بدل ڈالو حکمرانوں کا مزاج

مولانا محمد احمد سجادی
امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
برسوں پہلے سے فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل کی بربریت اورجفاکشی کی خبر کا، پرنٹ اورالیکٹرونک میڈیاکے توسط سے ہندوستانی مسلمان مطالعہ اورمشاہدہ کررہے ہیں، ان کی دہشت گردی اورسفاکیت کا منظر ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا نے دیکھاہے کہ کس طرح ان ظالموں نے فلسطین کے مسلمان مردوعورت،بوڑھے حتی کہ معصوم بچوں اوربچیوں کو بھی اپنے ظلم وستم کا نشانہ بنارکھاہے، جس کے نتیجہ میں لاکھوں مسلمان ملک چھوڑنے پر مجبورہوئے، ۲۰۱۷ء میں برما کے اندر مسلمانوں کے قتل عام کا درانگیزواقعہ رونما ہوا، جس کے نتیجہ میں ہزارہاہزارمسلمان ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے اورکسی نے بنگلہ دیش توکسی نے ہندوستان کا رخ کیا،تاکہ ان کی جان وایمان کی حفاظت ہوسکے، گذشتہ چھ سالوں سے ہندوستانی مسلمان بھی شدت پسندوں کے ظلم وستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور اس وقت اپنے وجود کے تحفظ کی خاطر رات دن ایک کرنے میںسر گرداں ہیں۔
فلسطین سے برما اوربرما سے ہندوستان تک مسلمانوں پر جو غیروں کی جانب سے ظلم وبربریت کا طوفان برپا ہواتو اس میں ایک بات تمام ملک کے مسلمانوں میں مشترک تھی اوروہ یہ کہ جب ان ملکوں کے مسلمانوں پر فرداً فرداً غیروں کی جانب سے حملے ہورہے تھے تواسی ملک میں دوسری جگہوں پر بسنے والے مسلمانوں نے ان مظلوم مسلمانوں کی کسی بھی اعتبارسے مدد نہ کی ،نتیجہ یہ ہواکہ ظلم کا دائرہ بڑھا اوراس کی گرفت میں وہ مسلمان بھی آگئے جوخود کو محفوظ سمجھ رہے تھے، ماضی قریب کی چھ سالہ ہندوستانی تاریخ سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ کیسے موجودہ حکومت نے فرقہ پرست اورشدت پسندلوگوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے یکے بعد دیگرے مسلمانوں پر مصائب ومشکلات کے پہاڑ توڑے ،سب سے پہلے تو ان شدت پسندوں نے موجودہ حکومت کی حمایت پا کر ماب لنچنگ کے ذریعہ لوگوں کو مارا اور حکومت نے انہیںاس کام کیلئے کھلی آزادی دیکر مجرموں کو سزا دینے کے بجائے ان کا پھولوں کے ہار سے سواگت کیا۔
گذشتہ چھ سالوں میں متعدد جگہوں پراس قسم کے واردات متعدد بار دہرائے گئے، لیکن کوئی بھی ہاتھ مدد کے لئے آگے نہیں آیا اورنہ اس کے خلاف ایسی کوئی پُر زورآواز بلند ہوئی، جو اس قسم کے واردات کو روک سکے، موجودہ حکومت نے مسلمانوں کی شریعت پر حملہ کرتے ہوئے طلاق مخالف قانون بنایا، مسلمانوں نے دفاع کرنے کی بہت کوششیں کیں، مگر ناکام رہے، کشمیر سے دفعہ ۳۷۰؍ہٹا کر وہاں جنگل راج قائم کیا تو دوسری طرف مسلمانوں سے عدالت کے توسط سے بابری مسجد چھین لی گئی، آسام کے اندر این آر سی نافذ کرکے وہاںکے کمزور مسلمانوں اور دلت طبقہ کے لوگوں کو پریشان کیا گیا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ مسلمانوں نے ان تمام معاملوں میںچھوٹے موٹے احتجاج کرنے کے بعد خاموشی اختیار کر لی اور اس سے زیادہ کر بھی کیا سکتے تھے ،یہاں مسلمانوں کی آواز سنتا کون ہے ؟ حد تو ہیکہ بعض مسلمانوںنے یہ سمجھ لیا کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے،چنانچہ اللہ رب العزت نے ہندوستان میں بسنے والے تمام مسلمانوں پر موجودہ حکومت کے ذریعہ سی اے اے اور این آر سی جیسے سیاہ قانون کو مسلط فرماکے ایسے حالات پیدا فرمادئیے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہرمسلمان کو اپنی جان وایمان اور اپنے وجودکے تحفظ کی خاطر میدان میں کودنا پڑا، جب مسلمانوں نے ہمت وحوصلہ دکھایا، خصوصاً ملت اسلامیہ کی مائوں، بہنوں اور بیٹیوں نے اس سیاہ قانون کے خلاف سڑکوں پر نکل کر جرأت مندی کا مظاہرہ کیا تو آسمان نے وہ منظر بھی دیکھا کہ ماضی میں جو خواتین جنگوں کے اندر دوسری صف سنبھالتے ہوئے اپنے زخم خوردہ بھائیوں کی مرہم پٹی اور علاج و معالجہ کیا کرتی تھیں، آج وہ صف اول میں مشغول احتجاج ہیں ، امت مسلمہ ان ماؤں اور بہنوں پرفخر کر رہی ہے ، جنہوں نے ان نازک حالات میں امت مسلمہ کی قیادت کرنے کے لئے حضرت عائشہ ؓ کی طرح میدان میں نکل پڑیں تو کہیں حضرت فاطمہ زہرہؓ کی طرح اپنے زخم خوردہ بھائیوں کے زخموں پر مرہم رکھتی ہوئی نظر آئیں، کہیں حضرت خدیجہؓ کی طرح اپنے غم زدہ شوہروں کو دلاسہ دیتی نظر آئیں تو کہیں خنساء شاعرہؓ(جو چار شہید بیٹوں کی ماں تھیں ) کی طرح اپنے بیٹوں کو مد مقابل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے پر ابھارتی ہوئی نظر آئیں اور کہیں حضرت حمزہؓ کی بہن کی طرح اپنے شہید بھائیوں کی نعشوں کو دیکھ کر مزید جذبہ ایمانی سے سرشار ہوتی نظر آئیں ۔ غرض اس نازک دور میں بھی جہاں چہار جانب فرقہ پرست طاقتوں کا دبدبہ ہے ، ملت اسلامیہ کی ان ماؤں اوربہنوں نے اسی بہادری اوردلیری کامظاہرہ کیااورمسلسل کررہی ہیں جو تاریخ کے سنہرے اوراق پر آب زرسے لکھنے کے قابل ہے او ر جس طرح اس سیاہ قانون کی مخالفت کرتے ہوئے یوپی اور بہار کے ۲۴ /۲۵ نوجوانوں نے ملک کا چین وسکون چھیننے والوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وطن کی محبت میں جام شہادت نوش کیا ان کا یہ مبارک عمل شدت پسندوں اور فرقہ پرستوں کو یہ باور کراتاہے کہ مسلمان اس ملک کی سا لمیت پرکبھی آنچ نہیں آنے دیں گے،آج ان کی ہی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ اس وقت پورا ملک خواہ ہندوہویا مسلم، سکھ ہو یاپارسی ، عیسائی ہو یا بودھسٹ سب ایک ساتھ کھڑے ہیں، سب نے اس پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھا اوران کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ گرچہ آج بندوق مسلمانوں کے کاندھوں پر ہے مگر مستقبل میں نشانہ ہم سب ہوں گے یہی وجہ ہے کہ آج سب کی زبان پر ملک کے آئین اوردستورکو بچانے کا نعرہ اوردلوں میں ملک کی سا لمیت ،بقاء اورتحفظ کی فکر ہے۔ ہردور میں مقابلہ کا طریقہ مختلف رہاہے،یہ وہ دور نہیں کہ مد مقابل سے لڑنے کے لئے ہتھیار نکالے جائیں،بلکہ یہ قانونی اور پرامن احتجاجی لڑائی کا دور ہے۔ جب انگریزوں سے آزادی کی لڑائی لڑی جارہی تھی تواس وقت ہمارے جانباز علماء اوربرادران وطن نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اورملک کو آزادی دلانے کے لئے ہزاروں علماء اوربرادران وطن نے پھانسی کے تخت کو چوم کر یہ پیغام دیاکہ:
