خوشی بھی اور اندیشے بھی

مظاہر حسین عماد قاسمی

بہت خوشی کی بات ہے کہ دلی والوں نے بی جے پی کو دلی کا تاج نہیں سونپا،

بی جے پی کوصرف آٹھ سیٹیں ( ساڑھے گیارہ فیصد)
حاصل ہوئیں ہیں ،جب کہ 2015 میں صرف تین سیٹیں(پانچ فیصد) حاصل ہوئی تھیں ،

، اور 38.51٪ ووٹ حاصل ہوئے ہیں ،جب کہ 2015 میں صرف تین سیٹیں(پانچ فیصد) حاصل ہوئی تھیں ،دوہزار پندرہ میں بی جے پی 32.30٪ ووٹ ملے تھے . اس بار اسے 6.30٪ زیادہ ووٹ ملے ہیں ، اور پانچ سیٹیں زیادہ ملیں ہیں اور وہ قانونی طور سے حزب اختلاف بننے کی اہل ہے ،
اپوزیشن لیڈر اس پارٹی کا لیڈر بنتاہے جو پارٹی حکمراں پارٹی کے بعد دیگر پارٹیوں سے بڑی ہو،اور اس کے پاس ایوان کی دس فیصد سیٹیں ہوں ،
فی الحال 2014 سے لوک سبھا میں کوئی اپوزیشن لیڈر نہیں ہے ،اس لیے کہ کانگریس حکمراں بی جے پی کے بعد دوسری بڑی جماعت ہے مگر اس کے ارکان کی تعداد پچپن (55) سے کم ہے،

عام آدمی پارٹی

عام آدمی پارٹی کو فروری 2020 کے حالیہ انتخابات میں 53.58٪ ووٹ اور باسٹھ (62) سیٹیں حاصل ہوئیں ہیں ،عاپ کا 0.72 ٪ ووٹ اور پانچ سیٹیں کم ہوئیں ہیں ،
دوہزار پندرہ میں اسے 54.30٪ ووٹ اور سڑسٹھ سیٹیں حاصل ہوئی تھیں ،

انڈین نیشنل کانگریس

کانگریس مسلسل زوال کا شکار ہے , جہاں جہاں کانگریس کا کوئی بدل سامنے آجاتاہے اور کوئی نئی پارٹی منظر عام پر آجاتی ہے ، کانگریس کا ووٹ اس نئی پارٹی کو شفٹ ہوجاتا ہے ، پھر اس نئی پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے اور پھر کچھ لوگ بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوجاتے ہیں ،اور کچھ لوگ سیکولرزم کا لیبل لگا کر نئی پارٹی بناتے ہیں ، اور دونوں ہاتھ میں لڈو رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، جب موقعہ ملتا ہے سبز ہوجاتے ہیں اور جب موقعہ ملتا ہے زعفرانی بن جاتے ہیں ، بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار جی اس کی واضح اور بہترین مثال ہیں ، یہ قصہ 1967 سے چل رہا ہے،
حالیہ انتخابات میں کانگریس کو صرف 4.26٪ ووٹ ملے ہیں ، دوہزار پندرہ میں 9.70٪ ووٹ ملے تھے ، اور ان دونوں انتخابات میں کانگریس کو ایک سیٹ بھی حاصل نہیں یوئی،
کانگریس کو دلی اسمبلی انتخابات میں باون فیصد تک ووٹ مل چکے ہیں ،
1998 تا 2013 مسلسل پندرہ سالوں تک دلی میں اس کی حکومت رہ چکی ہے ،
2008 میں اسے 40.31٪ ووٹ اور تینتالیس سیٹیں ملی تھیں ،
مگر 2013 میں عام آدمی پارٹی کے منظر عام پر آنے کے بعد 2013 میں کانگریس کا پونے سولہ فیصد ووٹ عاپ کو شفٹ ہوگیا،اور عام آدمی پارٹی بی جے پی کے بعد دوسری اور کانگریس تیسری بڑی پارٹی بن کر ابھری ،عام آدمی پارٹی کو اٹھائیس اور اور کانگریس کو آٹھ سیٹیں ملیں ، کیجریوال نے کانگریس کی حمایت سے سرکار بنائی مگر صرف انچاس دنوں کے بعد استعفی دے دیا ،تقریبا ایک سال تک گورنر راج نافذ رہا ، فروری 2015 میں انتخابات ہوئے ،اور کانگریس کو ایک سیٹ بھی نہیں ملی ،اور ووٹ 9.70٪ حاصل ہوئے،اس بار کانگریس کا 14.89 ووٹ عاپ کو شفٹ ہوگیا۔

