خدا کے واسطے ایسا نہ کیجئے!!

فتح محمد ندوی
یہ ہم مسلمانوں کی بد قسمتی یا دوسرے الفاظ میں نفسیاتی شکست کی علامت ہے کہ ہم ادنیٰ سے مفاد کی خاطر خدا کی طرف سے ایمان اور عقیدے جیسی مقدس اور بابرکت چیز جو انسانیت کی بقا اور سلامتی کیلیے جزء لاینفک کی حیثیت رکھتی ہے۔ بالاۓ طاق رکھد یتے ہیں۔(الامان الحفیظ) یہ صرف کوئی ایک معاملہ ہی نہیں جو کیرانے میں پتھر کی مورتی کے سامنے ہاتھ جوڑنے کی شکل میں واقع ہوا ہے ،بلکہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں اس طرح کی بے شمار اور لاتعداد مثالیں موجو د ہیں جو سیکولرزم یا کسی ذاتی مفاد کے نام پر لوگ مذ ہب کی پاکیزہ تعلیم اور شناخت کو دغدار کرکے اسلام اور مسلمانوں کی پیشانی پر بدنما داغ لگاتے رہے رہیں۔
یہ سچ اور حق ہے کہ اللہ نے انسان کو جو سب سے بڑی نعمت بخشی ہے وہ ایمان کی نعمت اور تحفہ ہے۔یقینااس سے بڑا تقدس اور عظیم انعام نعمت کی شکل میں انسان کے پاس ہے ہی نہیں۔لیکن جب یہ انسان سرکشی اورمفاد پرستی کے جال میں پھنستا ہے۔تو اس کی عقل پر پتھر پڑ جاتے ہیں اور آنکھیں دیکھنا بند کردیتی ہیں۔دل پر نحوست کے بادل چھاجاتے ہیں۔کانوں پر پر دے پڑجاتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں جب انسان مذہب کے تقدس کو پامال کردیتا ہےاور ان حدود کو پھلانگ جاتا ہے جن کی رعایت اللہ اور اس کے رسول نے بتائی ۔اورجس کو ہم عقیدہ سے تعبیر کرتے ہیں۔اگر اس میں ذرہ برابر کھوٹ یا نقص آجائے تو ایمان کی بقا اور سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے، اور انسانیت کا جنازہ نکل جاتا ہے ۔
دراصل ایمان اور عقیدہ یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ انسان اپنی مرضی اور منشاء سے اس کے حدود کو پار کرجاۓ اور عقیدہ کی جو حدیں متعین ہیں ان سے چھیڑ چھاڑ یا ان سے تجاوز کرنے کی ناکام کوشش کرے تو گویا اس نے ایمان اور عقیدہ کی سر سبز و شاداب چراگاہ سے نکل کر خود کوقعر مذلت میں ڈالیا، مثلا اسلام میں شرک حرام ہے۔شرک چاہے کسی بھی شکل میں ہواسلام میں اس کی کوئی یا کسی بھی موقع پرگنجائش نہیں۔بلکہ شرک کا شائبہ تک بھی حرام ہے۔”تعظیم کے وہ طریقے اور علامتیں جوعبو دیت اور غایت ذلت کی مظہر ہوں صرف خدا تعا لیٰ کے ساتھ خاص ہیں“( اسلام کے تین بنیادی عقائد) آگ۔ درخت اور مورتیو ں کی پوجا یا کوئی بھی ایسا عمل جس میں شرک شامل ہو جائےتو وہ حرام ہے ۔جیسے اسلام نے سلام اور مصاحفے کی اجازت دی ہے لیکن اگر کوئی آدمی سلام یا مصافحہ کرتے ہوۓ رکوع یا سجدہ کی طرح جھک جاۓ تو یہ اس میں بھی شرک کی بو پائی جاتی ہے سو اس طرح جھکنا از روئے شرع قطعا درست نہیں ۔
