بچنے کاصرف ایک ہی راستہ

سمیع اللہ ملک
معروف امریکی میگزین فارچون نے اپنی اشاعت میں ابوظہبی کودنیاکاامیرترین ملک قراردیاہے۔ابوظہبی متحدہ عرب امارات کی سات ریاستوں میں سے سب سے بڑی ریاست اورملک کادارالحکومت کادرجہ بھی رکھتی ہے۔اس کی آبادی تقریبا دس لاکھ ہے جس میں سے صرف2لاکھ مقامی ہیں جبکہ باقی لوگ تیل کی دولت نکلنے کے بعدروزگارکی تلاش میں یہاں آبسے ہیں۔اس جریدے کے مطابق تیل کے کل ذخیرے کادس فیصدحصہ متحدہ عرب امارات میں پایاجاتاہے اوراس میں سے94فیصدابوظہبی میں ہے۔تیل سے جودولت حاصل ہورہی ہے اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ ابوظہبی انوسٹمنٹ اتھارٹی نے ایک ہزارارب ڈالرسے زائدکی خطیررقم دنیابھرمیں انویسٹ کررکھی ہے۔
یہ رقم یقینابہت زیادہ ہے۔اس کوانویسٹ کرنے والے اس سے مزیدمنافع کماناچاہ رہے ہیں مگرسمجھ میں نہیں آتاکہ اس پیسہ سے مزیدپیسہ کماکرکیاکیاجائے گاکیونکہ اسی جریدے کے مطابق متحدہ عرب عمارات کی کل دولت اتنی ہے کہ ہرشہری کے حصے میں 17ملین ڈالرکی رقم آتی ہییعنی پاکستانی حساب سیڈھائی ارب روپے سے زائدرقم ہرآدمی کے حصے میں آتی ہے۔جب اتنی دولت پہلے سے موجودہے جوزندگی کی ہربنیادی اورثانوی ضروریات کیلئے کافی ہے تومزیددولت سے سوائے ایک احساس دولت کے سواکیاحاصل ہوگا؟
آج سے کچھ عرصہ قبل تک یہ لوگ صحراؤں میں گلہ بانی کرتے،اونٹ چراتے اورکھجوریں اگاتے تھے۔ان کے امیرترین لوگوں کی بساط مٹی کے گھروں تک تھی مگرپھراللہ نے اس خطے کے باشندوں پردولت کے دروازے کھول دیے۔بدوؤں کے قدموں سے سیال سونابہہ نکلا۔دولت کے انبارلگ گئے۔ننگے پاں بکریاں چرانے والے اونچی اونچی عمارتیں بنانے لگے۔دنیاکاہرسامان تعیش اس خطے میں ملنے لگااورعیش وعشرت کی ہرجگہ پرعرب نظرآنے لگے۔اس دولت کے اثرات عربوں کے ساتھ دیگر مسلم ممالک پربھی پڑے مثلاً سترکی دہائی سے لیکرآج تک لاکھوں پاکستانیوں نے خلیجی ممالک میں روزگارحاصل کیااوربلامبالغہ کھربوں روپے پاکستان کماکربھیجے،جس کے نتیجے میں پاکستان میں بھی دولت کی ریل پیل ہوگئی۔ساٹھ کی دہائی میں 22خاندانوں والاپاکستان اب وہ جگہ ہے جہاں ہزاروں بلکہ لاکھوں ارب پتی پائے جاتے ہیں۔
تیل سے حاصل ہونے والی یہ دولت مسلمانوں کے پاس اللہ کی امانت ہے۔اس کودینے کامقصدیہ نہیں تھاکہ مسلمانوں میں لاکھوں ارب پتی پیداکیے جائیں اوراپنی دولت سے دادعیش دیں بلکہ اس کامقصدیہ تھاکہ قیامت کے آنے سے قبل انسانیت کاپیغام دنیابھر میں پھیلنے لگے۔یہ کام اب کسی نبی نے نہیں کرنابلکہ امت مسلمہ کے ذریعے ہی سے سرانجام پاناتھا۔اس لیے اللہ نے پہلے سامراجی طاقتوں کے شکنجے سے تمام مسلم دنیاکوآزادکرایااورپھرمسلمانوں کے قدموں میں دولت کے ڈھیرلگادیے تاکہ وہ دور جدیدمیں دوسری اقوام کامقابلہ کرسکیں۔
