ملک کے حالات، شاہین باغ اور حیات الحیوان

شہاب مرزا ،9595024421
یہ بات آج ثابت ہوئی ہے کہ کم ظرف کے پاس جب قوت حاصل ہوجاتی ہے تو وہ کسی کی جان ومال کی پرواہ کیے بغیر بربادی کا طوفان کھڑا کرتا ہے انسانیت کے خون سے ہولی کھیلنے میں جسے سفلی خوشی حاصل ہونے لگتی ہے اس سفلی تسکین کے حصول کی خاطر وہ بلا تفریق اپنے و پرائے کے نقصان کی پرواہ نہیں کرتا اسے مجموعی طور پر انسانیت کے خوشحالی تکلیف دہ ثابت ہوتی ہے یہ مرحلہ نہ انسانیت ساز ہوتا ہے اور نہ انسان سوز ہوتا ہے اسی طرح یہ مرحلہ ہے انسانیت و حیوانیت کے درمیان کا مرحلہ ہوتا ہے، یا مرد و زن کے درمیان کا یا غم و خوشی کے درمیان کا یا انصافی و ناانصافی کے درمیان کا مرحلہ ہوتا ہے اس مرحلے کے تعلق سے علامہ سیدقطب شہید نے فرمایا کہ اس مرحلے میں گرفتار لوگوں کی علامت ہوتی ہے کہ وہ زنجیروں سے باہر اپنے آپ کا تصور کرنے کی قدرت نہ رکھے پر جنکی آزادی میں وہ حالت ہوتی ہے جو مچھلی کے پانی سے نکال دیا جانے پر ہوتی ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کبھی آزاد کردیا جائے تو آزاد انسانوں کے مابین انہیں چلنا پھرنا بھی پرائے پن کا احساس دلاتا ہے طبعی زندگی گزارنا ان کے لئے سوحان روح ہوتا ہے ان کے آنکھیں آزادی کے روح سے چندھیانے لگتی ہے اور پھر وہ دوبارہ غلامی کے اندھیروں میں جاکر پناہ لینے کے لیے ترسنے لگتے ہیں ایسے ہی کم ظرف لوگوں کی غلامی کے اندھیروں کی تمنائوں نے چند ایسے کم ظرفوں کے ہاتھ میں اپنی غلامی کی زنجیریں تھمائی ہیں ۔
اور ان زنجیروں کے ساتھ ایک برقی کوڑا بھی تھما دیا گیا جسے ہر لمحہ جان لیوا آذیتیں حاصل ہوسکے اب آن چند کم ظرفوں کی کم ظرفی اور بیوقوفی کا خمیازہ ملک کی پوری انسانیت کو بھگتنا پڑ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ آج اس ملک میں برپا طوائف الملوکی پر کوئی خاطر خواہ حل نہیں ہے چار ماہ قبل آپ نے بھی ایک تصویر سوشل میڈیا پر دیکھی ہوگی –
پانی کی ایک بلند ٹنکی پر دو گدھے کھڑے تھے سوال یہ نہیں تھا کہ یہ گدھے اوپر کیسے پہنچے بلکہ مسئلہ یہ تھا ان گدھوں کو نیچے اتارنے کی غرض سے جو بھی پہل کرے گا اس شخص کو ان گدھوں کی لاتوں سے زخمی ہونا پڑے گا ان دونوں گدھوں کو اس دوران میں اس بات کا قطعی احساس نہیں ہوگا اور نہ تکلیف ہوگی کہ اس میں کسی کا کیا نقصان ہوسکتا ہے ان کی دم ہلانے کے اداروں نے بھی شاعر کے اس مصرعے کی طرح
کسی کی ادا ٹھہری، کسی کی جان گئی۔والامعاملہ درپیش ہے ان دونوں گدھوں کو نہ قانون سے واقف ہوتی ہے اور نہ ہی دستور کا احساس ہوتا ہے جس کی بنیادیں آزادی مساوات اور بھائی چارے پر مبنی ہو بلکہ ان کی ہر لات کی ایک چوٹ منوازم پر غلامی عدم مساوات اور زہر بھری دشمنی کی مہر چسپاں ہوتی ہے کہ وہ غلامی ہے جس کا ذکر علامہ سیدقطب علی کے الفاظ میں مذکورہ بالا جملوں میں گزر چکا ہے۔
اس ملک میں صدیوں سے اس بات کا رونا رہا کہ منوازم کے نام پر پڑنے والی لاتوں کی شکل میں نکلنے والی مظلوم انسانیت کی آہوں کہ الفاظ ہمیشہ صرف اور صرف مسلمانوں ہی کے لئے قابل ترس ثابت ہوئے ہیں تاریخ بتاتی ھیکہ اس کا علاج سب سے پہلے سلطان محمود غزنوی کے ہاتھوں ہوا اور بعد آذان انگریزوں اور کمیونسٹوں نے اس کیمیا کو بخوبی استعمال کیا لیکن افسوس کے مریض بجائے گدھوں کے انسان ہوتے تو علاج ممکن تھا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں کو اتنی بلند پانی کے ٹنکی سے نیچے اتارنے کا اولین کارنامہ حیات ثابت ہوگا اور رہی بات چوٹوں کے زخم کا تو اسے غزنوی مرہم سے درست کیا جاسکتا ہے لیکن پہلے چوٹ بھی کھانی پڑے گی اور ان چوٹوں کو کھانے کی تیاری کا آغاز شاہین باغ کے نام سے ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں گدھے شاہین باغ کے نام سے گھبرانے لگتے ہے اور اس احتجاج سے اتنے گھبرائے ہوئے ہیںکہ شاہین باغ احتجاج کو بدنام کرنے، ملک مخالف ثابت کرنے کی بے نتیجہ کوشش کر رہے ہیں کبھی کسی سنگھی کو پستول لیکر بھیجتے ہے کبھی جاسوسی کرنے گنجن برقعہ پہن کر شاہین باغ پہنچ جاتی ہے لیکن احتجاج جاری ہے شاہین باغ میں احتجاج کر رہی خواتین کے حوصلے، جذبے کے ساتھ صبر استقامت، ذہانت کی بھی داد دی جانی چاہیے بنا کسی بدنظمی کے احتجاج نے دو ماہ مکمل کر لئے لیکن پتہ نہیں اسمیں کتنا وقت لگے گا لیکن اب جبکہ شروعات ہوچکی ہے تو اس تحریک کو جاری رکھ کر دونوں گدھوں کو نیچے اتارنا ہوگا کیونکہ جس دن اس تحریک میں جمہوریت نواز عوام کو جیت حاصل ہوگی اسی دن منوازم کی قبر کی کھدائی شروع ہوگی عوام سے التماس ہےکہ اپنے شہر میں شاہین باغ کا قیام کرے اور اگر شاہین باغ قائم ہے تو اسے آباد رکھے۔
Comments are closed.