ہوگی۔
Comments are closed.