ملک میں روز افزوں بڑھتی نفرت اور تشدد ــ ذمہ دار کون؟

مولانااحمد حسین قاسمی، معاون ناظم امارت شرعیہ
اہنسا اور عدم تشدد جس ملک کی شناخت رہی ہو ، اس ملک میں کسی بھی عنوان سے ہونے والے تشدد کے واقعات بے پناہ قابل مذمت ہیں ، ملک کا کوئی شہری دنگا و فساد کو کبھی بھی پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا اور نہ ہی اس کی پذیرائی کر سکتا ہے۔بھائی چارہ ، پریم ، باہمی اخوت و محبت،قومی یکجہتی ، آپسی میل جول ، کثرت میں وحدت اور گنگا جمنی تہذیب ہی اس ملک کی سب سے بڑی طاقت رہی ہے ۔اس ملک کی تاریخ آزادی اس کی بہترین مثال ہے ۔ دوسری جانب تشددو نفرت، باہمی اختلاف اور فرقہ وارانہ فساد ہمیشہ اور ہر دور میں ملک کے لیے بے حد مضر اور نقصان دہ ثابت ہوا ہے ، وطن عزیز کے حق میں اس طرح کا مذہبی تشدد ایک مہلک مرض اور ناسور سے کم نہیں ہے ، جس کی تاب لاناا س ملک کے لیے اب مکن نظر نہیں آرہا ہے۔پے در پے فرقہ وارانہ فسادات نے ملک کو صرف لہو لہان نہیں کیا ہے بلکہ اس کے پورے وجود کو اس قدر متزلزل کر دیا ہے کہ قریب ہے کہ فرقہ پرستی کی کاری ضرب سے ملک کا قومی اتحاد ٹوٹ کر بکھر جائے اور ملک کو پھر ماضی کی طرح ناقابل بیان اور ناقابل تلافی بحران کا سامنا کرنا پڑے ، وقت پر ایک ٹانکا مستقبل کے کئی ٹانکوں سے بچا لیتا ہے ، اگر ملک کی موجودہ کرب ناکیوں اور تباہیوں کا دانشمندانہ جائزہ لے کر مستقبل کی فکر نہیں کی گئی تو ممکنہ خدشات واقعی حقائق میں تبدیل ہو سکتے ہیں ۔پھر اس وقت وطن عزیز ہمیں ہر گز معاف نہیں کرے گا۔
تاریخ ہند کا یہ ورق اہل دنیا پر روشن دن کی طرح عیاں اور ظاہر ہے کہ جب انگریزوں کو ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ہندو مسلم اتحاد سے غیر معمولی اور بھاری نقصان پہونچا اور اس ملک کے متوالوں نے منظم طور پر بغاوت کر کے دوبارہ بہادر شاہ ظفر کو پورے بھارت کا عمومی بادشاہ تسلیم کر لیا اور ناقابل تسخیر انگریزوں کے مد مقابل ایک عبوری حکومت قائم کر ڈالی تو ان کی آنکھیں دنگ رہ گئیں اور ہوش اڑ گئے ، پھر انہیں اس متحدہ بغاوت کو ناکام کرنے کے لیے بے انتہا جد و جہد کرنی پڑی اور انہوں نے اس کے لیے پوری انگلستانی قوت صرف کر ڈالی اور کامیابی نہیں ملی۔ تب جاکر انہوں نے یہ فارمولہ ایجاد کیا کہ ’’Divide and Rule‘‘ پھوٹ ڈالو اور راج کرو، چنانچہ انگریزی حکومت نے اسی اصول کو اختیار کر کے ملک گیر سطح پر اس کے طول و عرض میں فرقہ وارانہ فسادات انجام دیا،جس کے نتیجے میں وہ بھارت کو اپنا غلام بنانے میں کامیاب ہو گئی ،مگر جب اہل وطن نے انگریزوں کی اس ناپاک سازش کا ادراک کر لیا ، تو پھر سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئے اور انگریزوں کو ملک سے ذلت و رسوائی کے ساتھ نکال کر ہی دم لیا ، تاریخ ہند کا یہ صفحہ آج پھر بڑے درد و کرب کے ساتھ کسی زخمی فرشتے کی طرح فریادیں کر رہا ہے ، اور باہم دست و گریباں اہل وطن کو دعوت وحدت دے رہا ہے۔یہ ایک سچائی ہے کہ جو بھی شخص گاندھی کے اس دیش میں ناپاک انگریزوں کے مذکورہ بالا فارمولہ کو اپنے فکر و نظر یا قول و کردار سے دہرانے کی کوشش کرے گا وہ کسی بھی طرح ا س ملک کا وفادار نہیں ہو سکتا۔
