Baseerat Online News Portal

دعا:اہمیت و فوائد، آداب و شرائط اور ہماری حاجت و ضرورت

از:ڈاکٹر آصف لئیق ندوی
مانو،حیدرآباد۔موبائل:8801589585
Email:[email protected]
تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو آسمان و زمین کا پروردگار ہے، وہ دعاؤں کا سننے والااورخوب برکتیں،نعمتیں اور رحمتیں اتارنے والا ہے، وہی ہمارا مشکل کشا اور حاجت رواہے، ہم اپنے رب کی تعریف اور شکر گزاری اداکرتے ہوئے اسی کی جانب رجوع ہوتے ہیں اوراپنے تمام گناہوں کی معافی چاہتے ہیں،اسی طرح ہمیں تقوی و پرہیزگاری کما حقُّہ اختیار کرنا چاہیے کیونکہ تقوی و پر ہیزگاری اختیار کرنے والوں کے لیے اللہ تعالی دنیا و آخرت کی خیر و بھلائی یکجا فرما دیتا ہے ، جبکہ تقوی و پرہیزگاری سے رو گردانی اختیارکرنے والا اپنے انجام میں بد بخت وبدنصیب ٹھہرتا ہے، چاہے اسے کتنی ہی دنیااور اسکی دولت کیوں نہ مل جائے!!
ہمیشہ یاد رکھیں! اپنی اور دوسروں کی اصلاح و کامیابی، دائمی خیر و بھلائی، مصیبتوں اور عقوبتوں سے تحفظ، اور موجودہ مصائب وکورونا اوردیگر برے امراض سے کے نجات کا اہم طریقہ یہی ہے کہ اللہ تعالی سے اخلاص وللہیت، خشوع و خضوع ،دلی توجہ اور گڑگڑاکے ساتھ دعا کی جائے، کیونکہ اللہ تعالی دعا کو بہت پسند فرماتا ہے، اور دعا مانگنے کا حکم بھی دیتا ہے، دعا ئیںموجودہ حالات و احوال اور پیش آمدہ مصائب و مشکلات کے لیے بہترین اِکسیر ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: تمہارے پروردگار نے فرمایا: مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا، جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں، جلد ہی ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔(غافر: 60)
حقیقت میں دعا عبادت ہی ہے، جیسے کہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (دعا عبادت ہی ہے) ابو داؤد، ترمذی نے اسے روایت کیا ہے، اور ترمذی نے اسے حسن صحیح بھی قرار دیاہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (اللہ تعالی کے ہاں کوئی چیز بھی دعا سے بڑھ کر معزز نہیں ہے) ترمذی، ابن حبان، اور حاکم نے اسے روایت کیا ہے، نیز حاکم نے اسے صحیح الاسناد قرار دیاہے۔
دعا کرنے کی ہر وقت ترغیب دلائی گئی ہے، دعا کرنے پر اللہ تعالی بڑے ثواب سے نوازتا ہے، دعا کے ذریعے خاص اور عام تمام قسم کے مطالبات پورے کروائے جا سکتے ہیں، چاہے ان کا تعلق دین سے ہو یا دنیا سے، زندگی سے ہو یا موت کے بعد سے۔
دعاؤں کے معانی و مفاہیم میں غوروخوص کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں اسلام و شریعت کی بڑی اہم تعلیمات اور پیغامات پنہاں ہیں اور ان کے معانی میں غور کرکے وحدانیت اور انسانیت کے بلند مقام پر رسائی ممکن ہو سکتی ہے کیونکہ حدیث میں ہے ”الدعاء ھو العبادۃ” ترجمہ دعا عبادت ہی ہے اور قرآن میں ہے ”ادعونی استجب لکم” ترجمہ: تم سب مجھے پکارو میں تمہاری قبول کرونگا۔ہمیں چاہیے کہ کثرت سے استغفارو تونہ کی دعائیں کریں۔
اس پر فتن اور وبائی دور میں دعاہمارے لیے بہت بڑے ہتھیارکی مانند ہے، کیونکہ دعائیں تاریخ کا رخ موڑنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اس بات پر تاریخ شاہد ہے، انسانوں کو روز مرہ کی زندگی میں نت نئی ضروریات کا سامنا ہوتارہتا ہے، اس لیے انسان کو ہر وقت اللہ تعالی سے اپنی حاجت روائی کا مطالبہ کرتے رہنا چاہیے،دعا کی شرائط اور آداب میں: حلال کھانا پینا، احکامات الہیہ کی تعمیل، اخلاص، للہیت، حاضر قلبی، اللہ تعالی کے اسما و صفات کا واسطہ، نبی ﷺ پر درود، جلد بازی سے اجتناب، اور قبولیتِ دعا کے زمان و مکان تلاش کرنا شامل ہے۔
