Baseerat Online News Portal

جیت تب ہوتی ہے، جب ٹھان لیاجاتاہے

 

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

5؍اگست 2020کوبالآخررام مندرکاسنگ بنیادرکھ دیاگیااورہندتواپرایمان رکھنے والوں کے حوصلوں کومزیدجلابخش دی گئی، سنگ بنیادکے اس عمل کے دوران حیران کن بات یہ دیکھنے کوملی کہ نیوز اینکرس سے لے کر بی جے پی کے علاوہ کئی پارٹیوں کے نیتاؤں نے موقع کی مناسبت سے اپنابھگوا کرن کرلیاتھا اوروہ گیروے رنگ میں ملبوس نظرآئے، کانگریس پارٹی ، جسے غیرمسلم ’’مسلمانوں کی پارٹی‘‘ کہتے ہیں اورمسلمان(یعنی کچھ) آزادی کے بعد سے لے کر آج تک جس کے سیکولراورلبرل ہونے پرایمان رکھتے ہیں، یہ اوربات ہے کہ اس ملک میں فسادات کی جتنی تاریخیں ہیں، چندمعدودے کوچھوڑکر، سب انھیں کے زیرقیادت لکھی گئیں، اسی کانگریس کے لیڈران رام مندر کاکریڈیٹ اپنے سر لینے کی پوری کوشش میں مصروف نظرآئے، کمل ناتھ نے ہنومان چالیسہ کاپارٹ کرایا، جب کہ کانگریس کے سینئرلیڈر دگ وجے سنگھ نے 5؍اگست کے اس پروگرام پر اعتراض جتاتے ہوئے کہاکہ ’’سابق وزیراعظم راجیوگاندھی 1989میں ہی رام مندرکاشیلانیاس کراچکے ہیں، وہ ہندؤں کے آستھا کے عین مطابق تھا‘‘، ایک اچاریہ جی بھی ٹیلی ویژن ڈی بیٹ میں کہتے نظرآئے کہ: ’’جب 1949میں بھگوان رام کی مورتی پرکٹ ہوئی، سرکاردیش میں کانگریس کی تھی، جب تالاکھولاگیا، تب بھی دیش کی سرکارکانگریس تھی، جب شیلانیاس ہوا بھگوان شری رام کے مندرکا، تب بھی حکومت کانگریس کی تھی اورجب 1992میں بابری مسجدکوشہیدکیاگیا، تب بھی کانگریس کی ہی سرکارتھی، اس کامطب یہ ہے کہ بھگوان شری رام کے جتنے کام کئے، وہ کانگریس کی سرکارنے کئے‘‘، یہ الفاظ ان اچاریہ(پرمود) جی کے ہیں، جنھیں سیکولرکی علامت کے طورہم پیش کرتے رہے ہیں، اس کی تقریروں پرتالیاں پیٹتے رہے ہیں اورخصوصیت کے ساتھ جمعیۃ کی طرف سے منعقدہ قومی یکجہتی پروگراموں کے اسٹیج پرتقریباً ہمیشہ ہی نظرآتے رہے ہیں؛ بل کہ اگریہ کہاجائے کہ اسی اسٹیج کی وجہ سے وہ ملک میں مشہورہوئے توبے جانہ ہوگا، اورتواورکانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکاگاندھی نے بھی سرمیں سراورتال میں تال ملاتے ہوئے رام مندربھومی پوجن پروگرام کواتحادکاپیغام قراردیا، ان لوگوں کی ان باتوں سے ہمیں یہ سمجھ میں آگیاہوگاکہ پارٹی خواہ کوئی بھی ہو، مقصد میں سب ایک ہیں۔
آزادی کے بعدسے لے کرآج تک ہم نے برابرکانگریس کوہی سب سے بڑاسیکولرمانا، پھراس قطارمیں ملاملائم بھی شامل ہوئے، نتیش جی کوبھی ہم نے لبرل مان کر جیت دلائی؛ لیکن جب وقت پڑاتو’’جن پہ تکیہ تھا، وہی پتے ہوادینے لگے‘‘، اس کے باجود ہم نے ذاتی طورپرکوئی پیش رفت نہیں کی، ہم تکیہ ہی کرتے رہ گئے، نتیجہ بزبان شاعر : ’’سلائے گاہمیں تکیے میں تکیہ تیرے پہلوکا‘‘کاعملی مصداق بن گئے، بیس کروڑسے زیادہ ہونے کے باوجودہم خوف وہراس میں مبتلاہیں، گھرسے باہرنکلناہوتوجان ہتھیلی پرلے کر نکلتے ہیں، زادسفر تک لے جانے میں گھبراتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ہماراتعلیمی اورمعاشی گراف بالکل نچلی سطح پرہے، جس کو سچرکمیٹی رپورٹ نے واضح کردیاہے، ظاہرہے کہ یہ سب نتیجہ ’’تکیہ‘‘ کاہی ہے؛ لیکن جوہواسوہوا، ماضی اگرکرب ناک ہوتواسے بھولنا ہی بہترہے اورماضی اگرشاندارہوتوضروریادکرناچاہئے اوراسے بحال کرنے کی فکرکرنی چاہئے، ہماراماضی خصوصاً اس ملک میں شانداربھی ہے اورکرب ناک بھی، لہٰذا ہمیں کرب ناک ماضی کوبھول کرآگے بڑھنے کی ضرورت ہے، اب بھی وقت باقی ہے، بس ہم عملی میدان میں اترجائیں، ہمیں اب یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ آگے کیاکرناہے؟ اب روتے رہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا، مستقبل کی فکرضروری ہے، اس تعلق سے راقم کے ذہن میں چند باتیں آرہی ہیں:
