Baseerat Online News Portal

بیماریوں سے بچاؤ میں معاون حفاظتی ٹیکے

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
بھارت نےاپنے امیونائزیشن پروگرام کے دم پر چیچک (بڑی ماتا) اور پولیو سے ملک کو نجات دلائی ہے۔ یہاں کا ٹیکہ کاری پروگرام جغرافیائی رقبہ، فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد اور ویکسین کے استعمال کے لحاظ سے انتہائی وسیع ہے ۔ ویکسین بنانے اور ایکسپورٹ کرنے میں بھی بھارت سرفہرست ہے۔ اس کے باوجود 65 فیصد بچوں کو ہی ان کی زندگی کے پہلے سال میں تمام ٹیکے مل پاتے ہیں۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے مرکزی وزارت برائے صحت و خاندانی بہبود بچوں اور حاملہ خواتین کو بیماریوں سے تحفظ فراہم کرنے کے لئے ان ٹینسیو مشن اندر دھنش 2 چلا رہا ہے ۔ راہ میں کانٹے بھی آ رہے ہیں لیکن رفتار بنی ہوئی ہے ۔
حالانکہ معمول کی ٹیکہ کاری پروگرام 1985 میں شروع کیا گیا تھا لیکن 2 دسمبر 2019 سے مارچ 2020 تک چلنے والی اس مہم کے تحت ان بچوں کو ٹارگیٹ کیا گیا ہے جن تک معمول کے ٹیکے نہیں پہنچ پا رہے ہیں ۔ مثال کے طورپر دوردراز کے علاقے (ہارڈ ریچ ایریا) کنٹرکشن سائٹ، اینٹ کے بھٹے، کارخانے اور فیکٹریوں وغیرہ میں کام کررہی خواتین کے بچے، مشن اندر دھنش کے تحت بارہ جان لیوا بیماریوں سے بچوں کو بچانے کے لئے28 ریاستوں کے271 اضلاع میں ٹیکہ کاری کی جا رہی ہے ۔ اس کا دائرہ دو کروڑ 67 بچوں اور تین کروڑ حاملہ ماؤں تک پھیلا ہوا ہے ۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا ٹیکہ کاری پروگرام ہے اور پورا ہونے پر ملک کا نام ایک بار پھر روشن ہوگا ۔ وزارت نے2014 میں چھوٹے ہوئے بچوں تک پہنچنے کے لئے مشن اندر دھنش شروع کیا تھا ۔ پھر اپریل2015 سے جولائی2017 تک چلایا گیا ۔ اس وقت دو کروڑ55 لاکھ بچوں اور69 لاکھ حاملہ خواتین کو ٹیکے لگائے گئے تھے ۔ اس سے مکمل ٹیکہ کاری میں6.7 فیصد کا اضافہ ہوا ۔
مشن اندردھنش کو وزیراعظم نے 2017 میں لانچ کیا تاکہ ٹیکہ کاری مہم کو رفتار دی جا سکے ۔ اس کا ہدف ان اضلاع اور شہری علاقوں میں ٹیکہ کاری کو 90 فیصد کرنا تھا جہاں اس کی رسائی کم تھی ۔ اب مشن 2 کی ابتدا کی گئی ہے تاکہ ملک کا کوئی بھی بچہ نہ چھوٹنے پائے ۔ اس کا مقصد ہے 2020 تک نومولودوں کا مکمل امیونائزیشن ۔ اس کے لئے انتہائی جدید تکنیک اپنائی گئی ہے ۔ ویکسین کی سپلائی کو الیکٹرانک ٹیکا انٹیلی جینس نیٹ ورک اور کولڈ چین ٹروکنگ پروگرام سے ٹریک کیا جا رہا ہے اور متبادل ویکسین ڈلیوری میکانزم سے بانٹا جا رہا ہے ۔
ٹیکہ کاری وائرس اور بیکٹیریا سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچاؤ کا سستا اور کارگر طریقہ ہے۔ حکومت کی جانب سے تمام ٹیکے پرائمری ہیلتھ سینٹر، سب سینٹر اور آنگن واڑی مراکز پر مفت فراہم کئے جاتے ہیں۔ وزیراعظم محفوظ زچگی مہم کے تحت تمام حاملہ خواتین کا بچے کی ولادت سے پہلے مفت جانچ اور دیکھ بھال کا انتظام ہے۔ کئی ریاستوں میں اسمارٹ کارڈ کے ذریعہ حاملہ عورتوں کی پرائیویٹ اسپتالوں میں مفت جانچ اور علاج کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔ حاملہ خواتین کو بچے کی پیدائش سے پہلے اور اس کے بعد ٹیٹنس کا ٹیکہ دیا جاتا ہے۔ اس سے زچہ بچہ دونوں ٹیٹنس سے محفوظ رہتے ہیں۔ ٹیٹنس کا ٹیکہ معمول کے ٹیکوں میں شامل ہونے سے زچہ بچہ اموات شرح میں کمی آئی ہے ۔ 30 ملین حاملہ عورتوں کو ہر سال ٹیکہ دینے کا ٹارگیٹ ہے ۔
