شاہین باغ کا کرنٹ۔۔۔۔

ایم ودود ساجد
دہلی کے عوام نے بی جے پی کی نفرت آمیز سیاست کے منہ پر زوردار طمانچہ جڑ دیا ہے۔۔۔انہوں نے شاہین باغ تک کرنٹ پہنچانے کی اپیل کرنے والوں کو ہی زوردار کرنٹ لگادیا ہے۔۔۔
سوال یہ ہے کہ اروند کجریوال کو دہشت گرد کہنے والوں کو کیا نام دیا جائے؟ میرا خیال ہے کہ دہلی کے عوام نے بالواسطہ طور پراس کا جواب بھی دیدیا ہے۔دہلی کے عوام نے ’غداروں‘ کو گولی مارنے والوں کو بھی بتادیا ہے کہ جن کو تم سمجھتے ہو غدار وہ نہیں ہیں بلکہ غدار تم خود ہی ہو۔۔۔انہوں نے ان غداروں کو اپنے ووٹ کی ضرب سے زمین دوز کردیا ہے۔
2015 کی طرح اس بار بھی عام آدمی پارٹی بھاری اکثریت کے ساتھ حکومت بنالے گی۔۔۔ گوکہ اس کی چند سیٹیں کم ہوگئی ہیں؛ لیکن اس کے ووٹ کا فیصد بڑھ گیا ہے۔۔۔ اس بار اسے 54 فیصد سے زیادہ ووٹ ملا ہے۔لیکن جو زہر انتخابی مہم کے دوران بی جے پی کے لیڈروں نے اُگلا تھا اس نے بھی اپنا کچھ اثر ضرور دکھایا ہے۔۔۔۔بی جے پی کو 40 فیصد ووٹ حاصل ہوا۔اس کی سیٹوں میں بھی چند کا اضافہ ہوا۔۔۔کانگریس وہیں رہی جہاں پچھلے الیکشن میں تھی۔۔۔ یعنی اس کا فیصد محض چار رہا۔۔۔
بی جے پی نے دہلی پر قبضہ کرنے کے لئے کوئی حربہ نہیں چھوڑا۔۔۔اس نے اپنے 200 سے زیادہ ممبران پارلیمنٹ کو استعمال کیا۔ 70 مرکزی وزیروں کے علاوہ11صوبوں کے وزرائے اعلی کو بلاکر انتخابی جلسے کرائے گئے۔۔۔ یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو بلایا گیا جنہوں نے دہلی میں کئی روز ٹھہر کر زہر اگلا۔۔۔۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے طوفانی دورے کیے اور لوگوں کے دروازوں اور گلی کوچوں میں جاکر اپنے ہاتھ سے پمفلٹ تقسیم کیے۔۔۔یہی نہیں خود وزیر اعظم نے ریلیاں کیں۔۔۔امت شاہ نے بابر پور کی ایک ریلی میں لوگوں سے کہا کہ اتنی زور سے ای وی ایم کا بٹن دبانا کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ تک پہنچے۔۔۔ یہی بات انہوں نے نجف گڑھ میں بھی دوہرائی۔۔۔ لطف کی بات یہ ہے کہ بابر پور اور نجف گڑھ اسمبلی سیٹ کے ووٹروں نے اتنی زور سے بٹن دبایا کہ خود بابر پور اور نجف گڑھ میں ہی بی جے پی کے امیدوار شکست کھا گئے ۔۔۔ یعنی امت شاہ کے اس زہریلے اور نفرت آمیز بیان کا کرنٹ خود بابر پور میں ہی نہیں لگ سکا۔۔۔
دہلی کے ووٹروں نے ’غداروں‘ والے انوراگ ٹھاکر اور ’پاکستان‘ والے کپل مشرا کو بھی ذلت وحقارت کے ساتھ مسترد کردیا۔۔۔ جہاں تک شاہین باغ تک کرنٹ پہنچنے کی بات ہے تو اس کرنٹ نے بیک فائر کردیا۔۔۔ شاہین باغ کا علاقہ اوکھلا اسمبلی حلقے میں پڑتا ہے۔۔۔اوکھلا سے عام آدمی پارٹی کے امیدوار امانت اللہ خان نے ایک لاکھ 30ہزار ووٹ حاصل کیے اور بی جے پی کے امیدوار سے 72 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے کامیاب ہوگئے۔۔۔امانت اللہ کی یہ جیت جتنی شاندار ہے یہ اتنی ہی شرمناک امت شاہ کی شکست ہے۔۔۔بابر پور اور نجف گڑھ کے لوگوں نے ان کی کرنٹ والی اپیل کو جوتوں تلے روند کر رکھ دیا۔۔۔