باطل سے دبنے والے اے آسمان نہیں ہم سوبار کرچکاہے توامتحاں ہمارا
اُس وقت مقابلہ غیروں سے تھاتوہمارے بڑوں نے یہ جرأت مندی دکھائی اورآج مقابلہ اپنے ہی ملک کے چند شدت پسند لوگوں اور حکمرانوں سے ہے ،اس لئے اس وقت اکابرین ملت نے فیصلہ کیاکہ موجودہ لڑائی سیکولر ذہن کے برادران وطن کو ساتھ لیکر لڑنا ضروری ہے۔چنانچہ اس خاکہ پر عمل کرتے ہوئے امت مسلمہ اپنے اکابرین کی ہدایت پر برادران وطن کو ساتھ لیکر’’سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کے خلاف مورچہ سنبھالے ہوئے ہے۔ جس کافائدہ یہ ہواکہ شدت پسند، لاکھ کوششوں کے باوجود اس لڑائی کو ہندومسلم بنانے میںکامیاب نہ ہوسکے اورجس ہمت وحوصلہ اور جواں مردی کے ساتھ برادران وطن اور ہماری غیر مسلم مائیں اور بہنیں مسلمانوں کے ساتھ ہیں،اگر ایسے وقت میں مسلمانوں نے ایک قدم بھی پیچھے ہٹایاتونہ صرف برادران وطن کا حوصلہ ٹوٹے گا ،بلکہ اس ملک میں ہمیشہ ہمیش کے لئے مسلمانوں کی شہریت بھی خطرہ میں پڑ جائیگی اوربدلے میں غلامی اورذلت ورسوائی والی زندگی دے دی جائے گی۔
چنانچہ موجودہ حالات میںا مت مسلمہ کا پہلا کام تو یہ ہے کہ ان اکابرین ملت کی ہدایات پر عمل پیراہونے کی کوشش کی جائے ۔اور دوسرا کام جو کرنے کا ہے وہ یہ ہے کہ مسلکی اختلافات کو ختم کرتے ہوئے ’’آپ فلاں ہیں ،آپ فلاں ہیں ‘‘کا نعرہ چھوڑ کر ’’آپ ہمارے ہیں ،آپ ہمارے ہیں‘‘کا نعرہ لگایا جائے۔ تیسرا کام یہ ہے کہ ان تمام طرح کی سیکولر(سیاسی و غیر سیاسی ) جماعتوں کی مکمل حمایت کی جائے جو مسلمانوں کے مسئلہ کو اپنا مسئلہ سمجھ کر شدت پسندوں اور فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف انصاف کی لڑائی میں مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہیں،اسلئے کہ اس وقت شدت پسندوں سے مقابلہ کرنے کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ جنگ آزادی میں ہندو مسلم اتحاد کی نظیر کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسلمان اپنے برادران وطن کوساتھ لے کر اس لڑائی کو لڑیں۔ اور سب سے اہم کام یہ ہے کہ اللہ سے مسلمانوںکا جو رشتہ کمزورہو چکا ہے اسے اپنے اعمال کی اصلاح اور اللہ کے سامنے گریہ وزاری اور توبہ واستغفار کرکے مضبوط بنایا جائے۔اگر یہ فضا عام ہوگئی تو آج بھی جنگ بدر کی طرح غیبی مددآسکتی ہے ، نمرود بنے ہوئے شدت پسندوں کی جانب سے بھڑکائی ہوئی نفرت کی آگ کو آج بھی ٹھنڈا کیا جاسکتاہے،اور غیروں کے دلوں میںامت مسلمہ کا رعب ودبدبہ آج بھی پیدا ہو سکتاہے۔
Comments are closed.