آج اگر ملک میں روز افزوں نفرت اور تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے تو اس ملک کے سرکاری محکموں اور اداروں کے علاوہ ہر شہری کا یہ وطنی فریضہ ہے کہ وہ دیکھے ،غور کرے اور جائزہ لے کہ وہ کون سے عوامل و اسباب ہیں اور وہ کون سے داخلی و خارجی محرکات ہیں جن سے ملک میں نفرت کو فروغ مل رہا ہے ، اور تشدد کی جڑیں گہری ہو رہی ہیں، ایک قوم دوسری قوم سے دن بدن دور ہوتی جا رہی ہے ، سماجی رشتے کمزور پڑتے جا رہے ہیں ، مذہب و ذات کی بنیاد پر سیاست کا رواج زور پکڑتا جا رہا ہے ، ایک طبقہ کے تئیں دوسر ے طبقہ میں کوٹ کوٹ کر بغض و عناد اور عداوت و دشمنی بھری جا رہی ہے ،عدم تحمل اور عدم برداشت کا رویہ تہذیب کی شکل اختیار کر رہا ہے ، ایک مذہب کے لوگ دن دہاڑے دوسرے مذہب کے فرد کی بر سر عام جان لینے کو اپنا مذہبی فریضہ تصور کرنے لگے ہیں ، لوگوں کا ہجوم منٹوں اور لمحوں میں مذہبی تشدد کے نعروں کے ساتھ کسی بھی بستی کو نذ ر آتش کرنے کے درپے نظر آر ہا ہے ۔آخر کیوں؟ ا س کی تہ میں جانا ،اس کے مضمرات اور اس کے رازہائے سر بستہ کا سراغ لگانا اور اس کی پشت پر کار فرما قوتوں کو بے نقاب کرنا اور ان چھپے چہروںکو سامنے لا کر دو دو چار کرنا کہ آخر وہ اس میں چاہتے کیا ہیں ؟عدلیہ کے ساتھ ساتھ یہ ہر ہندوستانی شہری کا بھی فرض ہے ، ورنہ وہ آپس میں لڑ کر تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائیں گے ، پھر ملک کی روایات و اقدار، شوکت و وقار اور صدیوں پر محیط اس کی شان و عظمت کا کیا ہو گا؟جس ملک میں آئے دن روح فرسا اور انسانیت سوز ایسے واقعات رونما ہوتے ہوں ، کیا ایسے ملک کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر کوئی مثبت اور اچھی رائے قائم کی جا سکتی ہے ؟یہ منفی رجحان پورے ملک کے لیے سوہان روح اور لمحۂ فکریہ ہے۔
آج سے دس سال پہلے کے بھارت اور آج کے بھارت میں کتنا فرق آ گیا ہے ، اس کا انداز ہ لگانا مشکل ہے ، وہ چائے اور پان کی دکانیں جہاں ہر دھرم کے لوگ ایک ساتھ سماج سدھارپر چرچا اور تذکرے کیا کرتے تھے ،آج دکانیں الگ الگ نظر آرہی ہیں ، ہر مذہب کے ماننے والوں کی تقریبات و شادیات کے موقع پر دوسرے مذاہب کے پڑوسیوں کا ہجوم نظر آتا تھا، اب نگاہیں ایسے منظر کو ڈھونڈھتی ہیں، عوامی جگہوں(Public Places)اور گاڑیوں میں ایک دوسرے کے فاصلے اور دوریوں کو دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہو تا ہے کہ کیا یہ وہی گنگا جمنی تہذیب کا حامل ملک بھارت ہے۔
ملک کی مثال ایک گھر اور ایک خاندان کی سی ہے ، جس طرح ایک گھر کے ماحول کو پر امن بنائے رکھنے کے لیے تمام افراد خانہ کا متحمل مزاج اور صاحب اخلاق اور نیک خو ہونے کے ساتھ ایک دوسرے کے تئیں نہایت خیر خواہ اور دردمند ہونا ضروری ہے ، اسی طرح ملک کے تمام شہریوں کا مذکورہ صفات سے متصف ہونا ضروری ہے۔