خواتین کے دھرنوں کے کچھ تشویشناک پہلو، طلبہ کارویہ اور سیاسی نیتاؤں کا عمل دخل

✍️ کلیم احمد نانوتوی
(قسط اول)
بھارت کے آئین کو کچلنے والے قانون (سی اے اے، این آر سی اور این پی آر) کی مخالفت میں جو کردار ہندوستان کی شاہین صفت ماؤں اور بہنوں نے انجام دیا ہے، اس کی تعریف و توصیف سے بندے کا قلم عاجز و قاصر ہے ؛ کیوں کہ ان شیرنیوں نے اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر ظلم پر ہلہ بول دیا اور ساتھ ہی ساتھ متانت و سنجیدگی کو بھی ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ البتہ ان مظاہروں میں کچھ ایسی باتیں ظہور پذیر ہوئیں؛ جنہوں نے دل و دماغ پر فکر و خوف کا رنگ چڑھا دیا؛؛؛ چوں کہ بندہ کسی بھی سیاسی، سماجی اور ملی تنظیم کا رکن نہیں ہے ؛ اس لیے پوری توجہ "عنوان کے تینوں پہلؤوں” کو حق بجانب ہو کر واضح کرنے پر رہے گی ؛ تاکہ معلومات کی فراہمی کے ساتھ ناگزیر امور کو بھی قلم بند کیا جا سکے۔
اس قسط میں صرف ایک پہلو "خواتین کے دھرنوں کے کچھ تشویش ناک پہلو” کو ہی منظر عام پر لایا جا سکتا ہے؛ تاکہ اکتاہٹ کا شکوہ زبانوں پر نہ آئے۔
ہم احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کے حق میں ہی نہیں ؛ بل کہ دل و جان سے ساتھ ہیں اور ہر وقت رب کائنات کے حضور ان کی کامیابی کے لیے دامن پھیلائے رہتے ہیں ؛ لیکن جب وہاں شریعت مخالف نعرے لگنے لگیں، وندے ماترم بجایا جانے لگے اور ملک کو مذہب پر فوقیت دی جانے لگے، تو ہمارا ہی نہیں؛ ہر مؤمن کا ماتھا ٹھنکے گا اور وہ ان مظاہروں تلے پَل رہی خطرناک ذہنیت پر اظہار افسوس کرے گا۔
جو تصویر آپ دیکھ رہے ہیں، وہ #شہر_دیوبند کی غیر مدتی احتجاج کرنے والی باہمت خواتین کی ہے۔ وہی شہر دیوبند جس کے باشندوں کے زہد و تقویٰ، علم و ورع اور حکمت و دانائی کی داستانیں مشہور ہیں، جہاں وقت کے ولئ کامل حاجی عابد حسین پیدا ہوئے تو وہیں مجاہد آزادی حضرت شیخ الہند پروان چڑھے ؛ لیکن اس احتجاج میں کئی مرتبہ ایسی ناگوار باتیں سامنے آئیں جو شریعت کے معارض تھیں اور ان پر کسی بھی مذہبی، ملی یا سماجی کارکن کی رگ حمیت نہیں پھڑکی، نہ ہی کسی نے ان باتوں پر کان دھرے ؛ اس بے توجہی کا یہ نتیجہ وجود میں آیا کہ آج احتجاج کے دو عشرے مکمل ہوئے چاہتے ہیں؛ لیکن آئے دن شرعی احکام و حدود کو لانگھ کر ثبوتِ حماقت و جہالت فراہم کیا جا رہا ہے اور خود اپنے ہاتھوں اپنے ہی لیے سامانِ تضحیک کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔
جس دن اس غیر مدتی احتجاج کی ابتداء ہوئی، اُسی دن وہاں "بھارت ماتا کی جے” کے نعرے لگائے گئے اور مذہبی رسموں کو تار تار کرتے ہوئے سیکولرزمیت کے لیے شریعت کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا گیا۔ ارے!! بھاڑ میں گئی ایسی سیکولرزمیت ؛ جس میں مذہب کی کوئی رعایت نہ ہو اور جب کہ ان نعروں پر مجبور بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔ اگلے روز کچھ احباب نے اس معاملے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے کمیٹی کی ذمہ دار خواتین سے بات چیت کی اور اسٹیج سے اعلان کرایا : کہ ایسے نعروں سے گریز کیا جائے گا، جو مذہب سے متوازی ہوں ؛ لیکن افسوس!! ابھی چند راتیں ہی گزرنے پائی تھیں کہ وہاں تقریر کرنے والی دو عورتوں نے چیخ چیخ کر روح کو تڑپا دینے والا یہ جملہ کئی مرتبہ دوہرایا : "ہم دیش کے لیے مذہب کو بھی قربان کر سکتے ہیں”۔ سن کر کلیجہ منھ کو آ گیا کہ کیا مرکز توحید کہی جانے والی سرزمین دیوبند سے ایسی آوازیں بھی اٹھ سکتی ہیں؟؟؟؛؛؛ لیکن پھر بھی صبر کا گھونٹ پیے اور آنسو تھامے اپنے کاموں میں مصروف رہا ؛ مگر اس دنیا میں امن و سکون کہاں! اس مرتبہ وہ واقعہ پیش آیا جس پر مجھ سے قبل کئی لوگ آواز اٹھا چکے ہیں ؛ لیکن سیکولرازم کے پجاری یا اندھ بھکتوں نے ان کی مخالفت میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔
واقعہ یوں تھا کہ گزشتہ جمعہ کو دوپہر کے تقریباً چار بجے دیوبند عیدگاہ میں جاری پروگرام میں مائیک پر وہ ترانہ چلایا گیا جو پلوامہ اٹیک کے بعد گایا گیا تھا، اس میں صرف یہی بات معصیت کی نہیں کہ اس میں میوزک ہے ؛ بل کہ اس میں کئی مرتبہ لفظ "وندے ماترم” آیا ہے۔ یہی وہ جملہ ہے جسے اپنی زبان سے ادا نہ کرنے کی پاداش میں بہت سے نوجوانوں کو قتل کر دیا گیا، ان کی لنچنگ کی گئی ؛ لیکن وائے افسوس!! یہاں مسلمانوں کے اسٹیج سے، مرکز علم و فن کہے جانے والے شہر میں اسے مائک پر بجایا جا رہا ہے اور اس پر اظہار غم و غصہ کرنے والوں کو گالیاں دی جا رہی ہیں۔ آپ گالیاں دیجیے، جتنی چاہے گالیاں دیجیے، الزامات لگائیے ؛ لیکن مذہب اسلام کو تو آپ بھی مانتے ہیں!! آپ ہی مجھے بتا دیجیے کہ حقوق طلبی کا پیغام دینے والا اسلام کیا حالت اختیاری میں ایسے جملوں کی اجازت دیتا ہے؟؟ کیا کوئی گنجائش ہے؛ جس کے تحت اپنے اسٹیج پر ان کلمات کو دوہرایا جائے؟؟ نہیں ہر گز نہیں!! آپ کا بھی جواب بھی یقینا یہی ہوگا جو آپ کی نظروں سے ابھی گزرا۔
آپ ذرا آنکھوں کو ملیے، دماغ پر تھوڑا سا زور ڈالیے ؛ اس کے بعد آپ یہ فرض کیجیے کہ اگر کسی اور مکتب فکر کے لوگ اس فعل شنیع کے مرتکب ہوتے تو کیا ہوتا؟؟؟ کچھ لوگوں کے قلموں کی سیاہی خشک ہو جاتی؛ مگر یہ موضوع نہ تھمتا۔ مجھے دکھ ہے، افسوس ہے، بے چینی اور کڑھن بھی ہے کہ محض سیاسی مفادات کی خاطر ہماری ماؤں اور بہنوں سے شریعت مخالف نعرے لگوائے جارہے ہیں، ان کی دن رات کی قربانیوں کو نتیجۃً مندمل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کوئی ان کو سمجھانے والا یا روکنے والا نہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب یہ نعرے ہمارے بچے اور بچیوں کی زبانوں پر ہوں گے اور جب ان کو مذہب کا حوالہ دے کر سمجھایا جائے گا تو وہ حب الوطنی کا نعرہ لگاتے ہوئے وہی جملہ دوہرائیں گے : "ہم ملک کے لیے مذہب کو بھی قربان کر سکتے ہیں”۔
(جاری۔۔۔۔۔)
نوٹ: اصل مقصد "احتجاجات کو سیاسی لوگوں کے عمل دخل سے پاک رکھنا” ہے ؛ لیکن اگر ابتدائی دو پہلؤوں (خواتین کے دھرنوں کے کچھ تشویش ناک پہلو اور طلبہ کا رویہ) پر روشنی نہ ڈالی جائے تو مضمون کسی نہ کسی درجہ سمجھ سے بالاتر رہے گا ؛ اس لیے پہلی قسط میں عنوان کے پہلے جزء کو موضوع سخن بنایا گیا۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ ہر بات کی تحقیق چشم دید گواہوں سے کی گئی ہے۔
دوسری قسط ان شاءاللہ جلد ہی۔۔۔۔۔
کلیم احمد نانوتوي
Comments are closed.