Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد * جنرل سکریٹر اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
خلافِ شرع بات پر سکوت
سوال:- اگر احکام الٰہی اور حضور ا کے فرمان کے خلاف عمل ہو رہا ہے ، تو کیا آپسی اختلافات کے خیال سے خاموش رہنا چاہئے ؟ ( محمد خلیق احمد، ہمایوں نگر)
جواب:- رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جو شخص کسی برائی کو دیکھے ، تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے ، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے ، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو قلب سے برا محسوس کرے اور یہ ایمان کا سب سے کم تر درجہ ہے (صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۱۷۷۰)اس لیے برائی کو دیکھ کر قدرت کے باوجود اس پر خاموشی اختیار کرنا قطعاً درست نہیں، شرعا برائی سے روکنا واجب ہے ، اور اس پر بلا وجہ خاموشی اختیار کرلینا درست نہیں؛البتہ تنہائی میں حکمت و مصلحت کے ساتھ اصلاح کے جذبہ سے برائی پر ٹوکنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ یہ بات اس شخص کو تنہائی میں اور نرم لب و لہجہ میں کہی جائے ؛تاکہ اسے اپنی توہین کا احساس نہ ہو ؛ کیوں کہ مقصود اصلاح ہے نہ کہ توہین ۔
مائیک پر قرآن مجید کی تلاوت
سوال:-رمضان المبارک کے موقعہ سے لوگ سماعتِ قرآن کا نظم کرتے ہیں، قرآن مجید پڑھاجاتا ہے ،لوگ اسے سماعت کرتے ہیں ، بعض محلوں میں کوشش کی جاتی ہے کہ مائیک پر قرآن پڑھا جائے ؛ تاکہ محلہ کے سب لوگ اسے سن سکیں ، اس طرح مائیک پر قرآن کی تلاوت کا کیا حکم ہے ؟ ( عبدالصمد، کریم نگر)
جواب:- قرآن کی تلاوت میں بہ مقابلہ سماعت کے زیادہ اجر ہے؛کیونکہ تلاوت میں زبان بھی مشغول ہے ، نگاہ بھی، قرآں مجید ہاتھ میں ہوتو گویا ہاتھ بھی مصروف ِ عبادت ہے ، اورکان بھی اپنی تلاوت آپ سنتا ہے ،گویا جسم کے متعدد اعضاء ایک نیک کام میں شریک ہوتے ہیں، قرآن سننے کی صورت میں صرف کان ہی شریکِ عمل ہے؛اس لئے ظاہر ہے کہ قرآن پڑھنے کا اجر زیادہ ہے اور کوشش یہی ہونی چاہئے کہ لوگ اپنے اپنے طور پر تلاوت کا اہتمام کریں، یوں رسول اللہ ا نے بعض صحابہ ث سے قرآن سنا ہے :عن عکرمۃ قال : قال رسول اللّٰہ ا لأبي بن کعب ص : إنی أمرت أن أقرئک القرآن (مصنف ابن أبي شیبۃ ، بحوالۂ کنز العمال ، حدیث نمبر : ۳۶۷۷۱)اس لئے ایک شخص قرآن

پڑھے اور چند افراد ادب و احترام کی پوری رعایت کے ساتھ قرآن سنیں ، اس کی بھی گنجائش ہے؛ البتہ قرآن کی آواز سامعین تک محدود رکھنا چاہئے ، اگر مائیک لگا کر آپ نے آواز پورے محلہ تک پہونچا دی تو ظاہر ہے کہ محلہ میں لوگ اپنے کاموں میں مشغول ہوں گے ، کوئی قرآن کی طرف متوجہ ہوگا ،اور کوئی نہیں ،ہوسکتا ہے کہ لوگ اپنے مشاغل کی وجہ سے گرانی بھی محسوس کریں ، بات چیت میں مشغول رہیں ،اس سے قرآن مجید کی بے حرمتی ہوگی ،اور قرآن کا جو اَدب بتا یا گیا ہے کہ خاموشی اور توجہ کے ساتھ قرآن سناجائے : إِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَ اَنْصِتُوْا (اعراف: ۲۰۴) اس کی خلاف ورزی ہوگی، اور اس خلاف ورزی اور بے ادبی کا باعث وہ لوگ بھی بنیں گے، جنہوں نے بلا ضرورت مائیک لگا کر آواز دور دور تک پہنچائی ؛ اس لئے اس سے اجتناب کرنا چاہئے ۔
ختم نبوت اور تکمیل دین کا مطلب