قومی تخمینہ کی بات کریں تو مکمل ایمونائزبچوں کی تعداد 61 فیصد ہے اور ڈی پی ٹی3-کا کوریج 72 فیصد ہے۔ ضلعی سطح پر 80 فیصد سے کم ڈی پی ٹی 3- کوریج والے اضلاع کی تعداد 601 میں سے 403 ہے یا 67 فیصد یعنی دو تہائی۔ بھارت میں ایسے بچوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے جنہیں کوئی ٹیکہ نہیں مل سکا ہے حتی کہ ڈی پی ٹی3- بھی نہیں۔ ایسے بچے تقریباً7.4 ملین ہیں ۔ ٹیکہ کاری مہم میں کولڈ چین یعنی ٹیکے اسٹور کرنے والی جگہ کا بہت اہم رول ہے۔ وہاں الگ الگ ٹیکے الگ الگ ٹمپریچر پر رکھے جاتے ہیں۔
کچھ دو سے آٹھ ڈگری پر تو کچھ کا درجہ حرارت نفی میں رکھنا ہوتا ہے۔ اسی طرح کولڈ چین سے نکلنے کے بعد ٹیکوں کو چار گھنٹوں کے درمیان استعمال کرنا ضروری ہے۔ ٹیکوں کا درجہ حرارت مین ٹین رکھنے کیلئے ریفریجریٹنگ باکسوں میں رکھ کر ایک مقام سے دوسرے مقام پر پہنچایا جاتاہے۔ دیش بھر میں یہ کام 27000 کولڈ چین سینٹر کررہے ہیں اور لاکھوں ہیلتھ کارکن اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ ٹیکوں کو گھر گھر پہچانے کے لئے صحت کارکنوں کے علاوہ غیر صحت رضاکاروں کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں ۔یہ رضاکار سردی، گرمی، برسات میں بغیر رکے پیدل، سائیکل، موٹر سائیکل، کار اور ناؤ سے ان دور دراز علاقوں تک ٹیکوں کو پہنچانے کا کام کرتے ہیں جہاں عام حالات میں بھی پہنچنا آسان نہیں ہے۔ ان کی محنت کی وجہ سے ہی ٹیکہ کاری پروگرام کو کامیابی مل رہی ہے۔
سو فیصد بچوں کو ٹیکے دیے جانے کیلئے سرکار کی وزارت صحت وخاندانی بہبود، ڈبلیو ایچ او اور یونیسیف مل کر کوشش کررہے ہیں۔ ٹیکہ کاری مہم کو کامیاب بنانے کیلئے یونیسیف ریڈیو، ٹیلی ویژن، پرنٹ میڈیا، کمیونٹی لیڈروں اور مذہبی رہنماؤں کو اس سے جوڑنے کی کوشش کررہا ہے۔ مہم کی رفتار کم ہونے کی دو تین وجہ عام طورپر سامنے آئی ہیں ۔ ٹیکہ کاری کی ضرورت اوراس کے فائدوں سے ناواقیت، والدین کے پاس وقت کی کمی، ٹیکے لگانے کی جگہ، دن، تاریخ کا معلوم نہ ہونا اور غلط فہمیاں یا مخالف پروپیگنڈہ وغیرہ۔ یونیسیف پیغامات کی ترسیل کیلئے ریڈیو پروفیشنل کی مددلے رہی ہے۔ ریڈیو صحافیوں نے ٹیکہ کاری سے متعلق اچھے اور اثر انداز پیغام بنائے ہیں جیسے وعدہ بھول نہ جانا ٹیکہ ضرور لگوانا وغیرہ۔ یونیسیف اچھے پیغامات کیلئے ریڈیو صحافیوں کو ریڈیو 4 چائلڈ ایوارڈ سے نوازتا ہے۔ اس نے پرنٹ میڈیا کے صحافیوں کو صحت پر لکھنے کیلئے تربیت دینے کا بھی منصوبہ بنایا ہے ۔ یونیسیف اس پروگرام کو اور آگے بڑھانا چاہتا ہ ہے۔
کہتے ہیں علاج سے بہتر ہے بچاؤ۔ بیماری سے بچنے کیلئے طرح طرح کی تدبیریں کی جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ چھوٹے بچوں کو بیماریوں سے کیسے بچایا جائے۔ پیدائش سے پانچ سال کے دوران بچوں کی زندگی کو سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ بھارت میں نمونیا، ڈائریا، ٹیٹنس اور غذائیت کی کمی سے عام طورپر بچوں کی اموات ہوتی ہیں۔ وائرس اور بیکٹریا سے ہونے والی بیماریاں بھی ان کیلئے مہلک مانی جاتی ہیں۔ بچوں کو بچانے کا دنیا بھر میں آزمایا ہوا طریقہ ٹیکہ کاری ہے ۔ جو کوسٹ ایکٹیو ہونے کے ساتھ ہر طرح سے محفوظ ہے۔ یہ اقتصادی نقصان سے بھی والدین کو بچاتا ہے۔ مثلاً اگر بچہ بیمار ہوجائے تو والدین کی دہاڑی تو چھوٹتی ہی ہے ساتھ ہی بچے کو ڈاکٹروں کو دکھانے اور دوا دارو میں بڑی رقم خرچ ہوجاتی ہے۔
اس کا اثر ملک کی جی ڈی پی پر بھی پڑتا ہے ۔ اس لئے مشن اندردھنش مہم 2 کا ہر شہری کو ساتھ دینا چاہئے ۔ کیوں کہ بچے دیش کا مستقبل ہیں ان کی حفاظت سب کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کی سب کو صحت مند رکھنے کی مہم کامیاب ہوگی تبھی ہر بچہ محفوظ اور ہر گودآباد رہ پائے گی۔ صحت مند سماج سے ہی صحت مند ملک کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔

Comments are closed.