Baseerat Online News Portal

مثبت و منظم منصوبہ بندی وقت کی اشد ضرورت

 

 

نور اللہ نور

 

کہتے ہیں نہ کہ اگر زخم کی مرہم پٹی نہ کی جائے اور اس پر نگہداشت نہ کی جائے تو آگے چل کر ایک ناسور کی شکل اختیار کر جاتا ہے پھر لاکھوں دواؤں سے بھی اس سے نجات نہیں ملتی.

یہی حال امت مسلمہ کا ہے آزادی کے بعد سے مسلسل زخم دئیے گئے ، ہزاروں بستیاں ویران کردی گئی ، کروڑوں جانیں اس لنگڑی لولی جمہوریت کے بھینٹ چڑھ گئی، بے شمار چراغ گل ہوگئے ، اور ہزاروں پھول کھلنے سے قبل مسل دئے گئے.

مگر امت مسلمہ کو فرقہ واری چپقلش سے فرصت ہی نہیں ملی کہ وہ اپنے زخموں کا مداوا کرے ، افتراق و انتشار کی تاریکی سے نکلنے کی کبھی جسارت ہی نہیں کی تاکہ وہ اپنے صفوں کو منظم کر سکے ، اپنے اندر کی قوت پر اعتماد ہی نہیں کیا کہ جس کے ذریعے اسلام دشمنوں سے اپنا دفاع کرسکے.

 

بابری کا زخم بغیر دفاع کئے سہ لیا، گجرات کی نسل کشی کو مصنوعی بھائی چارے پر در گزر کردیا ، شرعی امور میں مداخلت کے سلسلے میں جھوٹی اور مکار عدالت پر تکیہ کر لیا سوائے مقدمات لڑنے کے کچھ نہیں کیا ، وہاں سے فضیحت و رسوائی ملنے کے بعد ہم نے کوئی کوئی ٹھوس اقدامی پہلو اختیار نہیں کیا.

رفتہ رفتہ یہ خراشیں ہمارے لئے ایک ناسور کی شکل اختیار کر گیا ، اس کے بعد ہمارا خون مباح ہوگیا ، ہماری جانیں حیوانات سے رخیص و سستی ہوگئی ، اب یہ خراش اور زخم اس قدر گہرے ہوگئے ہیں کہ اب ہمیں کسی پہلو قرار نہیں.

ہمیں دئے گئے حقوق میں در اندازی ، امت کے جوانوں کی بے جا گرفتاری، مدارس اور اہل مدراس کے تعلق سے اسلام دشمن کی دشنام طرازی، روز مرہ بڑھتے ہوئے لنچگ کے معاملات، اور مبلغین و قائدین امت کی ناحق گرفتاری اس بات کا عندیہ دے رہی ہے کہ پانی اب سر سے اوپر ہوچکا ہے اب بھی اگر کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی اور کوئی مستحکم لائحہ عمل تیار نہیں کیا گیا تو ہندوستانی مسلمان کے وجود پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے.

ہم اس نازک موڑ پر آچکے ہیں جہاں صرف پریس ریلیز کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، چند مذمتی بیان اس کی تلافی نہیں کرسکتے، ہزاروں صفحات سیاہ کرنے اور مضامین و آرٹیکل کے انبار سے کچھ خاطر خواہ فایدہ نہیں ہوگا کیونکہ ایسے پر آشوب ماحول میں اور ایسے وقت میں جب کہ پوری فضا ہمارے مخالف ہو یہ سب لچر اور بے سود حیلے ہیں ان سے دشمن کو محتاط ہونے کا موقع تو مل جائے گا مگر ہم تہی دست رہ جائیں گے.

کیوں کہ آزادی کے بعد سے چند قدم پیچھے چل کر دیکھیں کہ ہم نے بابری پر احتجاج کیا ، گجرات و دہلی ، مظفر نگر، بھاگلپور کی نسل کشی پر شور مچایا ، طلاق ثلاثہ پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر ان سب سے کیا حاصل ہوا کچھ نہیں، ہم نے لاکھوں مذمتی بیان دیئے، ہزاروں مرتبہ حکومت کو کوسا مگر پھر ہماری جان نہیں بخشی گئی.

اس لئے اب یہ زعما قوم اور ملک و ملت کا درد رکھنے والے حضرات کی یہ زمہ داری ہیکہ ان لچر اور کمزور حیلوں سے نکل کر آگے کی راہ ہموار کرے ، ایسی پختہ تیاری کرے کہ کوئی آنکھ اٹھانے کی جرات نہ کرے، اور ساری رنجشوں کو دور کرکے ایک ایسا محاذ تیار کیا جائے جو دشمن کے حملے سے دفاع کے لیے آہنی دیوار ہو ، ایسے حیلے اور قانونی داؤ پیچ کا استعمال کرے جو دشمن کو موقع نہ فراہم کرے ، اور ایسی قوت کے ساتھ میدان میں آئے کہ امن کے دشمن کو موقع نہ مل سکے ، ایسی منظم و مستحکم منصوبہ بندی کرے جو موجودہ نسل اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ قلعہ ہو.

یہ اس وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے اور ملک کا نازک حالات اسے تیاری کا مقتضی ہے اور اس بات کا بھی مقتضی ہے کہ اتفاق ہی اور یک مشت ہونے میں ہی اس قوم کی بھلائی ہے اور یہی اس ناسور کا علاج بھی ہوسکتا ہے.

ورنہ پہلے عمر گوتم گرفتار کئے گئے اب مولانا کلیم صدیقی گرفتار کئے گئے اس کے بعد پھر کسی اور کا نمبر آئے گا اور یوں رفتہ رفتہ ہم یہاں سے اپنے تمام تشخات کے ساتھ ناپید ہوجائیں گے:

Comments are closed.