شاہین باغ جلیان والا باغ بن جائے گا ۔۔؟

عارف شجر
حیدرآباد، تلنگانہ ،8790193834
دہلی اسمبلی انتخاب کے دوران جس طرح سے شاہین باغ کے مظاہرے کو لے کر اسے مدعا بنایا گیا اور فرقہ پرست لیڈروں کے ذریعہ نفرت انگیزنعرے اور بیانات دئے گئے اور انکے بیانات اور نعروں سے متاثر ہو کر چند نوجوان اپنے ہاتھوں میں پستول لے کر مظاہرین پر گولی چلانے کی کوشش کی وہ یقینا ہمارے ملک کے لئے اچھے اشارے نہیں کہے جائیں گے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ اتر پردیش سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ، وزیر مملکت انوراگ ٹھاکراور بی جے پی لیڈران نے جس طرح سے مسلمانوں کے خلاف خصوصی طور سے شاہین باغ کے مسلم خواتین کے خلاف زہر اگلا اور نازیبہ الفاظ کا استعمال کیا اس سے یہ بات صاف ہو گئی ہے کہ بی جے پی نہ تو ملک سے محبت کرتی ہے اور نہ ہی آئین پر اسے یقین ہے وہ صرف اور صرف ملک میں نفرت کی سیاست کرکے ملک کو توڑنا چاہتی ہے آپسی اتحاد میں دراڑ پیدا کرنا چاہتی ہے حالانکہ الیکشن کمیشن نے بی جے پی کے ذریعہ دئے گئے نفرت انگیز بیانات پر شکنجہ تو کسا لیکن جب اعلیٰ کمان کا ہاتھ سر پر رہے تو انہیں کون بگاڑ سکتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شاہین باغ کا احتجاج مرکزی حکومت کے لئے سر درد بن گیا ہے پچاس دنوں سے زائد مظاہرے نے پی ایم مودی اور امیت شاہ کے ہوش اڑا دئے ہیں انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا کریں کیوں کہ شاہین باغ کی خواتین نے یہ عہد کر لیا ہے کہ جب تک پوری طرح سے سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کو مرکزی حکومت واپس نہیں لیتی ہے تب تک وہ یہیں جمے رہیں گے ایک اینچ بھی نہیں ہٹیں گے،حالانکہ امیت شاہ نے یہ چاہا تھا کہ شاہین باغ کو وہاں سے ہٹایا جائے لیکن فوراً انکے دماغ میں یہ بات آئی کہ کیوں نہ اسے دہلی اسمبلی انتخاب کا مدعا بنا لیا جائے کیوں کہ دہلی انتخاب میں بی جے پی کے پاس نہ تو کوئی ٹھوس مدعا تھا اور نہ ہی سی ایم کا چہرہ اس لئے امیت شاہ ائینڈ کمپنی نے اس سلگتے ہوئے مدعے کو غنیمت سمجھا اور اسے دہلی اسمبلی انتخاب تک مدعا بنائے رکھا اور شاہین باغ میں مظاہرہ کر رہے خواتین اور بچوں کو کیا کچھ نہیں کہا گیا یہاں تک کہ انہیں’’ دیش دروہ، اور دہشت گرد‘ ‘ تک قرار دے گیا ان پر پیسے لے کر دھرنے پر بیٹھنے کا الزام عائد کیا گیا یعنی دہلی کے عوام کے دلوں میں جتنا بھی ہو سکامسلمانوں کے خلاف نفرت بھرا گیا ووٹوں کا پولورائزیشن کرنے کی کوشش ہوئی، کہا تویہ بھی جارہا ہے کہ مرکزی حکومت نے مظاہرین کے مطالبے کو نہ مان کر پورے ملک کو شاہین باغ بنا دیا، اب آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کی جانب سے جو خبر آ رہی ہے وہ یقیناً چونکانے والا ہے۔آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین صد و رکن پارلیا منٹ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ شاہین باغ میں این آر سی ، سی سی اور این پی آر کے خلاف ہو رہے مظاہرے حکومت اپنے طاقت کے زور پر آٹھ فروری کے بعد ہٹا سکتی ہے، مرکزی حکومت شاہین باغ میں گولیاں چلوا کر جلیان والا باغ بنا سکتی ہے کیوں کہ بی جے پی کے وزراء نے گولی مارنے والے بیان دئے ہیں اور اسکا تجربہ وہاں ہو چکا ہے جس سے ہمیں ڈر ہے کہ حکومت شاہین باغ کو جلیان والا باغ بنا دے۔رکن پارلیا منٹ بیرسٹر اسد الدین اویسی کے اندیشے میں کتنی سچائی ہے یہ تو آنے والاوقت بتائے گا لیکن اس سچائی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس کی شروعات اتر پردیش کے اعظم گڑھ سے چکی ہے وہاں جس طرح سے یوگی حکومت کی پولیس نے بربریت کا ثبوت دیا وہ مذمت کے قابل ہے۔ اعظم گڑھ کے ہالاریہ گنج میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاج کررہے مظاہرین کے خلاف 19 لوگوںپر ملک سے غداری کا کیس درج کیا گیاہے اور کئی کو پولیس نے غداری کے علاوہ آئی پی سی کے دیگر دفعات کے تحت گرفتار کیا ہے حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ایک 16 سالہ نابالغ جو کسی دھابہ میں صاف صفائی کا کام کرتا تھا اسے بھی پولیس نے ملک سے غداری کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے پولیس کا الزام ہے کہ ملزمین نے بالا ریہ گنج پولیس اسٹیشن حدود میں آنے والے جوہر علی پارک میں شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے خلاف ا حتجاج کے دوران فساد برپا کیا اور مخالف ملک نعرے لگائے ہیں ایک عورت جس کا نام منی بانو ہے اسکا بھی نام ایف آئی آر میں درج ہے ویسے جس طرح سے.30منٹ تک قاسم گنج علاقے میں جوہر پارک پر پولیس نے لاٹھی چارج کی اور آنسو گیس شل برسائے ہیں اس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ بی جے پی اب شاہین باغ پر بھی بر بریت اور ظلم کا نگا ناچ کرنے کے لئے تیار بیٹھی ہے۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی کا اندیشہ شاید اعظم گڑھ اور لکھنو میں یوگی حکومت کی کاروائی کو دیکھ کر دیا گیا ہے، اگر مرکزی حکومت کے ذریعہ بچوں خواتین ضعیف مائوں پر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں اور گولیاں چلاتی ہیں تو اسے جلیان والا باغ ہی کہا جائے گا اس کے بعد ملک کس سمت جائے گا یہ کہا نہیں جا سکتا۔
بہر حال! دہلی کے شاہین باغ کو لے کر ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک کی نگاہیں بھی ٹکی ہو ئی ہیں کہ مرکزی حکومت انکے جائز مطالبے کو قبول کرتی ہے یا پھر ان پر گولیاں چلاتی ہے یہ بڑا سوال ہے۔ حالانکہ دہلی اسمبلی الیکشن میں بی جے پی نے ٓخری لمحہ میں جس شدت کے ساتھ ہندو مسلمان، شاہین باغ، بریانی، گولی، غدار دہشت گرد اور دیش دروہ کا کھیل کھیلا ہے اس سے تو وہ دہلی میں اپنی حکومت نہیں بنا سکتے لیکن ایک بات تو طے ہے کہ پی ایم مودی اور امیت شاہ اپنی شکست کا غصہ شاہین باغ پر ضرور اتاریں گے کیوں کہ مرکزی حکومت کے سامنے جو سب سے بڑا پتھر ہے وہ ہے شاہین باغ اوربی جے پی نہیں چاہے گی کہ شاہین باغ کی خواتین دھرنے پر بیٹھے رہیںکیوں کہ پی ایم مودی اور امیت شاہ کو اسکا بخوبی علم ہے کہ اگر یہ دھرنا زیادہ دن تک چل گیا تو آئندہ بہار اور مغربی بنگال میں ہونے والے انتخابات پر بھی اسکا برا اثر پڑ سکتا ہے اور بی جے پی کو بہار اور بنگال سے بیشتر سیٹوں کا خسارہ ہو سکتا ہے، بی جے پی کو اگر سب سے زیادہ فکر لاحق ہے تو وہ ہے بہار کیوں کہ وہاں جے ڈی یو کے ساتھ انکاتال میل ہے اگر بہار انکے ہاتھ سے نکل گیا تو بی جے پی ریاستوں میں اپنا وجود کھو دے گی اپنے وجود کو باقی رکھنے کے لئے پی ایم مودی اور امیت شاہ کی یہ کوشش ہو گی کہ شاہین باغ میں ہو رہے احتجاج کو کسی بھی طرح سے ختم کیا جائے یا بات چیت کے ذریعہ سے یا پھر طاقت کے زور پر حالانکہ مرکزی حکومت نے صاف کر دیا ہے کہ وہ سی اے اے پر کوئی بھی بات نہیں کرنا چاہتی یعنی اس معاملے میں وہ ایک اینچ پیچھے نہیں ہٹے گی وہیں شاہین باغ کی دلیر اور جانباز خواتین نے بھی پی ایم مودی اور امیت شاہ کو منھ توڑ جواب دیا ہے کہ وہ بھی سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کو واپس لے کر ہی دم لیں گی انکا احتجاج جاری رہے گا وہ بھی ایک اینچ تو کیا آدھا اینچ بھی ہٹنے کو تیار نہیں ہیں اب مسئلہ یہ ہے کہ یہاں بات چیت اور صلاح مشورہ کی بات تو دونوں جانب سے ختم ہوتی نظر آرہی ہے اب اسکے بعد مودی حکومت کا کو ن سا مثبت قدم ہوگا یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
Comments are closed.