سوال:-ختم نبوت کے بعد کسی شخص پر ایمان لانا اور اس کے حکم کو معاشرہ میں رواج دینا کہاں تک درست ہے؟ اور دین کے مکمل ہونے کا کیا مطلب ہے؟(عبید اللہ، مصطفیٰ آباد)
جواب:- انسانیت میں صرف انبیاء و رسل ہی وہ برگزیدہ ہستیاں ہیں، جو اللہ تعالی کی جانب سے اپنے منصب و مقام کے اعلان پر مامور ہوتی ہیں، اور وہ جانتے ہیںکہ انہیں مقام نبوت پر فائز کیا گیا ہے؛ اس لئے نبی پر ایمان لانا مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے، نبی کے علاوہ کوئی ایسی شخصیت نہیں جس کی حیثیت کا اقرار کرنا اور اس پر ایمان لانا مسلمان ہونے کے لئے شرط ہو، نبوت کا یہ سلسلہ ابو البشر سیدنا حضرت آدم ں سے شروع ہوا، اور ختمی مرتبت حضرت محمد ا پر مکمل ہوگیا، اب آپ اکے بعد کسی پر ایمان لانا ضروری تو کیا جائز بھی نہیں ، اور نہ کسی کا حکم حلال حرام کی بابت اس کی ذاتی حیثیت میں واجب الطاعت ہے، ختم نبوت اور تکمیل دین کا یہی مطلب ہے کہ شریعتِ الٰہی خاتم النبیین ا کے ذریعہ اپنی مکمل اور آخری شکل میں آچکی ہے، اس میں کسی اضافہ اور کمی کی گنجائش نہیں؛ البتہ کتاب و سنت میں بعض احکام تو صراحت و وضاحت کے ساتھ ذکر کئے گئے ہیں، اور بعض احکام وہ ہیں کہ قرآن و حدیث میں ان کی صراحت نہیں ملتی؛ لیکن ان مسائل کے حل کے لئے خود کتاب و سنت میں اصول و قواعد کی رہنمائی کی گئی ہے، اگر کوئی فقیہ ان کی روشنی میں مسئلہ کا حل نکالے، تو یہ ختم نبوت اور تکمیل دین کے منافی نہیں، اور ان احکام کی اتباع چونکہ اس گمان پر مبنی ہے کہ یہی اللہ اور رسول کا منشا ہے؛ اس لئے اس میں کوئی قباحت نہیں؛ بلکہ جو لوگ اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں ان کے لئے ایسے لوگوں کی تشریحات پر عمل کرنا واجب ہے، امام رازی ؒ نے اس پر گفتگو کی ہے ، اور اس پر وضاحت سے روشنی ڈالی ہے ، اسی ذیل میں امام رازی ؒ نے لکھا ہے کہ قیاس سے جو احکام ثابت ہوں وہ بھی دین ہی کا حصہ ہیں، اور ان کا شمار بھی اکمال دین میں ہے :ثم إنہ تعالی لما أمر بالقیاس وتعبد المکلفین بہ کان ذلک في الحقیقۃ بیانًا لکل الاحکام ، وإذا کان کذلک کان ذلک اکمالًا للدین(تفسیر الکبیر او مفاتیح الغیب: ۵؍۵۶۴) ہاں جن احکام کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو وہ قطعًا قابلِ رد ہیں ، حضور ا نے خود ایسی باتوں کو ناقابلِ قبول قرار دیا ہے:من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس فیہ فہو ردّ (بخاری، حدیث نمبر: ۲۶۹۷)
قرض کی ادائیگی میں زیادہ واپس کیا جائے ؟
سوال:-’’الف‘‘کے پاس ’’ب‘‘ کے کچھ روپے تھے ، اب جبکہ ’’ الف‘‘ روپے واپس کر رہا ہے تو اپنی طرف سے مزید کچھ تحفہ دے رہا ہے، تو کیا اس کو سود سمجھا جائے گا ؟ ( عبدالکریم، سنتوش نگر)
جواب:- اگر مقروض قرض خواہ کے مطالبہ و شرط کے بغیر اپنی طرف سے کچھ بڑھا کر قرض دہندہ کو دے دیاتو یہ صورت نہ صرف جائز؛ بلکہ مستحسن ہے ، اور خود رسول اللہ ا نے اس کی ترغیب دی ہے : استقرض رسول اللّٰہ ا سنا فاعطی سنا خیرا من سنہ وقال : خیارکم أحاسنکم قضاء ، عن أبي ھریرۃ ص ( الجامع للترمذي ، حدیث نمبر : ۱۳۱۶ ، باب ماجاء في استقراض البعیر أو الشییٔ من الحیوان ) قرض دہندہ کی طرف سے مطالبہ ہو ، یا مطالبہ تو نہ ہو؛ لیکن اس علاقہ میں مقروض کا بڑھا کر دینا مروج ہو ، یا یہ بات مشہور ہو کہ قرض دہندہ اسی شخص کو قرض دیتا ہے، جو کچھ اضافہ کے ساتھ قرض واپس کرے ، ان تمام صورتوں میں زیادہ دینا جائز نہیں ؛ بلکہ یہ سود میں داخل ہے ؛ کیوں کہ فقہاء کا اصول ہے کہ جو بات معروف و مروج ہو وہ شرط کے درجہ میں ہوتی ہے:المعروف عرفا کالمشروط شرعا (القواعد الفقھیۃلابن قیم: ص :۳۶۶ ) اور قرض میں اضافہ کی شرط لگائی جائے تو سود ہے۔
