دہلی اور جمہوریت !

عمر فراہی

کچھ لوگوں کو شکایت ہے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ دلی کی سڑکوں پرمسلمانوں کی عزت و آبرو داؤ پر لگی ہوئی ہے ہمارے اکابرین کہاں ہیں ۔خاص طور سے ہمارے وہ قائد جنھوں نے سوئزر لینڈ جاکر ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ڈیڑھ کروڑ مسلمانوں کی قیادت کا دعویٰ کرتے ہوئےکشمیر کے معاملے میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کو متنبہ کیا تھا کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ حصہ ہے اور ہندوستان کا مسلمان حکومت کے فیصلے کے ساتھ ہے وہ اب اپنی ہی حکومت کے خلاف خاموش کیوں ہے ۔میں یہ نہیں کہتا کہ وہ ڈیڑھ کروڑ مسلمانوں کے ساتھ سڑک پر اتر جائیں لیکن وہ اپنے دعوے کے مطابق اپنے سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے ان فسادی سیاستدانوں کی گرفتاری کیلئے ہوم منسٹر پر تو دباؤ ڈال ہی سکتے ہیں جنھوں نے اپنے دھمکی آمیز زہریلے بیانات سے ملک کا ماحول خراب کیا ہے۔
مسلمان اپنے ان قدآور شخصیات کے بھی منتظر ہیں جو بابری مسجد کے فیصلے سے ایک دن قبل قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈھوبال کی دعوت پر اس لئے بلائے گئے تھے تاکہ ایودھیا فیصلے کے بعد ملک میں بدامنی کا ماحول نہ پیدا ہو ۔ان لیڈران نے اجیت ڈھوبال کو یقین دلایا بھی کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا ۔یقینا ایسا کچھ ہوا بھی نہیں۔پتہ نہیں انہوں نے اجیت ڈوبھال کو یقین دلایا تھا یا ڈوبھال کو یقین تھا کہ مسلمانوں کے درمیان مسلم علماء دین کی گرفت بہت مضبوط ہے ! مگر سی اے اے اور این آرسی کی تحریک نے تو ثابت کر دیا کہ یہ ان کی خوش فہمی تھی مسلمانوں کی باگ ڈور ان کی گرفت سے کب کھسک گئی انہیں خود اس کا ادراک نہیں ہے۔ اس کا ادراک انہیں اس وقت ہی ہو جانا چاہئے تھا جب اقبال نے کہا تھا کہ
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بے چارے دو رکعت کے امام
آج 2020 میں کسی نے دلی فساد کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں بہت بے بس مایوس اور بے بس نظر آرہا ہوں کہ کس طرح فسادیوں نے ہندو مسلم بھائی چارے کے ماحول کو ایک بار پھر نفرت کی آگ میں جھونک دیا ۔
اس جملے پر مجھے 1947 کے دلی فساد کا وہ واقعہ یاد آیا جب خود مولانا ابوالکلام آزاد اس وقت کے ہوم منسٹر سردار ولبھ بھائی پٹیل کے آگے بے بس اور مجبور نظر آئے ۔دلی پولیس نے بڑی تعداد میں بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا تھا ۔مولانا نے جب پٹیل سے شکایت کی تو وہ اسی طرح خاموش رہے جیسے کہ آج امیت شاہ اور دلی کے لیفٹیننٹ گورنر خاموش ہیں۔خود گاندھی جی جنھوں نے انگریزوں کو ڈنڈے سے بھگا دیا تھا وہ بھی پٹیل کے سامنے بے بس تھے ورنہ مولانا آزاد مسلمانوں کی شکایت کو لیکر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے پاس نہ جاتے ۔اس واقعے کا تذکرہ مولانا نے ہی اپنی کتاب انڈیا ونس دی فریڈم میں کیا ہے ۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ مولانا آزاد باحیات تھے ۔
ایک ایسے وقت میں جب مولانا کے قریبی ساتھی جواہر لال نہرو مہاتما گاندھی اور سرحدی گاندھی بھی باحیات تھے ۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ آزاد کے پیچھے اکابرین کی ایک بڑی بھیڑ بھی کھڑی تھی اور مولانا ابوالکلام آزاد کچھ نہ کر سکے تو اب جو لوگ سوئیزر لینڈ والے قائد سے کسی جرآت کی امید لگائے بیٹھے ہیں ان کی خوش فہمی کو کیا نام دیا جائے!