۱- ہمیں اپنارشتہ اپنے خالق سے مضبوط کرناہوگا، اس کے بغیرہم کسی میدان میں کامیاب نہیں ہوسکتے، مکی زندگی اس کے لئے بہترین مثال ہے، حضوراکرم ﷺ نے تمام تکالیف کوبرداشت کرکے یہی کام کیا، جس کے نتیجہ میں ہرتکلیف کے جواب میں احداحدکی صداآتی رہی، آج ہمارارشتہ ہمارے خالق سے بہت کمزورہوچکاہے، فرائض سے کوتاہی، حقوق سے غلفت، مامورات سے لاپرواہی اورمنہیات کے خوگرہوتے جارہے ہیں، ہماری نئی نسل کاحال توبالکل اس تعلق سے بے حال ہے، بہ مشکل تمام وہ ہفتہ واری نماز یعنی جمعہ کی ادائے گی کرلیتی ہے، اس کے علاوہ کوئی کام ان کا ایسانہیں، جواسلامی تعلیمات کے خلاف نہ ہو، لباس سے لے کرخوراک تک، چال سے لے کرڈھال تک، ہرچیز میں مغربی فیشن کی نقالی اوروہ بھی اس طریقے سے کہ شایدخودان فیشنوں کے موجدین حیرت زدہ رہ جاتے ہوں،ظاہرہے کہ انھیں ان سے چھٹکارہ اسی وقت دلایاجاسکتاہے، جب کہ ان کارشتہ خالق سے مضبوط کردیاجائے، اس سلسلہ میں اپنی استطاعت کے مطابق کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
۲- تعلیم کوبنیادی ضرورتوں میں شامل کرناہوگا، عالمی سطح پرروٹی، کپڑااورمکان کوبنیادی ضرورت کی فہرست میں شامل کیاگیاہے، ہمیں اسی فہرست میں تعلیم کوبھی شامل کرناہے، پھرتعلیم میں ایک توفرض عین(اعتقادات، اوامر اورنواہی) کی تعلیم درجہ اول میں رکھناہوگا، پھراس کے ساتھ ساتھ فرض کفایہ(ڈاکٹری، انجینئرنگ، کاشت کاری اوردیگر ٹیکنالوجی اورٹیکنیکل تعلیم)کی طرف بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، آج ہم دونوں میدانوں میں کافی پیچھے ہیں،مارچ 2018ء تک پورے ملک میں آرایس ایس کے اپنے چوبیس ہزارتین سوچھیانوے(24,396) اسکولس، 45؍ملین طلبہ، 93ہزارٹیچرس، 15؍ٹیچرٹریننگ کالجز،12؍ڈگری کالجز، اور7؍ووکیشنل اینڈٹریننگ انسٹی ٹیوشنس تھے، ظاہرہے کہ اب اس میں اضافہ ہوگیاہوگا، اس کے علاوہ عیسائی اسکولوں کی لمبی فہرست ہے، ان کے بیچ میں اگرآپ مسلمانوں کے اسکولس ڈھونڈھیں گے توآٹے میں نمک کے برابرنظرآئیں گے، ان میں بھی کچھ مدارس ہوں گے اوراکثروہ اسکول ہوں گے، جہاں یاتوفرض عین کی تعلیم ہی نہیں ہوگی یاپھربرائے نام تعلیم ہوگی، پھرمجموعی تعلیم کامعیاربھی ایسانہیں ملے گا، جس کوآپ آرایس ایس اورعیسائی اسکولوں کے مقابلہ میں پیش کرسکیں گے، آرایس ایس نے اس کی طرف خصوصی توجہ دی، جس کانتیجہ یہ ہے کہ آج کوئی شعبہ ایسا نہیں، جہاں ان کے اپنے آدمی نہ ہوں،ہمیں اس کی طرف توجہ دیناہی ہوگا، اس کے بغیرہم کسی بھی میدان میں قدم نہیں رکھ سکیں گے۔