قدرت نے ہر شخص کو علاحدہ علاحدہ ذہن و دماغ دیا ہے ، جس کا لازمی نتیجہ اختلاف آرا ء ہے ،یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی دو شخص کی سوچ اور فکر ہر معاملہ میں ایک جیسی نہیں ہو سکتی ، خواہ وہ دنیا کے کسی خطے سے تعلق رکھتے ہوں، ہر فیملی ، ہر خاندان اور اجتماعی زندگی کی تمام تصویروں میں فکری اختلاف نمایاں طور پر نظر آتا ہے ، یہ ایک فطری شئے ہے جسے اہل دانش نے آج تک پسندیدگی اورا ستحسان کی نظر سے دیکھا ہے ، اسی طرح کے اختلاف آراء سے دنیا میں ترقی کے بند دروازے اوربلندی کی نئی راہیں کھلی ہیں ، تاہم جب یہ اختلاف گھر سے لے کر ملک تک کسی بھی اجتمای شعبۂ حیات میں بغض و عناد اور نفرت و دشمنی کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو خواہ وہ گھر اورخاندان ہو یا ریاست و ملک ،وہاں قتل و غارت گری کااور ظلم کا بازار گرم ہو جاتا ہے اور انسانیت ایسے لوگوں پر شرمسار ہو کر ماتم کرتی اور سینہ پیٹتی ہے اور خون ریزی کے اس عالم میں انسانی سماج جانوروں سے بد تر نظر آتا ہے۔
ہمارے ملک بھارت میں ہندو مسلم یکجہتی کی تاریخ کافی پرانی ہے، کم و بیش تیرہ چودہ صدیوں سے ہندو مسلم ایک ساتھ پر امن اور مثالی زندگی گذارتے آئے ہیں ، نہ جانے کتنے راجا ؤں اور بادشاہوں نے یہ خوبصورت جلوے دیکھے ہیں ۔ ہمیں جاننا ہو گا کہ انگریزوں کے بعد وہ کون سے ملک دشمن عناصر ہیں جو اس ملک کی داخلی سلامتی ، امن و امان اورا ٓپسی بھائی چارہ کے لیے زہر ہلاہل ثابت ہو رہے ہیں؟اور اس نظر یے کے لوگ جب سے حکومت میں آئے ہیں محبت کی جگہ نفرت و تشدد ، امن و سکون کی جگہ بدامنی و بے چینی نے لے لی ہے اور پورے ملک کا ماحول ایسا بدل چکا ہے کہ اگر عدلیہ کا پاس و لحاظ نہ ہو تو نفرت کے سوداگر پورے ملک کو نفرت کی آگ میں جھونک دیں۔ حالانکہ بھارت ایک سیکولر ، غیر مذہبی اور جمہوری ملک ہے ، جس کا صاف سادہ مطلب یہ ہے کہ اس ملک کے حکومتی ڈھانچہ کا کوئی خاص مذہب نہیں ہو گا ، وہ ایک مذہب کی طرف دار ہو کر کوئی اقدام یا کام ہر گز انجام نہیں دیگی، اسے ہر حال میں نیوٹرل(neutral) رہنا ہو گا اور ثالثی کا کردار نبھانا ہو گا ، اس کا کسی بھی مذہب کی طرف جھکاؤیا کسی قسم کی مذہبی سر پرستی فراہم کرنا ملک کے دستور کی روح سے کھلواڑ کرنے کے مترادف ہو گا ، اور یہ عمل ملک بھارت کی جمہوریت کے حق میں سب سے بڑا ظلم ثابت ہو گا ، جسے عوام اور عدلیہ ہر گز برداشت نہیں کرے گی ، یاد رہے کہ آئین کی تشکیل کے وقت عدلیہ کی بالادستی کو قبول کرنے کی اصل غرض یہی تھی کہ جب بھی کوئی بر سر اقتدار حکومت آئین و قانون کی غرض و غایت اور اس کی تمہید کے خلاف ناپاک ارادہ کرے گی تو عدلیہ بر وقت اس ظالم حکومت پر سخت نکیل کسے گی اور ملک کے جمہوری دستور کی بقاء کے لیے اپنا فریضہ انجام دے گی۔
اپنے سیاسی مفاد کے لیے فرقہ وارانہ فساد کا گڑامردہ اب تک جو لوگ جن ذرائع سے بار بارا کھاڑنے کا کام انجام دیتے آئے ہیں،ملک کی عوام ان کے ناپاک ارادوں کو بہ خوبی جانتی ہے ۔ایک اہم اور بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا عدلیہ انہیں نہیں جانتی؟ اور ان کی کالی کرتوتوں کو بہ طور ثبوت اکٹھا نہیں کرسکتی ہے؟اور انہیں کیفر کردار تک نہیں پہونچا سکتی ہے؟ضرور کر سکتی ہے، اندھیروں میں امید کی آخری کرن اگر ہے تو وہ ا س ملک میں فقط عدلیہ ہے۔
ایوان عدالت قائم ہے ،لازم ہے کہ پھر فریاد بھی ہو
جس دل کا ہوا ہے خوں اتنا لازم ہے کہ وہ دل شاد بھی ہو

Comments are closed.