Baseerat Online News Portal

ایم پی میں خواتین سے متعلق ایک خطرناک قانون –

 

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043

١٢/ جنوری ٢٠٢١ کو The Indian Express میں بی جے پی کے زیر اقتدار مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان کی تصویر کے ساتھ یہ خبر شائع کی گئی ہے کہ اگر کوئی خاتون گھر سے باہر کام کرنے جاتی ہے تو اسے قریبی پولس تھانے میں رجسٹریشن کروانا ہوگا، تاکہ اسے تحفظ فراہم کرنے کیلئے ٹریک (تعاقب) کیا جائے گا؛ جبکہ اس خبر سے قبل سرخی لگاتے ہوئے صحافی نے شوراج کا یہ قول نقل کیا ہے کہ خواتین کی شادی کیلئے کم سے کم عمر بڑھا کر ٢١ کی جائے گی، اور اس سلسلے میں جلد ہی مجوزہ قانون پیش کیا جائے گا….. ان دونوں خبروں کو دیکھ کر بعض اندھ بھکت یہ تصور کریں گے کہ اس میں کیا غلط ہے؟ یقیناً ملک عزیز میں خواتین کو تحفظ فراہم کروانا دشوار کن امر ہوگیا ہے، خاص طور پر موجودہ سرکار خواہ مرکزی حکومت ہو یا صوبائی ہر پیمانے پر خواتین کی حفاظت، ان کی عزت اور انہیں آزادی فراہم کرنے سے قاصر ہے؛ بلکہ دنیا یہ بات دیکھ اور سن چکی ہے کہ بی جے پی سرکاریں عموماً خواتین کے ساتھ ناروا سلوک، عصمت دری اور بےعزتی کو ہوا دیتی ہیں؛ بلکہ اس کے مرتکبین کو حوصلہ دیتے ہوئے انہیں اپنی پارٹی میں شامل کرتی ہیں، ان کے گلے میں ہار پہناتی ہیں، ان کی آؤ بھگت کرتی ہیں اور انہیں قانونی داؤ پیچ سے بچا کر سرخروئی سے ہمکنار کرتی ہیں، جو لوگ غور و خوض سے کام لیں گے انہیں یہ بات بخوبی سمجھ آجائے گی کہ سرکار اب ملک کو پوری طرح قابو میں کرنا چاہتی ہے، عوام کی ایک ایک ضرورت، حرکت اور ان کی روش پر نگاہ رکھنا چاہتی ہے؛ بالخصوص خواتین کو ڈرا کر اور انہیں خوف دلاکر متعدد قوانین تھوپ دینا چاہتی ہے، سچ کہا جائے تو یہ خواتین کو بالعموم اور بالخصوص ہندو خواتین کو بیوقوف، جاہل اور گنوار سمجھتے ہیں، انہیں شادی بیاہ کرنے، پیار و محبت کرنے اور اب تو کام کاج کرنے کی بھی آزادی دینا نہیں چاہتے، ایک طرف ملک میں جرائم کا ساتھ دے کر اور خواتین کے خلاف ہورہے مظالم کو بڑھاوا دے کر انہیں خوف دلاتے ہیں، دوسری طرف انہیں تحفظ دینے کے نام پر غلامی میں دھکیلنا چاہتے ہیں، لوجہاد کا افسانہ اس کی تازہ مثال ہے، جس کے ذریعے مختلف محبت و عشق کے افسانے جل بھن کر رہ گئے، گھر بار اجڑ گئے، آشیانہ نفرت کی بھینٹ چڑھ گئے، سکون و عفت کی قبا چاک ہوگئی، عورتوں کی آزادی ان کی خوداعتمادی اور خودپسندی کو ٹھیس لگادی گئی، عزت ووقار اور معاشرتی ساکھ کو مسمار کردیا گیا، انہیں ایک ٹول کی طرح سمجھا گیا اور ان پر رعب و داب بٹھا کر ان کا شکار کیا جانے لگا، ویسے بھی ہندو سماج میں عورتوں کی عزت کچھ خاص نہیں ہے اگر ہندو میرج ایکٹ ختم کردیں اور جس رام راجیہ و منواسنرتی کی تعریفیں کرتے پھرتے ہیں اسے لاگو کردیا جائے تو عورت ذلیل ترین مخلوق بن کر رہ جائے گی، اگر یقین نہ ہو منواسنرتی اور ہندو تاریخ کا مطالعہ کرلیا جائے.*