ایک نکاح دو بار
سوال:- میرے بھائی نے شرعی طریقے پر گھر والوں کے علم میں لائے بغیر نکاح کرلیا ہے ، گھر والوں میں صرف مجھے علم ہے ، میرے والدین بھائی سے شادی کے لئے اصرار کررہے ہیں ، کیا برائے نام اسی لڑکی سے ایک بار پھر نکاح کیا جاسکتا ہے؟ عقد نکاح اور ولیمہ کی محفل سجائی جاسکتی ہے ؟ (فضیل احمد، ملے پلی )
جواب:- ایک تو بھائی صاحب کو چاہئے تھا کہ آپ کے والد صاحب کو اعتماد میں لے کر نکاح کرتے ؛ کیوںکہ بالغ ہونے کے بعد بھی استحباب کے درجہ میں نکاح میں ولی کی شرکت ہونی چاہئے؛ اسی لئے ’’ولایت ندب ‘‘بلوغ کے بعد بھی اولیاء کو حاصل ہوتی ہے ، اور جب بھائی صاحب نے جائز طریقہ پرنکاح کرلیا ہے تو والدین کو اسے قبول کرلینا چاہئے ؛ کیوںکہ نکاح اصل میں عاقدین کا حق ہے نہ کہ والدین کا ، جہاں تک دوبارہ نکاح کی بات ہے تو نکاح دوبار نہیں ہوسکتا ؛ کیوںکہ جو نکاح پہلے سے موجود ہے ، اس کو پھر سے پڑھانے کی نہ شریعت میں کوئی اصل ہے اور نہ اس میں کوئی معقولیت ہے؛ البتہ عشائیہ کا اہتمام کیا جاسکتا ہے ؛ کیوںکہ دعوت اپنی اصل کے اعتبار سے مباح ہے ؛ اسی دعوت میں دونوں کی شادی کے بارے میں اظہار بھی کردیا جائے ؛ کیوںکہ حلال رشتے کو معروف ہونا چاہئے ۔
حالت سفر میں سنن و نوافل
سوال:- حالت سفر میں جب نماز قصر کے ساتھ ادا کی جاتی ہے تو اس وقت سنت و نفل نمازیں پڑھنی چاہئے یا وہ معاف ہیں ؟ (اکرام الدین، شاہین نگر)
جواب:- شریعت میں مختلف حالات اور پیش آنے والی مشکلات کی بڑی رعایت کی گئی ہے ، ایسی ہی رعایتوں میں سفر کو بھی شامل رکھا گیا ہے کہ اس میں چار رکعت والی نمازیں دو رکعت پڑھی جائیںگی ، جہاں تک نوافل کی بات ہے تو ان کی ادائیگی حالت سفر میں بھی مستحب ہے اور حالت قیام میں بھی ؛ البتہ سفر میں یہ رعایت ہے کہ سواری پر بیٹھے بیٹھے اشارہ کے ساتھ اور اگر سواری کا رخ قبلہ کی طرف نہ ہو تو بغیر استقبال قبلہ کے بھی ادا کی جاسکتی ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حالت سفر میں اونٹنی کے اوپر ہی نماز تہجد ادا کیا کرتے تھے ، سنن مؤکدہ کو اگرچہ کہ ادا کرنے کی گنجائش ہے ؛ لیکن رعایت ہے کہ اگر چاہیں تو ادا کرلیں اور چاہیں تو نہ ادا کریں ، یعنی کہا جاسکتا ہے کہ سفر کی حالت میں سنن مؤکدہ ، مؤکدہ باقی نہیں رہتیں ؛ البتہ افضل طریقہ کیا ہے ؟ سنتوں کا ادا کرلینا یا نہ ادا کرنا ، اس میں فقہاء کی آراء مختلف ہیں ، ایک رائے یہ ہے کہ فجر کی سنت ادا کرلیں ، بقیہ سنتوں کو چھوڑ دیں ، بعض حضرات نے مغرب کی سنت کا بھی اضافہ کیا ہے کہ اسے بھی ادا کرلینا چاہئے ، اس حقیر کا رجحان جس رائے کی طرف ہے ، وہ یہ ہے کہ اگر عارضی طور پر کہیں مقیم ہو جیسے ہوٹل یا مکان یا مسافر خانہ وغیرہ میں ، تو سنتوں کو ادا کرلینا بہتر ہے اور اگر چلتی ہوئی حالت ہو ، جیسے ٹرین یا جہاز وغیرہ میں ہو تو سنتوں کو ادا نہ کرنا بہتر ہے ؛ کیوںکہ شریعت کی رخصت سے فائدہ اٹھانا بھی شریعت پر عمل کرنے کا ایک طریقہ ہے ، یہی قول فقہاء حنفیہ میں علامہ ہندوانی کا ہے اور اسی طرف علامہ شامی ؒ کا رجحان بھی محسوس ہوتا ہے : وقال الہندواني : الفعل حال النزول والترک حال السیر الخ (رد المحتار : ۲/۶۱۳)

Comments are closed.