مختصر طور پر شرک کی تعریف کیا ہے ۔اور شرک کسے کہتے ہیں۔مفکر اسلام حضرت مولانا ندوی لکھتے ہیں ۔” اس سے یہ معلوم ہوا ہے کہ شرک کے معنی صرف یہ نہیں ہے کہ کسی کو خدا تعالیٰ کا ہم مرتبہ و ہم سر قرار دیا جائے ۔بلکہ شرک کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی کسی کے ساتھ وہ کام یا وہ معاملہ کرےجو خدا تعالیٰ نے اپنی بلند و بالا ذات کے ساتھ خاص قرار دیا ہے۔اور اسی کو عبودیت بندگی کا شعار بنایا ہے۔جیسے کسی کے ساتھ سجدہ ریز ہونا کسی کے نام پر قربانی کرنا یا نذریں ماننا ۔مصیبت یا تنگی میں کسی سے مدد مانگنااور یہ کہ وہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔اور اس کو کائنات میں متصرف سمجھنا۔یہ ساری چیز وہ ہیں جن سے شرک لازم آتا ہے،اور انسان ان سے مشرک ہو جا تا ہے۔خواہ اس کا یہ اعتقاد ہی کیوں نہ ہو کہ یہ انسان ۔فرشتہ یا جن جس کے سامنے وہ سجدہ ریز ہو رہا ہےیا جس کے نام پر وہ قربانی کررہا ہے۔نذریں مان رہا ہےاور جن سے مدد مانگ رہا ہے۔اللہ تعالیٰ سے بہت کم مرتبہ اور پست مقام ہے۔اور چاہے یہ مانتا ہو کہ اللہ ہی خالق ہےاور یہ اس کا بندہ اور مخلوق ہے۔اس معاملے میں انبیاء۔اولیاء۔جن و شیاطین بھوت پریت سب برابر ہیں۔ان میں سے کسی کے ساتھ بھی جو یہ معاملہ کریگا ۔وہ مشرک قرار دیاجائیگا“۔(اسلام کے تین بنیادی عقائد)
اسی اہم وجہ کی بنیاد پرتمام انبیاء علیہم الصلوۃ السلام کی دعوت اور محنت کے مشن میں مرکزی کردار بلکہ پہلی ترجیح انسان کے اعمال اور عقائد کی درستگی ہوتا ہے کیو ں کہ بغیر عقیدہ کی صحت کے کو ئی بھی آدمی جنت میں نہیں جا سکتا ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرما تا ہے۔ حتی یلج الجمل فی سم الخیاط۔ یہا ں تک کہ گھس جائے اونٹ سوئی کے ناکے میں( سورہ اعراف آیت ۴۰ )یعنی جس طرح اونٹ کا سوئی کے ناکے سے نکلنا محال ہے اسی طرح عقیدہ کی خرابی کے ساتھ جنت میں داخلہ ناممکن اور محال ہے۔اس لیےجنت میں جانے کے لیے عقیدہ کا درست ہو نا لازما ضروری ہے۔
ہندوستان کے سیاسی پس منظر میں۔خاص طور سے مسلمانوں میں یہ رواج سیکولرزم کے نام پر اس طبقے میں شروع ہوا ہےجو سیاست یا کسی عہدہ سے وابستہ ہے۔ پھر آگے کسی ترقی کی تلاش میں ہے ۔تو وہ اس سیکولرزم کی بیماری میں زیادہ ملوث ہے۔بلکہ وہ اپنے آپ کو اس فہرست میں لانے سے یاآنے سےبھی ڈرتے ہیں ۔ کہ ان کے بارے میں یہ گمان بھی کیا جائے ہوجاۓ کہ وہ مسلمان ہے۔
جب کہ ایک مسلمان کا کمال یہ ہے کہ وہ مذہب ،اسی طرح اپنے عقیدہ کے حوالے سے اس قدر پختہ ہو کہ دوسرے لوگ یہ کہیں کہ یہ شخص اپنے عقیدہ میں مضبوط ہے۔اور پکا مسلمان ہے۔ ہمار ے خیا ل میں نہ اس میں کوئی توہین ہے اور نہ قانون کی طرف سے ایسی کوئی بندش اور رکاوٹ ہے۔بلکہ خوبصورت ہندوستان کا تصور ہی اس میں ہے کہ تمام لوگ اپنےمذہبی تشخص کے ساتھ رہیں اور زندگی گزاریں۔
Comments are closed.