کرونا وائرس سے بھی خطرناک مودی حکومت۔۔؟

عارف شجر
حیدرآباد، تلنگانہ ،8790193834
ملک میں کرونا وائرس کا قہر پھیلتا جا رہا ہے اس وباء نے کئی زندگیوں کو اپنی آغوش میں لیا ہے یہ وباء بیرون ملک میں ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی سر زمین میں بھی پھیلتا جا رہا ہے اس وباء کی ہندوستان میں دستک سے ملک کے عوام سہم سے گئے ہیں اس سے بچنے کے لئے کئی تدابیر نکالی جا رہی ہیں لیکن کامیابی نہیں مل پا رہی ہے وہیں اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جس طرح سے کرونا وائرس کی وباء ملک میں پھیل رہی ہے اسی طرح سے مودی حکومت میں، گولی مارو۔۔۔کی نفرت انگیز وائرس ملک کے ہر گوشے میں پھیلتا جا رہا ہے مودی حکومت کی اس خصوصی وبا ء نے بھی سیکڑوں جانیں لے لی ہیں جس طرح کرونا وائرس کا کوئی علاج ممکن نہیں ہو پا رہا ہے اسی طرح نفرت انگیز وائرس پھیلانے والے کیڑے کا بھی اب تک علاج نہیں ہو پایا ہے جبکہ اپوزیشن پارٹیوں نے اس کے علاج کی تدابیر بھی نکالی اور ہائی کورٹ سے بھی اس نفرت والے وائرد کو ختم کرنے کے لئے گذارش کی لیکن اب تک ہائی کورٹ نے بھی اس وائرس پر قابو نہیں پاسکا اب یہ بات صاف ہو گئی کہ ا س وائرس کی جڑیں کافی مضبوط ہیں اسے ختم کرنا ایک عام آدمی کے بد کی بات نہیں ہے کیوں کہ اس وائرس کو مودی حکومت کی سر پرستی حاصل ہے مودی حکومت کے اس وائرس نے حال میں راجدھانی دہلی میں کتنے افراد کی جان لی یہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ مجھے کہہ لینے دیجئے کہ کرونا وائرس تو چین سے پھیلا لیکن نفرت کا یہ جان لیوا وائرد ہندوستان سے پورے ملک میں پھیل رہا ہے جس سے کئی بیرون ملک کو آواز اٹھانی پڑی کہ اپنے اس نفرت والے وائرس کو مودی حکومت روکے نہیں تو پورا ملک تباہ و برباد ہو جائے گا جس میں خصوصی طور سے ایران کا نام شامل ہے ایران نے مودی حکومت کو صاف لفظوں میں کہا ہے کہ ہندوتان میں جس طرح سے ایک فرقے کو اس وائرس نے نشانہ بنایا وہ قابل مذمت ہے۔ پی ایم مودی کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اس خطرناک وائرس کا اثر پورے ملک میں کس طرح پھیل رہا ہے اگر ایسا ہی نفرت کا وائرس ہندوستان میں پھیلتا رہا تو مودی حکومت کو بیرون ملک کے اعلیٰ قائدین کو جواب دیتے دیتے تھک جائیں گے بلکہ اسکا اثر معیشت پر بھی پڑ سکتا ہے خبر یہ بھی ہے کہ دہلی میں ہوئے مسلمانوں کی نسل کشی سے پورا ملک ایک پلیٹ فارم پر ہو گیا ہے ہے جس سے بیرون ملک اب اپنا سرمایا ہندوستان میں لگانے سے گھبرا رہے ہیں ایک طرح سے ہندوستان کی شبیہ بیرون ملک میں خراب ہوئی ہے جس کو بہتر کرنے کے لئے پی ایم مودی کو خصوصی طور سے اپنے چھٹ بھیئے قائدین کے منھ پر لگام سینے کے ساتھ ہی ساتھ ان پر تنظیمی سطح پر کاروائی کرنے چاہئے بلکہ ان پر ایف آئی آر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں امن و امان باقی رہے لیکن حیرت تو اس بات کی ہے کہ پی ایم مودی بھی اس وائرس کے خلاف لب کشائی تک نہیں کر پا رہے ہیں اس کی کیا خاص وجہ ہو سکتی ہے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن ایک بات جو سمجھ میں آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ پی ایم مودی بھی اس ملک میں فرقہ وارانہ فساد کرانے والوں کو سہہ دے کر سیاسی روٹی سیکنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جس کے وجہ کر دہلی میں مسلمانوں کی نسل کشی ہوئی وہ کھلے عام گھوم رہا ہے اور جس نے خود کو بلوائیوں سے بچنے کے لئے پولیس کی مدد مانگتا ہے اس پر آناً فاناً میں کیس درج کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے اور اس پر ظلم ستم ڈھائے جاتے ہیں۔ مودی حکومت میں عجیب طرح کا انصاف ہو رہا ہے وائرس کو ختم نہ کرکے وائرس پھیلانے کی چھوٹ دی جا رہی ہے۔ وہیں ملک کے چند چینل بھی اس نفرت والے وائرس کو ہوا دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ انہیں شاید مودی حکومت کی سر پرستی حاصل ہے جہاں کہپیں بھی مسلمان کا نام آتا ہے وہ انکے لئے بریکینگ خبر ہوتی ہے جیسا کہ حالیہ دنوں میں کئی ایسے واقع ہوئے ہیں جس میں میڈیا نے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اسی لیئے ان چند میڈیا گروپس کو گودی میڈیا سے بھی نوازا جاتا ہے۔ یہ نفرت انگیز وائرس نہیں تو اور کیا ہیں کہ نیس دسمبر دوہزار انیس کو لکھنئو میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ہوئے مظاہرے کے دوران بھڑکے تشدد میں سرکاری املاک کے نقصان کی بھرپائی اور وصولیابی کیلئے حکومت اتر پردیش نے ملزمین کے نام اور تصویروں کے ساتھ ہورڈنگس لکھنئو کے کئی اہم چوراہوں اور شاہراہوں پر نصب کردئے ہیں۔ یہ ہورڈنگس لکھنئو کے مختلف علاقوں میں اہم چوراہوں اور شہر کی شاہراہوں پر لگائی گئی ہیں اور اس میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ شہر کے کچھ اہم اور معزز شخصیات کے نام بھی شامل ہیں۔ بالخصوص سابق آئی جی پولس ، ایس آر دارا پوری ، معروف وکیل اور رہائی منچ کے صدر شعیب ایڈوکیٹ، معروف سماجی کارکن صدف جعفر، معروف عالم دین مولانا سیف عباس اور مولانا کلب صادق کے فرزند کلب سبطین نوری کے ناموں کو لے کر شہر کی فضا تبدیل ہورہی ہے اور حکومت و پولس انتظامیہ کے اس عمل کی مذمت وتنقید کی جارہی ہیلکھنئو کا دل کہے جانے والے حضرت گنج چوراہے پر ، جس کا نام اٹل چوک کردیا گیا ہے ، 57 لوگوں کی ہورڈنگس ان کی تصویروں ، نام ، ولدیت اور مکمل پتوں کے ساتھ لگائی گئی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ ہورڈنگ پر دئے گئے لوگوں سے کتنی رقم وصول کی جائے گی۔ چار ہورڈنگس پر 57 لوگوں کے نام ہیں جن سے کل ملا کرایک کروڑ 55 لاکھ 62 ہزار 537 روپئے کی رقم وصول کی جانی ہے۔معروف عالم دین اور سماجی کارکن مولانا سیف عباس کہتے ہیں کہ حکومت مسلم دشمنی پر آمادہ ہے۔ مجھے سیاحوں کو بچانے اور دنگا روکنے کی پاداش میں سزا مل رہی ہے۔ میں نے بڑے امام باڑے میں غیر ملکی سیاحوں اور اپنے ملک کے باشندوں کو بچانے کیلئے لوگوں سے تشدد برپا نہ کرنے کی اپیل کی تھی۔ انہیں اپنے اپنے گھروں کو واپس بھیجا تھا ، جس کا انعام مجھے حکومت نے یہ دیا ہے کہ میرا نام ہی دنگا کرنے والے لوگوں میں شامل کردیاہے اور بغیر عدالت کے فیصلہ کے شہر کی سڑکوں اور چوراہوں پر بھی مشتہر کیا جارہا ہے۔ یہ ہمارے آئین و دستور کے خلاف تو ہے ہی ساتھ ہی اخلاقیات کے خلاف بھی ہے۔ مولانا سیف عباس نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہوئے واضح طور پر کہا ہے کہ دنگا بھڑکانے والے لوگ تو کھلے عام گھوم رہے ہیں اور مظلومین کو ناجائز طور پر پھنسایا جارہاہے۔ مجھے کہہ لینے دیجئے کہ پی ایم مودی ، زیر داخلہ امیت شاہ اور اتر پردیش سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ نے یہ تہیہ کرلیا ہے کہ جتنا بھی ممکن ہو سکے مسلمانوں کو ضرب پہنچائی جا ئے تاکہ ملک کا مسلمان روڈ پر آجائے اور وہ ملک کو جلیان والا باغ بنا دیں۔ یہی وجہ ہے پی ایم مودی اور امیت شاہ نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سی اے اے ، این آرسی اور اب این پی آر لاکر مسلمانوں کے ذہنی سکون کو ریزہ ریزہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ مسلمانوں نے اپنی ہمت نہیں ہاری ہے بلکہ پی ایم مودی اور امیت شاہ کے ناپاک منصوبے کو ختم کرنے کے لئے جدو جہد اب بھی کر رہے ہیں بھلے ہی ملک میں نفرت انگیز جملوں والا وائرس کیوں نہ پھیلائی جائے۔
Comments are closed.