خدشات

1- ماضی میں اگرچہ کانگریس سے کئی بھیانک غلطیاں ہوئی ہیں ،مگر آج بھی وہی پارٹی ایسی ہے جس کے پاس سب کو ساتھ لے کر ملک چلانے کا تجربہ بھی ہے ،اور بہت حد تک سیکولرزم کو بچانے کا جذبہ بھی ، وہ آج اگر مرکز میں ہوتی تو نہ 370 کو منسوخ کیاجاتا ،نہ تین طلاق پر سزاوالا بل منظور ہوتا اور نہ سی اے اے اور این آر سی کو ہٹانے کے لیے پورے ملک کو پریشان ہونا پڑتا ،

میرا خیال یہ ہے کہ کانگریس کو ضرورت سے زیادہ سزا دی جارہی ہے ،اگر کوئی معلم اپنے کسی شاگرد کو ضرورت سے زیادہ سزا دیتا ہے تو وہ خود مستحق سزاہوجاتاہے ،اسی طرح ہندوستانی عوام کو یہ احساس کرنا پڑے گا کہ گاندھی ،نہرو ،ازاد اور پٹیل کی پارٹی سے اتنی نفرت کیوں ہے، اور اس نفرت نے ہندوستان کو کن مصائب سے دوچار کیا ہے،؟؟ دہلی میں کانگریس کا اس قدر کمزور ہوجانا خطرے کی سب سے بڑی گھنٹی ہے،

ہماری خواہش تھی کہ فروری 2020 کے دہلی اسمبلی انتخابات میں عام ادمی پارٹی کو چالیس تا پچاس اور کانگریس کو بیس تا پچیس اور بی جے پی کو زیرو سیٹیں ملیں ، ایک جمہوری سیکولر ملک میں حکمراں جماعت کا سیکولر ہونا بھی ضروری ہے اور اپوزیشن میں ایک مضبوط سیکولر پارٹی کا ہونا بھی ضروری ہے ،

2- دلی ایک ایسی ریاست ہے جس کے پاس پولس بھی نہیں ہے ،جب بھی پولس کچھ غلط کرے گی ،کیجریوال صاحب آسانی سے اپنا دامن بچا لیں گے ،

3- کیجریوال صاحب کی بعض عادتوں کو دیکھتے ہوئے ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہندوتوا سے بہت قریب ہیں ،وہ بھی مودی جی کی طرح عوامی جلسوں میں بھارت ماتا کی جے اور وندے ماترم کا نعرہ لگاتے ہیں ،اور یہ دونوں نعرے ایسے ہیں جو مسلمانوں کے عقائد کے خلاف ہیں ،کل گیارہ فروری کو شاندار جیت کے بعد بھی یہ نعرے کیجری وال جی نے لگائے ہیں ، میں عام آدمی پارٹی کے مسلم ممبران سے گذارش کرتا ہوں کہ وہ کیجریوال جی کو اس طرح کے نعرے لگانے سے روکیں ،
وہ اپنے گھر میں ہزاروں بار اس طرح کے شرکیہ نعروں کا ورد کرسکتے پین مگر عوامی جلسوں میں ایسے نعرے لگائیں جن کی اجازت ہندوستان میں بسنے والے تمام لوگوں کے مذہب میں ہے ،
4- این آرسی اور سی اے اے پر ان کا موقف واضح نہیں ہے ، ابھی تک وہ شاہین باغ نہیں گئے ہیں ،الیکشن سے قبل تو ان کو نقصان ہونے کا خطرہ تھا ،اور یہ خطرہ کانگریسیوں نے اٹھایا، اور ششی تھرور جیسےکانگریسیوں کے شاہین باغ جانے پر بی جے پی نے اور خود وزیر اعظم مودی جی نے شدید ناراضگی ظاہر کی ہے اور مذاق بھی اڑایا ہے ،مگر اب تو کیجریوال جی بہت بڑی اکثریت سے کامیاب ہوچکےہیں ،اب تو انہیں شاہین باغ ضرور جانا چاہیے ، ہماری آنکھیں شاہین باغ میں ان کی موجودگی دیکھنے کے لیے ترس رہی ہیں ، دلی کی تمام کمیونیوں سے زیادہ مسلمانوں نے عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیا ہے ،انہتر (69)فیصد مسلمانوں نے عام آدمی پارٹی پر بھروسہ کیا ہے ،اور سب سے زیادہ اکثریت سے کامیاب ہونے والے بھی ایک مسلمان عام آدمی پارٹی کے جناب امانت اللہ خان صاحب ہیں،
اور ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ کیرلا ،پنجاب ،راجستھان اور بنگال کی طرح دلی اسمبلی سے بھی سی اے اے کے خلاف قرارداد پاس ہوں،
ہمیں صرف تعلیم ،پانی،غذا، دوا، مکان اور ہوا نہیں چاہیے بلکہ ان کے ساتھ اپنی شہریت کی حفاظت اور اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اسے پھیلانے کی آزادی بھی چاہیے،

امید ہے کہ عام آدمی پارٹی گاندھی ،نہرو اور آزاد کے سیکولرزم کی روح کو سمجھے گی اور اپنی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرے گی،

مظاہر حسین عماد قاسمی
12/2/2020

Comments are closed.