۳- تربیت کی طرف بھی خصوصی توجہ دیناہوگا اوراس کے لئے باقاعدہ تربیت گاہیں قائم کرنی ہوں گی، جہاں اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ جسمانی تربیت باقاعدگی کے ساتھ دینی ہوگی،پھراس میں یہ تربیت بھی شامل کرنی پڑے گی کہ ہم اپنے دین کومؤثرانداز میں غیروں کے سامنے کس طرح پیش کرسکیں؟ ملک کے حالات یہی کہتے ہیں اور اسی راستے کواپناکرآج آرایس ایس یہاں تک پہنچی ہے، اس کی ہزاروں کی تعدادمیں شاکھائیں ہیں، جہاں بہت ساری چیزوں کی تربیت دی جاتی ہے، ان لوگوں نے ابتداء یہ کام خفیہ طورپرکیا، پھرجب یہ مضبوط ہوگئے توعلانیہ طورپرکرنے لگے، یہ جان کرتعجب ہوگاکہ اس تنظیم پرتین تین مرتبہ پابندی لگ چکی ہے؛ لیکن آج اسی کے گرگے صاحب اقتدارہیں، اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی پیش نظررکھنی ہوگی کہ اپنے وقت کی گنوارکہی جانے والی قوم (اہل عرب) کیسے سپرپاورطاقتوں سے نبردآزماہوئی؟ یہ بس ایمانی طاقت اورنبوی تربیت کانتیجہ تھا، لہٰذا ہمیں بھی خصوصی توجہ اس طرف دینے کی ضرورت ہے۔
۴- اسلامی تعلیمات کوعام کرناہوگا، بالخصوص موجودہ دورمیں سائنٹفک انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لئے ہمیں احکام کی حکمتیں، ان کے اسرارورموز اوران کے مقاصد کاخصوصیت کے ساتھ مطالعہ کرناہوگا،اسلام کے معاشرتی نظام اورمعاشی نظام کوخاص طورپردنیاکے سامنے لانے کی ضرورت ہے؛ کیوں کہ اس وقت انسانیت کے سامنے معاشرتی اورمعاشی چیلینجز منھ کھولے کھڑے ہیں، اسلامی نظام کوایک متبادل نظام بناکرپیش کرناہوگا، پھراس میں اس بات کاخاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ دین آسان ہے، لہٰذا مسلک سے اوپراٹھ کرشریعت کے مطابق موجوودہ دورکے حساب سے جوآسان ہو، اسے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
۵- اس ملک میں رہنے بسنے والی دوہی قومیں ہندواورمسلم نہیں ہیں، جیساکہ آرایس ایس اوراس کی پارٹی بی جے پی نے بناکرپیش کیاہے؛ بل کہ پچاسوں قومیں آباد ہیں، جواپنے آپ کوہندونہیں کہتیں، ان قوموں سے علاحدہ علاحدہ طورپرمل کرانھیں یہ باورکرانے کی ضرورت ہے کہ اس ملک میں برہمن واد سے خودان کی قوم کوکیاخطرہ درپیش ہے؟ اس سلسلہ میں ان قوموں کے غیرسیاسی ؛ لیکن مؤثرشخصیات سے ملناچاہئے، یہ اس وقت کی ایک بڑی ضرورت ہے، آپ ﷺ جب مدینہ تشریف لے گئے توقرب وجوارکے تمام قبائل سے علاحدہ طورپرمعاہدہ کیاتھا، ہمیں اس مثال سے فائدہ اٹھاناچاہئے، ایساکرنے سے بحیثیت اقلیت ہم اقلیت میں نہیں رہیں گے، تمام اقلیتیں مل کرایک اکثریت بن جائے گی، جس کاخاطرخواہ فائدہ ہمیں ہوگا۔
۶- ان تمام امورکے ساتھ اختلاف میں بھی اتفاق پیداکرناہوگا، نظریاتی اختلاف پائے جاتے رہیں گے، اس کے باجودہمیں ایک اکائی بنناہوگا، اس سلسلہ میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے اندربرداشت کرنے کامادہ پیداکرناہوگااورمنصوص ومجتہدفیہ مسائل کے درمیان فرق باقی رکھناہوگا، مجتہدفیہ میں اختلاف کی گنجائش ہے، آپ بھی اختلاف کرسکتے ہیں، ایسے میں دوسروں پرنہ توطعن کیاجائے اورناہی گالی گلوج اورناہی کفرکافتوی داغاجائے، پھراس کے ساتھ افضل ، مندوب، مستحب اورمباح وغیرہ مسائل میں بالکل نہ الجھاجائے، ان باتوں پرعمل سے یقیناًہمیں کچھ نہ کچھ فائدہ ضرورہوگا۔
۷- قومی سطح پرایک سیاسی پاٹی کی ضرورت ہے، پارٹیاں توخودمسلمانوں کی بارہ پندرہ ہیں؛ لیکن سب کومتحد ہوکرکام کرنے کی ضرورت ہے، آرایس ایس کی سیاسی ایک پارٹی ہے، بی جے پی، اوروہی پارٹی ہندؤں کی نمائندگی کے طورپرسامنے رہتی ہے، ہمیں اس تعلق سے غوروفکرکرنے کی ضرورت ہے، یہاں بھی نظریاتی اختلاف کودوررکھ کراورکچھ چیزیں برادشت کرکے کام کرنے کی ضرورت ہے، یہ توآزادی کے بعدسے ہی ہوجانا چاہئے تھا؛ لیکن اب بھی وقت گیا نہیں ہے، بس توجہ کی ضرورت ہے، ہم ہارماننے والی قوم نہیں ہیں؛ لیکن جیت تب ہوتی ہے، جب ٹھان لیاجاتاہے۔

Comments are closed.