شاہین باغ اب کسی ایک علاقے کا نام نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی ایک جگہ ہونے والے مظاہرے کی علامت ہے۔بلکہ یہ نام ہے ایک پوری جدوجہد کا جو اس وقت پورے ملک میں جاری ہے۔۔۔۔اس اعتبار سے دہلی کے عوام نے سی اے اے کے خلاف پورے ملک میں ہونے والے مظاہروں کی تائید کردی ہے۔ دہلی کا یہ الیکشن بہت سے نکات کے سبب تاریخی الیکشن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔۔۔ آنے والے چند دنوں تک بہت سے مبصرین اپنے اپنے طور پر تفصیلی تجزیات بھی پیش کریں گے۔۔۔ لیکن ابتدائی طور پر جو چند نکات سامنے آئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بی جے پی کو شکست فاش دے کر دہلی کے عوام نے سی اے اے کو بھی مسترد کردیا ہے۔
دہلی اسمبلی کے الیکشن کے یہ نتائج ایک طرح سے آرٹیکل 370 کے خاتمے‘تین طلاق پر بننے والے متنازعہ قانون اور سی اے اے کے خلاف ایک ریفرینڈم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دہلی کے ووٹروں کے دلوں میں ایک خاص فرقہ کا جو خوف بٹھانے کی کوشش کی گئی تھی اس الیکشن نے اس کوشش کو بھی روند کر رکھ دیا۔۔۔ دہلی میں مسلمانوں کی کوئی بڑی تعداد نہیں ہے۔ وہ محض پانچ سیٹوں پر مسلم امیدواروں کو کامیاب بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں؛ لہذا عام آدمی پارٹی نے جن پانچ امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا وہ سب فاتح ہوگئے ہیں۔
جمنا پار میں حاجی محمدیونس اور عبدالرحمن‘ مٹیا محل میں شعیب اقبال‘ بلیماران میں عمران حسین اور اوکھلا میں امانت اللہ کامیاب ہوئے ہیں۔۔۔۔ عام آدمی پارٹی سے برطرف کپل مشرا نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد دہلی کے ماحول کو زہر آلود بنانے کی سرتوڑ کوشش کی۔۔۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دہلی کے ووٹروں نے خود کپل مشرا کو بھی دھول چٹادی۔ جب کہ وہ کچھ دنوں تک کیجریوال حکومت میں وزیر بھی رہے تھے۔
بہر حال دہلی کے عوام نے پورے ملک کو ایک واضح پیغام دے دیا ہے۔ چند مہینوں میں مغربی بنگال’ بہار اور آسام میں الیکشن کا بگل بج جائے گا۔ اس کے امکانات کم ہیں کہ بی جے پی اپنا رویہ تبدیل کرلے گی۔۔۔ بلکہ اندیشہ یہ ہے کہ وہ مغربی بنگال میں اپنے رویے میں مزید شدت پیدا کرے گی۔۔۔ لہذا مغربی بنگال کے لوگوں کو بھی اس کی نفرت آمیز مہم کے لئے تیار ہوجانا چاہیے۔۔۔۔
Comments are closed.