دعا جہاں عبادت کی روح اور اس کا مغز ہے، وہیں یہ کمالِ عبدیت کا حسین جوہر اور اپنی عجز و انکساری کا خاص مظہر بھی، ایک طرف دعا معرفتِ الہی کا شاہکار، روحانی کمال کا آبدار، خدا شناسی کا اظہار، تعلق مع اللہ اور توکل علی اللہ کا عظیم برہان ہے۔ تو دوسری طرف یہی دعا مومن کا ہتھیار، رنج وغم کے موقع کی حقیقی پکار، صبر واستقامت کی طلبگار اور خوشی کے موقع سے رب کا تشکر وامتنان بجالانے کی تعبیر و اظہار ہے۔ اسی طرح یہ دعا بے سہاروں اور مظلوموں کی آہ و بکا، ستم خوردہ اور مفلوک الحال انسانوں کی انصاف کی آواز ہے اور حاجت مندوں اور ضرورتمندوں کی فریاد ہے اور دنیاوی حاکم کے ظلم و ستم اور حق تلفی اور ناانصافی کے خلاف کائنات کے اعلی حکیم سے التجا ہے، جس کے ذریعے بندہ اپنے مالک حقیقی سے سرگوشی کرتا ہے اور اپنے لئے مدد و استعانت کی درخواست کرتا ہے، امت کے ہر فرد کو چاہیے کہ ان دعاؤں کو بعینہ یاد کر کے یا دیکھ کر ہی سہی حسب مواقع خشوع وخضوع کے ساتھ پڑھ لیا کرے تاکہ حضور کی مانگی ہوئی تمام دعاؤں کا بعینہ اعادہ ہوجائے اور مانگنے کی حجت بھی پوری ہوجائے کیونکہ ”منّا السؤال و منک القبول” ”ہمارا کام مانگنا ہے اور پروردگار عالم کا کام عطا کرنا ہے” کے حقدار بھی ہوجائیں، نیز ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ دعا کا فائدہ فرائض کے اہتمام پر موقوف ہے، کوئی بھی نفلی عبادت فرائض کا بدل نہیں ہو سکتی، اس لئے تمام فرائض کا اہتمام دعا کی قبولیت کے لیے بہت ضروری ہے اور جب بھی دعا مانگی جائے تو بالکل یقین و استحضار کے ساتھ مانگی جائے، قبولیت کا مکمل یقین رکھا جائے اور یقینی طور پر یہ دعائیں مقبول و مستجاب ہوتی ہیں، دنیا و آخرت کی تمام کامیابیوں کو شامل کرتی ہیں، حضور کی اتباع کرتے ہوئے خدا تک پہنچنے کا بہترین ذریعہ بھی ہیں، بعض اہل اللہ کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسنون دعاؤں کا ورد رکھ کر ہی واصل خدا ہوئے ہیں اور ان کو ریاضت و مجاہدے میں زیادہ جان کھپانی نہیں پڑی ہے۔
ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ جو آدمی بھی اللہ تعالی سے دعا مانگتا ہے، اللہ تعالی اس کی دعا قبول فرماتا ہے، پس یا تو دنیا کے اندر اس کا اثر ظاہر کر دیتا ہے یا آخرت کے لئے اس کا اجر محفوظ کر دیتا ہے یا دعا کے بقدر اس کا گناہ معاف کر دیتا ہے بشرطیکہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے یا جلدی نہ مچائے۔
کرۂ ارض پر کوئی ایسا فرد نہیں ہے جس کو فلاح و صلاح، چین و سکون، صحت و تندرستی، شفاء و علاج، حاجت و ضرورت دنیاوی فائدے اور اخروی نجات کی ضرورت نہ ہو۔ اگرچہ اللہ نے دنیا وآخرت میں کامیابی و کامرانی کے متعدد اصول وضوابط وضع فرمائے ہیں، جن کے مطابق زندگی گزارنے کو دستورِ حیات کہا جاتا ہے اور پوری انسانیت کی کامیابی کا جس پر انحصار ہے، اس سے ہٹ کر انسانی زندگی صریح گمراہی میں مبتلا ہو جاتی ہے، وہی پروردگار ہے جس نے اصول و ضوابط کے ساتھ ساتھ انسانی دنیا پر بے شمار عظیم احسانات وانعامات کا معاملہ فرمایا ہے، انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے جہاں بڑے بڑے انبیاء کرام مبعوث فرمائے ہیں وہیں بڑی بڑی کتابوں کا نزول فرما کر انسانیت کی رہنمائی فرمائی ہے اور سب سے اخیر میں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث اور قرآن کریم کو نازل فرما کر قیامت تک کے لئے اس کر? ارض کے تمام انسانوں کی رہنمائی فرمائی ہے اور انسانیت پر عظیم احسان و فضل فرمایا ہے اور اس آخری امت کے لئے حضور صلی وسلم کی سیرت، اخلاق و کردار اور ارشادات و معمولات کو آئیڈیل بنا کر پیش فرمایا ہے اور تمام انسانوں کے لئے اس کی اتباع کو کامیابی و کامرانی کا زینہ قرار دیا ہے۔
