Baseerat Online News Portal

رشوت خوری

انمول عائشہ انصاری(کراچی)
ہمارے معاشرے میں رشوت لینا دینا بہت عام سی بات ہوگئی ہےاور اسے تحفے کا نام دیا گیا ہے۔ کوئی کام کروانے کے بعد کوئی قیمتی چیز یا رقم دی اور لی جاتی ہے،یہاں تک کے اس کو گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا جہنم میں جانا منظور ہے لیکن حرام کمائی چھوڑنا منظور نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے رشوت لینے اور دینے والوں پر(ابوداؤد مسلم) ابن ماجہ وترمذی نے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ بھی زیادہ کیا ہے کہ:اور لعنت فرمائی ہے اس شخص پر جو ان دونوں کے درمیان معاملہ ٹھرانے والا ہو(مسند احمد)
یعنی کہ رشوت لینے اور دینے والا ہی نہیں ان کے درمیان میں پڑنے والے کے لئے بھی لعنت ہے یعنی یہ اتنا قبیح عمل ہے اور ہم نے اس کو بے حد عام لیا ہوا ہے۔تقریباً ہر ادارے میں رشوت کا بازار گرم کیا ہوا ہے اس کے بغیر کام ہونے کا تصور ختم کیا جارہا ہے اور اس میں ہر طبقہ ملوث ہے چاہے وہ وہ غریب ہو یا امیر چھوٹی پوسٹ پر کام کرنے والے ہوں یا بڑے محکموں میں ہونے والے وکیل جج پولیس افسران ہوں۔کوئی انسان کسی چیز کی گم ہونے رپورٹ لکھوانے جائیں، یا اپنے آپ پر ہوئے کسی ظلم کے انصاف کے لئے،بجائے ان کا مسلہ سننے کے پہلے پیسوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
انسان جو پہلے ہی اپنی پریشانی میں ہوتا ہے یہ سب دیکھ کر سوچتا ہے جو چلا گیا اس پر صبر کریں کیونکہ قانون کے رکھوالوں کے پاس جا کر مزید مصیبت میں ہی پڑنا ہے۔جاب کے حصول کے لئے بھی جائیں تو وہاں پہلے ہی رشوت کی بنا پر سلیکشن ہو چکی ہوتی ہے،محض خانہ پری کے لئے انٹرویو لئے جارہے ہوتے ہیں۔خود پر ہوئے کسی ظلم کے باعث قانون کی مدد لینا چاہیں تو وہاں بھی پہلے سے پیسے الگ سے رکھنے ہوں گے ورنہ آپ کا مخالف آپ پر ظلم کرنے کے باوجود پیسے دے کر جیت چکا ہوگا۔
ایسا لگتا ہے سچ حق ایمانداری سے ان کا کوئی واسطہ نہیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص ناحق فیصلہ کرے گا،تو اللہ تعالیٰ سے اتنی گہری جہنم میں ڈالے گا کہ پانچ سو برس تک برابر گرتے چلے جانے کے باوجود اس کی تہ تک نہ پہنچ پائے گا۔(3176)
اپنے لئے اور اپنے گھر والوں کے لئے آسائشات جمع کرنے گناہ کمانے یہ نہیں سوچتے کہ یہ لوگ ہمارے ساتھ ہونگے بھی یا نہیں رسول صلی اللہ علیہ نے فرمایا کوئی بندہ حرام مال کمائے پھر اس میں سے اللہ کی راہ میں صدقہ کرتے ہو یہ صدقہ اس کی طرف سے قبول نہیں کیا جائے گا اور اگر اپنی ذات اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرے گا تو برکت سے خالی ہوگا۔اور اگر وہ اس کو چھوڑ کر مرا تو اس کے جہنم کے سفر میں زاد راہ بنے گا۔اللہ تعالیٰ برائی کو برائی کے زریعے سے نہیں مٹاتا ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود(مشکوٰۃ) یعنی کہ صدقہ وغیرہ بھی قبول نہیں ہوگا کیوں کہ یہ حرام مال ہے۔
اتنی سخت وعیدیں ہیں کہ انسان اگر اسی پر یقین رکھے تو دل کانپ اٹھے لیکن آج کل ہم نام کے مسلمان بنے ہوئے ہیں آخرت کے دن کو بہت دور سمجھا ہوا ہے۔فانی دنیا میں لگے ہوئے ہیں یہ بھی نہیں پتا ہے کہ اس وقت سب مال وغیرہ یہاں ہی پڑا رہ جائے گا صرف اعمال ساتھ جائیں گے۔’’ سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا‘‘۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی آخرت کے دن کو یاد رکھتے ہوئے زندگی گزاریں اور ایمانداری کے وصف کو اپنائیں۔انسان یہاں روکھی سوکھی گزار کر اپنے آخرت کے لئے جمع کریں اللہ ہم سب مسلمانوں کو ایمانداری کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا کرے ۔

Comments are closed.