دراصل مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان اپنی مرضی نہیں؛ بلکہ آر ایس ایس کی خواہش اور ان کا حکم تھوپنے کا مکلف ہیں، اب یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ وزیر اعلیٰ اپنے آپ میں کچھ نہیں ہیں، ان کی سرکار جوڑ توڑ سے بنائی گئی ہے، امت شاہ کی شاطرانہ چالیں اور موہن بھاگوت کا پس پردہ چہرہ کام کر رہا ہے، ہندوازم کے متوالے اور بھگوائیت کے شیدائی حکمرانی کر رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ شوراج سنگھ نے پچھلے پندرہ سال راج کیا ہے، اب وہ موج کرنا چاہتے ہیں، گویا ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر اسٹیرنگ دوسروں کو دے چکے ہیں، چنانچہ بنیادی پروجیکٹس پر اب دھیان نہیں ہے، بھوپال اور دیگر علاقوں میں جاری ہائی ٹیک سٹی کا خواب اب خواب ہوتا دکھائی دیتا ہے، اب اس کی جگہ قوانین کی بھرمار ہے جس کے ذریعے عوام کو ورغلانے، انہیں ہندو مسلم میں الجھانے اور بجرنگ دل، آر ایس ایس جیسی تنظیموں کو مدد فراہم کر کے پورے مدھیہ پردیش کو بھگوا رنگ میں غرق کردینے کی خواہش ہے، مردوں کی جہاں تک بات ہے تو عموماً ہندو تشدد اور مسلم مخالف نظر آتے ہیں، ٹوپی جبہ وہ برداشت کرنے سے رہے اب تو کوئی لبرل مسلمان بھی نہیں بھاتا، ایسا لگتا ہے کہ ان کی عقلوں پر پردہ پڑ گیا ہے، وہ سماجی زندگی، معاشرتی اصول اور آپسی رواداری طاق نسیاں پر رکھ چکے ہیں، وہ سچ اور جھوٹ کے درمیان ایک موٹی لکیر کو بھی پہنچاننے سے منع کر رہے ہیں، تو وہیں اب خواتین کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، پہلے کم از کم محلے میں اڑوس پڑوس کی عورتیں رسوئی اور گھر بار کی باتیں کرتی تھیں، دیش میں بھڑکتی آگ اور پھٹتی جوالہ کی بھی باتیں ہوجایا کرتی تھیں مگر یہ سب کچھ توازن میں ہوا کرتا تھا، اب تو کھلے عام انہیں متاثر کیا جارہا ہے؛ ایسے میں وہ بھی بھگوا کرن کا حصہ بن چکی ہیں، وہ بھی کہتی ہیں کہ شوراج نے کیا ہے تو کچھ سوچ کے ہی کیا ہوگا!!! بھوپال ہائی ٹیک سٹی بن گیا ہے!! دیکھ تو ترقی ہو تو رہی ہے!! سڑکیں دیکھ پہلے کیسی تھیں اب کیسی ہوگئی ہیں!! اکیلی سرکار کیا کیا کرے گی!! جو بھی بگڑ رہا ہے وہ مسلمانوں کی وجہ سے ہی ہے!! وغیرہ وغیرہ لیکن وہ یہ نہیں کہتیں کہ ایک سرکار نے نام. نہاد ترقی کے نام پر تمہارے دماغ میں زہر بھر دیا ہے، جو پروجیکٹ مہینوں میں مکمل ہونا چاہیے اسے سالہاسال لٹکا کر اور اسے کرپشن کا منبع بنا کر سرکار اور اس کے حواریین عیاشی کر رہے ہیں، اور سب سے بڑھ کر ان سب کے پیچھے تمہارا بھائی چارہ ختم کردیا گیا ہے، ان سڑکوں میں تمہارے آپسی میل ملاپ کی ریت ڈالی گئی ہے، تمہیں عقلوں سے ماؤف کیا گیا ہے، تمہیں غلام بنا کر ایک خاص دائرہ میں سمیٹ کر زندگی تنگ کردی گئی ہے، تمہارے کھانے پینے اوڑھنے بیٹھنے اور کام کاج سے لیکر ہر فکر و سوچ تک پہرہ ڈال دیا گیا ہے؛ یہ قید نہیں تو کیا ہے؟ آخر یہ غلامی نہیں تو کیا ہے؟ کیا کبھی کسی طوطے نے سونے کے قفس کو قبول کیا ہے؟ نہیں تو پھر تمہیں تو سڑا گلا اور بوسیدہ قفس چمکا کر دیا گیا ہے تو تمہیں کیوں کر یہ بھاتا ہے؟؟

 

Comments are closed.