الحمدللہ امت کو آپ کے ذریعے تعلیمی و تربیتی، دینی واخلاقی، روحانی و نفسانی، ملی وسماجی اور انسانی فلاح و بہبود کے جو بیش بہا خزانے ملے ہیں، ان میں سب سے بیش قیمت خزانہ اُن دعاؤں کا مجموعہ بھی ہے، جو مختلف اوقات اور گھڑیوں میں اللہ تعالی نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھایا اور بتایا ہے کہیں نبیوں کی مقبول اور قرآنی دعاؤں کا گلدستہ پیش فرما کر رب کائنات نے درخواست مانگنے کا بہترین مضمون و متون ہی بتا دیا ہے جس کی قبولیت میں کوئی شک و شبہ نہیں باقی بچتا۔۔ جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر اپنی عنایتوں اور توجہات کا حصہ بنایا اور امت کو اس کی تلقین فرمائی ہے۔ کتب احادیث کے ذخیروں میں خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سینکڑوں بلیغانہ وفصیحانہ مختصر اور طویل دعائیں محفوظ ہیں جو خدا کے ہی الہام و ایحاء کردہ نبوی تعبیرات وملفوظات کی شکل موجود ہیں جو جامع بھی ہیں اور کسی بھی بے ادبی سے پاک و صاف اور منزّہ بھی۔
بعینہ انہیں الفاظ کے ذریعے دعائیں مانگنے سے ایک تو اللہ سے اپنی حاجتیں منوانے کا نبوی سلیقہ و طریقہ حاصل ہوتا ہے تو دوسری طرف اسکی مقبولیت کی راہ میں بڑی امیدیں وابستہ ہو جاتی ہیں اور قدرت کی شان و منزلت میں حضور کا خاص والہانہ، عقیدتمندانہ، عاجزانہ، عالمانہ اور عارفانہ نبوت اور شفقت و رحمت کا پہلو اجاگر ہوتا ہے، جس سے ہمارے اخلاق بھی بلند ہوتے ہیں اور مأثور و منقول دعاؤں کے معجزانہ پہلو کی اہمیت وافادیت کا حقدار ہوتے ہیں اور خدائے پاک سے آپ کی ہمہ وقتی اور گہری وابستگی کا اظہار بھی ہوتا ہے اور دعائیں مانگنے کا ڈھنگ اور سلیقہ کا پتہ بھی چلتا ہے، ظاہر ہے جب دعائیں ڈھنگ اور سلیقے کی ہونگی تو بارگاہِ ایزدی میں قبولیت ومنظوری کا یقینی پہلو اتنا ہی غالب ہوگا اور اس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش بھی باقی نہیں بچے گی۔
قرآن و حدیث میں قبولیت دعا سے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر نظر دوڑانے سے پتہ چلتا ہے کہ ہر دعا جو خدا اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے پر ہو تو وہ دعا ضرور قبول ہوتی ہے، مگر قبولیت کی صورتیں مختلف ہوتی ہیں، کبھی وہی چیزیں مل جاتی ہیں اور کبھی وہ دعا معلق کردی جاتی ہے اور کبھی اس کی برکت سے بلائیں اور مصیبتیں ٹال دی جاتی ہیں۔
کتنی ہی ایسی دعائیں ہیں جنہوں نے تاریخ کا دھارا ہی بدل کر رکھ دیا، شر کو خیر میں اور بہتر کو بہترین سے تبدیل کر دیا، چنانچہ اللہ تعالی نے ہمارے جد امجد ابراہیم علیہ الصلاۃ و السلام کی دعا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اے ہمارے پروردگار! ان میں ایک رسول مبعوث فرما جو انہی میں سے ہو، وہ ان کے سامنے تیری آیات کی تلاوت کرے، انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاکیزہ بنا دے۔ بلاشبہ تو غالب اور حکمت والا ہے۔ (البقرۃ: 129)
ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کی ابتدا کیسے تھی؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: میں اپنے والد ابراہیم ]علیہ السلام کی دعا، عیسی علیہ السلام کی خوش خبری ہوں، اور میری والدہ نے دیکھا کہ ان کے بطن سے نور نکلا جس سے شام کے محل بھی روشن ہو گئے، دیگر انبیا کی مائیں بھی اسی طرح نور دیکھتی ہیں۔(احمد)
مسلمان اس دعا کی وجہ سے سرمدی خیر میں ہیں، اس دھرتی کو بھی اس دعا سے فائدہ ہوا، نوح علیہ السلام کی دعا بھی موحد مؤمنوں کے لیے نجات اور خیر و برکت کا باعث بنی، اور مشرکین کیلیے تباہی اور نقصان کا باعث بنی۔
اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم خوب خوب دعائیں مانگیں اور تو بہ و استغفارکی دعاؤں میں خوب کثرت کریں، رمضان کے چند ایام باقی رہ گئے ہیں اس کو غنیمت سمجھتے ہوئے اسکی خوب قدر فرمائیں، دعا، تلاوت، روزہ و نماز، صدقات و زکوۃ، عطیات و امداد اور دیگر نوافل و مستحبات جیسی عبادتوں سے اپنی اور اپنے گھر والوں کی مغفرت کروائیں۔ اور خاکسار کو بھی اپنی دعاؤں میں شامل فرمائیں۔اور اپنے مرحومین و مرحومات کے لئے ایصال ثواب بھی کروائیں۔مدارس ومکاتب کا خوب خیال فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا

Comments are closed.