Baseerat Online News Portal

امام اعظم صاحب کی رحلت ناقابل تلافی خسارہ ، اردو نے ایک محسن کو گنوا دیا ہے

رازداں شاہد
آبگلہ ،گیا(بہار)
امام اعظم صاحب کی رحلت پررازداںشاہد نے اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ۔یقیناً یہ دنیا سرائے فانی ہے اور تمام لوگوں کو واپس جانا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ ہم انا للہ و انا الیہ راجعون کا ورد کریں۔امام اعظم کی موت کی خبرنے اردو دنیا کو سو گوار کر دیا ہے ۔یہ اردو دنیا کا ایک بڑا بلکہ ناقابل تلافی نقصان ہے،اردو نے ایک محسن کو گنوا دیا ہے۔ان کی شخصیت کے کئی پہلو تھے اور ہر پہلو قابل توجہ تھاڈاکٹر امام اعظم کہتے تھے کہ آج اردو دنیا میں انتشار ، افتراق اور اشتہار کے ماحول میں جب ہر شخص اپنی خودستائی ، خود نمائی اور خود توصیفی نیز ہم چنیں دیگرے نیست کی ڈفلی بجا رہا ہے۔ کسی کو یہ فکر نہیں کہ اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی نیز اشاعت و ترسیل کی راہ میں حائل مشکلات و معاملات کو کیسے دور کیا جائے ، کون سی ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے جو اردو کی فلاح و بقا کے لیے مفید اور کار آمد ہو۔ اس کے برخلاف اردو والوں کو فکر ہے تو صرف اور صرف اپنے ذاتی مفادکی۔
اصل نام سید اعجاز حسن امام اعظم قلمی نام امام اعظم ۲۰ جولائی ۱۹۶۰؁ء کو محلہ گنگوارہ دربھنگہ بہار میں پیدا ہوئے ان کے والد کا نام محمد ظفر المنان ظفر فاروقی ہے۔ان کی تعلیم ہے ایم ایے( اردو، فارسی)،ایل ایل بی، پی ہچ ڈی، ڈی لٹ ہے وہ مشہور ادبی جریدہ ’’تمثیلِ نو‘‘ ( دربھنگہ ) کے مدیر اعزازیتھے عرصہ تک آکاشوانی دربھنگہ کے پروگرام مشاورتی بورڈ کے ممبر (۱۹۹۵؁ء سے۲۰۰۱؁ء ) رہ چکے ہیں۔ قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان ، نئی دہلی کے لٹریچر پینل کے سابق رکن اور گرانٹ اِن ایڈ کے رکن بھی تھے نیز کئی ادبی ، سماجی اور تعلیمی اداروں سے وابستہ تھے۔ ان کی نثری و شعری تخلیقات ادب کے مقتدر و موقر رسائل و جرائد کی زینت بنتی رہتی تھیں آکاشوانی سے براڈ کاسٹ اور دور درشن سے ٹیلی کاسٹ ہوتی ہیں نیز وہ قومی و بین الاقوامی سیمیناروں میں بھی شرکت کرتے رہتے تھے۔ ڈاکٹر ایم صلاح الدین ‘ دربھنگہ نے ان کے فن اور شخصیت پرایک کتاب ’’ڈاکٹر امام اعظم : اجمالی جائزہ ‘‘ تصنیف کی ہے ‘جس میں ڈاکٹر امام اعظم کے اباو اجداد کے تفصیلی ذکر کے ساتھ ساتھ ان کی حیات ، مشاہیر علم و ادب سے ملاقات اور ان کے تاثرات نیز ان ڈاکٹر امام اعظم کے کلام کا انتخاب بھی شامل کیا ہے۔ پروفیسر سرور کریم( صدر شعبہ ٓاردو ار این آر کالج سمستی پور) کی ترتیب و تالیف ’’ عہدِ اسلامیہ میں دربھنگہ : تحلیل وتجزیہ ‘‘ جو امام اعظم کے تاریخی کاموں کا احاطہ کرتا ہے، منظر عام پر ا?چکی ہے۔ یونیورسٹی کے پی جی شعبہ اردو میں یو جی سی ریسرچ ایسوسی ایٹ ہوئے۔ پھر نومبر ۱۹۹۶؁ء میں بہار اسٹیٹ یونیورسٹی سروس کمیشن پٹنہ کے ذریعہ لیکچرار مقرر ہوئے۔ ایل این متھلا یونیورسٹی میں ان کے زیرِ نگرانی3اسکالروں کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی جا چکی ہے۔ ۴جولائی ۲۰۰۵؁ء تا ۱۵ مارچ ۲۰۱۲؁ء مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ریجنل سینٹر دربھنگہ (شمالی بہار) کے بانی ریجنل ڈائریکٹر ،۲۶ مارچ تا۲اپریل ۲۰۱۲؁ء پٹنہ کے ریجنل ڈائریکٹر ، ۴ اپریل ۲۰۱۲؁ء چتا حال کولکاتا (مغربی بنگال ) کے ریجنل ڈائریکٹر ہیں۔ ڈاکٹر امام اعظم پر محکمہ ڈاک نے ۳۰ نومبر ۲۰۱۸؁ء کو پانچ روپے کا ڈاک ٹکٹ جاری کیا تھا۔
امام اعظم سائنس کے طالب علم رہے۔ لیکن طالب علمی کے زمانے سے ہی ان کا فطری ذوق و شوق اردو ادب کی جانب مائل رہا۔ اپنے ادبی ذوق کی تسکین کے لئے وہ دربھنگہ کی ایک فعال ادبی انجمن’دائرہ ادب‘‘ سے منسلک ہو گئے جس کے کنو میز سلطان منشی تھے۔ اس انجمن کے اہم اراکین میں حسن امام درد، اویس احمد دوراں محمد سالم ، ایم کمال الدین منیر فاروقی منصور عمر ، ایم اے ضیاء ،امتیاز احمد صباوغیرہ شامل تھے۔ اسی انجمن سے امام اعظم کی ادبی سرگرمیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ بعد ازاں امام اعظم نے ایک نئی انجمن اردو ادبی سرکل’ کی تشکیل کی جس میں دائر ہو ادب کا انضمام ہو گیا۔
ڈاکٹر امام اعظم کے حالات زندگی اور ان کے علمی وادبی مشاغل سے ان کی مختلف النوع سرگرمیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کی ادبی خدمات کی کئی جہتیں نمایاں ہوئی ہیں۔ وہ شاعر ہیں، تنقید و تحقیق سے بھی شغف رکھتے ہیں، ترجمے سے بھی ان کی دیچیپسی کا اظہار ہوا ہے، کئی کتابوں کی ترتیب و تدوین کے فرائض انجام دئے ہیں، سفرنامے بھی قلمبند کئے ، متعدد سیمینار و سمپوزیم میں بھی ان کی شرکت رہی۔ ان کے علاوہ صحافتی شعبے میں بھی اپنی فعالیت کا ثبوت دیا ہے۔ غم کی اس گھڑی میں ہم جہاں مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں وہیں پسماندگان کے لئے دعائے صبر جمیل۔اﷲتعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے آمین۔۔۔

 

 

Comments are closed.