Baseerat Online News Portal

انتخابات کی خاطر…..

 

 

محمد صابر حسین ندوی

 

موہن بھاگوت نہ صرف آر ایس ایس کے مکھیا ہیں؛ بلکہ فی الحال ہندوازم، ہندو احیائیت کی سب سے مؤثر شخصیت ہیں، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ اس وقت سلطنت و حکومت اور تمام سنگھی پروپیگنڈوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں، یہی بات ہے کہ وہ سادگی اور شفافیت کے ساتھ ایسے بیانات دے جاتے ہیں جو ایک طرف عام الفاظ اور ستھرائی کا احساس دلواتے ہیں تو دوسری طرف وہ سنگھ کیلئے ایک پیغام اور دعوت کا کام کرتے ہیں، متشدد سنگھیوں کو حوصلہ ملتا ہے اور وہ مزید اپنے منصوبوں میں تیزی کے آتے ہیں، اسے یوں بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے کہ بھاگوت اس طرح خموش پیغام رسانی کا کام کرتے ہیں، اسی کڑی میں ان دنوں متعدد بیانات گردش کر رہے ہیں، ان کی مفکرانہ سوچ اور تاریخی، تہذیبی حقیقت کو ایک نیا روپ دیکر نئے سرے سے سوچنے پر آمادہ کرتے ہیں، چنانچہ انہوں نے منگل کے دن نوویڈا دہلی میں ایک پروگرام کے اندر شرکت کرتے ہوئے بیان دیا تھا کہ ہم ہندوستان کی تقسیم کا درد نہیں بھول سکتے، یہ پورا بیان بظاہر ایک عام واقعہ کا ذکر لگتا ہے؛ لیکن تجزیاتی نظریہ سے دیکھا جائے تو یہ ہندو ازم اور دوسری اکثریتی باشندوں کے خلاف زہر گھولنے کے مانند ہے، یہی نہیں، بھاگوت لگاتار پروگراموں میں شرکت کر رہے ہیں، مدھیہ پردیش میں بھی ایک پروگرام کے دوران انہوں نے مذہبیت کی بات کرتے ہوئے صاف صاف لفظوں میں کہا کہ ہندو کمزور لگ رہے ہیں، آخر ایک جگہ تقسم ہند اور دوسری جگہ ہندوؤں کو کمزور بتانے کا کیا مطلب ہوسکتا ہے؟ دونوں کڑیوں کو ملا کر دیکھئے کہ تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ انتجابات کیلئے وہ اکثریتی طبقہ کو ورغلا رہے ہیں، وہ گویا اعلان کر رہے ہیں کہ تمام ہندو ایک طرف ہوجائیں، تقسیم کا درد ہر گز نہ بھولیں اور اپنے اندر قوت و طاقت پیدا کریں؛ یعنی سنگھ کی موجودہ تحریک جو کل کا کل تشدد پر مبنی رہی ہے اسے یونہی آگے بڑھاتے رہیں، دراصل ہندوازم کے ٹھیکیداروں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس وقت سنگھ کی حالت خراب ہے، سیاسی تام جھام میں ان کے مقاصد اور مقابل کو دیکھ کر سارے منصوبے ہوا ہورہے ہیں، بالخصوص اترپردیش کو ہمیشہ مرکزی حکومت کیلئے سیمی فائنل سمجھا گیا ہے، سب سے بڑی آبادی والا یہ صوبہ اس قدر اہم ہے کہ سنگھ اپنی اڑیل سوچ اور گھمنڈ کے باوجود قدم پیچھے لینے پر مجبور ہوگئی اور زرعی قوانین واپس لے لئے؛ بلکہ اتنی جلدی اس کی کاروائی مکمل کروائی کہ سنگھ کے حواریین بھی انگشت بدنداں ہیں، آج سرمائی راجیہ سبھا سیشن میں اسے پاس کرتے ہوئے ایک عجیب سناٹا چھایا ہوا تھا، واقعہ یہی ہے کہ وہ جانتے ہیں اگر اترپردیش میں حساب گڑ بڑ ہوجائے تو پھر سرکار چلانا بھی مشکل ہے، اگر خدانخواستہ مان لیا جائے کہ ٢٠٢٤ء میں مرکز میں پھر بی جے پی آجاتی ہے، مودی جی کا ڈنکا بج جاتا ہے تب بھی اترپردیش کی شکست ان کی ناک میں نکیل ڈال دے گی، وہ شتر بے مہار نہ رہیں گے، بلکہ اس سے پہلے ہی ان پر ایسا پریشر بنے گا کہ ملک بھر میں ہنگامہ ہوجائے گا، فی الحال صورت کچھ یوں بنی ہے کہ سنگھ اپنی ہی پھینکی ہوئی ہڈی نگلنے پر مجبور ہے، چنانچہ میڈیا، یوگی اور موہن بھاگوت تک ہر ایک اپنی اس تصویر پر پڑی گرد کو صاف کرنے میں لگے ہوئے ہیں، بلاشبہ موجودہ حالات بتاتے ہیں کہ بی جے پی کی راہ مشکل ترین ہوچکی ہے، آپ پرسون واجپائی، رویش کمار ہی نہیں بلکہ عالمی خبر رساں اداروں کی کوریج دیکھیے تو اندازہ ہوگا کہ بات ہاتھ سے نکلتی جارہی ہے، مگر ان سب کے باوجود بی جے پی سلطنت سے دور ہوجائے یہ مشکل ہوسکتا ہے، ایک بات سمجھنے کی ہے کہ اکثر کمزور مقابل دوسرے کو طاقتور بنا دیتے ہیں، سنگھ ٢٠١٩ء میں بھی بوریہ بستر باندھ سکتی تھی؛ مگر اپوزیشن کی غداری، ان کا بکھراؤ اور انتشار ملک کو لے ڈوبا، اب بھی وہی حال ہے، اگرچہ اکھیلیش ہاتھ پیر ماریے ہیں؛ لیکن سارے داؤ صحیح جگہ بیٹھتے نظر نہیں آتے، پھر یہ کہ پولرائزیش کا دور لگاتار جاری ہے، دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

 

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.