یہ بہت کر سکتے ہیں تو آخری وقت میں ایک کتاب لکھیں گے اور سسٹم کی بے وفائی کا انکشاف کر دیں گے اور قوم انہیں معاف کر دے گی ۔
ویسے قوم کو اب ان سے کوئی امید بھی نہیں اور نہ ہی ان کے بارے میں بحث کر کے اپنا وقت ضائع کرنا چاہئے ۔اب کچھ بھی نہیں بچا ۔کوئی نام نہاد گاندھی اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن بھی تو نہیں رہے جن کے آگے فریاد کی جائے۔مگر کیا کیا جاۓ یہ نام نہاد خود ساختہ قائد خود ہی بل سے باہر آکر کوئی کانفرنس کرتے ہیں اور پھر اپنی شعلہ بیانی سے کروڑوں مسلمانوں کو اس طرح بیوقوف بناتے ہیں کہ مسلمان دوبارہ ان کے فریب میں قید ہوجاتا ہے اور پھر انہیں قائد قائد پکارنے لگ جاتا ہے ۔
شاید ہم 1984 کے دلی کا فساد بھول گئے۔سکھوں کے اتحاد اور طاقت کی مثال دی جاتی ہے مگر اسی دلی میں فسادیوں نے دلی پولیس کے سامنے ڈھائی ہزار سکھوں کا قتل کر ڈالا ۔اس وقت کے وزیراعظم راجیو گاندھی سے پوچھا گیا کہ آپ کی حکومت میں اتنے سکھ قتل کر دئیے گئے تو راجیو گاندھی نے بہت ہی آسانی کے ساتھ کہہ دیا کہ جب کوئی بڑا درخت گرتا ہے تو اس کے اطراف کی زمین کا ہل جانا لازمی ہے ۔یہ وہ زبان ہے جو اقتدار پر قابض ہونے کے بعد استعمال ہونے ہی لگتی ہے
حکومتیں اکابرین کے دباؤسے کبھی نہیں ہلیں۔یہ ان کی خوش فہمی ہے ۔حکومتیں سیاسی اثر و رسوخ یا سیاسی طور پر بے دخل ہو جانے کے خوف سے ہی حرکت میں آتی ہیں ۔
ہاں جامعہ جے این یو علی گڑھ وغیرہ کے طلباء اتحادکی بیداری اور شاہین باغ کی عورتوں کے خاموش احتجاج سے ملک میں جو بے شمار غیر مسلم نوجوانوں اور دوشیزاؤں کا ذہن بیدار ہوا ہے اور یہ دوشیزائیں ایک ایک کر کے حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے باہر آ رہی ہیں حکومت ہلتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔
ورنہ ہوم منسٹر کو شاہین باغ سے کرنٹ نہ لگتا ۔
ورنہ انوراگ ٹھاکر دیش کے غداروں کو گولی مارنے کی بات نہ کرتا ۔
ورنہ جامعہ کے طلباء اور شاہین باغ کے سامنے فسادی بندوق لہراتے ہوئے نظر نہ آتے ۔
ورنہ کپل شرما جعفرآباد میں پتھروں سے بھرا ٹرک لیکر نہ پہنچتا اور احتجاج کر رہی خواتین کو دھمکی نہ دیتا کہ ہم اسے دوسرا شاہین باغ نہیں بننے دیں گے ۔
جعفرآباد دوسرا شاہین باغ بنا یا نہیں بنا انوراگ ٹھاکر اور کپل مشرا کے زہریلے بیانات نے دلی کو جہنم ضرور بنا دیا ہے ۔دلی کے اس فساد کی اسکرپٹ مکمل منصوبہ بندی کے تحت تیار کی گئی ہے تاکہ شاہین باغ کے مظاہرین کو جو حکومت خالی کرانے میں ناکام تھی اسے حالات کی سنگینی کا جواز بتا کر جبرا ختم کروایا جائے۔یا عام لوگ جو ابھی تک شاہین باغ کی حمایت میں تھے وہ بھی اس احتجاج کو اٹھا لینے کی اپیل کرنے لگیں ۔
خیر جو بھی ہو دلی بالکل نہیں بدلا ہے ۔دلی پولیس اور دلی کے ہوم منسٹر کی ذہنیت اب بھی وہی ہے ماحول ایسا بنایا جارہا ہے کہ شاہین باغ کی عورتیں سی اے اے کے خلاف ہو رہے اپنے احتجاج کو اٹھا لیں ۔دیکھئے آنے والے دنوں میں حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں ۔حالات جیسے بھی ہوں شاہین باغ کی خواتین نے اپنے پرامن احتجاج سے فسادی ذہنیت کو تو بے نقاب کیا ہی ہے دلی اور جمہوریت میں پرامن آواز کو کتنا اور کتنی دیر تک برداشت کیا جاتا ہے اہل خرد کی آنکھیں ضرور کھول دی ہیں ۔

Comments are closed.