مسلمان اگراللہ کے اس منصوبے کوسمجھتے تووہ ہزارارب ڈالرمغربی ممالک میں انویسٹ کرنے کی بجائے اسے مسلمانوں کی جہالت اورغربت دورکرنے پرخرچ کرتے۔صرف چار عرب عرب ممالک نے توحال ہی میں دوسوارب ڈالرکی سرمایہ کاری تو صرف بھارت میں کی ہے اورمزیدسوارب ڈالرکے منصوبوں پربات ہورہی ہے۔ لیکن حیرت انگیز امریہ ہے کہ یہ تمام عرب ممالک ملکی دفاع کیلئے مغرب بالخصوص امریکاکے ایسے محتاج ہیں کہ مستقبل میں بھی اس کے شکنجے سے نکلنے کے کوئی آثارنہیں جبکہ معاشی طورپرغیرمستحکم پاکستان اپنے دفاع میں اس قدرمستحکم ہے کہ اسے پہلی نیوکلیرمسلمان ریاست بننے کااعزازحاصل ہے۔
مسلم عرب کی غیرمسلم ممالک میں یہ بیرونی سرمایہ کاری اتنی زیادہ ہے کہ پاکستان جیسے50ملکوں کاسالانہ بجٹ اس میں بن سکتاہے۔اس رقم سے جب لوگوں کوتعلیم ملتی،بنیادی ضروریاتِ زندگی حاصل ہوتیں،روزگارملتاتوان میں اتناشعوربھی پیدا ہوجاتا کہ دین کے حوالے سے دنیامیں ہماری ذمہ داریاں کیاہیں۔جہالت ختم ہونے سے تعصبات ختم ہوتے۔قرآن کااصل پیغام عام ہوتا، تحمل اوربرداشت پیداہوجاتی لیکن عجب بدقسمتی ہے کہ عرب ممالک کے منصوبہ سازوں کومغرب اوربھارت نے کچھ اس طرح شیشے میں اتاررکھاہے کہ مادی ومالی منفعت کے سواانہیں کچھ اورنظرہی نہیں آتا۔دفاعی نقطہ نظرسے امریکاکی محتاجی نے ان کی خودمختاری کوایسی مضبوط گرفت میں لے رکھاہے کہ اس نے اپنے مفادکیلئے اس خطے میں ان ملکوں کے درمیان دشمنی کی ایسی لکیرکھینچ دی ہے کہ دفاع کے نام پرسیال مادے سے حاصل ہونے والاسوناامریکی تجوریوں میں پہنچ جاتاہے اوران تمام ممالک کے سرمائے سے اس اپناکاروبارعروج پرہے۔امریکانے ایک طرف اس خطے میں عرب ممالک کوتقسیم کررکھاہے اوردوسری طرف کئی برسوں سے یمن اورشام میں لایعنی جنگ میں الجھا رکھاہے۔
آج بھی اس معاملے میں دیرنہیں ہوئی ہے۔عرب نہ سہی اگرپاکستان کے امیرافرادکی ایک قابل ذکرتعدادیہ طے کرلے کہ اسے اپنی اضافی دولت خداکے دین اورامت کی بہبود کیلئے وقف کرنی ہے توصرف ایک نسل میں سب کچھ تبدیل ہوجائے گالیکن لوگ اگراپنی دولت سے مزیددولت کے انبارجمع کرنے کی روش پرقائم رہے توبلاشک وشبہ ایک دفعہ پھر مسلمانوں پروہی ذلت و رسوائی اورغلامی وبیکسی مسلط ہوجائے گی جس کاوہ پچھلی صدی کے آغازپرشکارتھے۔مسلمانوں اورعربوں کے پاس اس آنے والی ذلت سے بچنے کاصرف ایک ہی راستہ ہے،وہ یہ کہ ہزاروں ارب ڈالرکی رقم کواللہ کیلئے انویسٹ کردیں۔اس کے نتیجے میں دولت کے ساتھ انہیں دنیاکااقتداراورعزت بھی مل جائے گی وگرنہ جوکچھ ہے، جلد ہی وہ اس سے بھی ہاتھ دھولیں گے۔

Comments are closed.