Baseerat Online News Portal

کشمیرمیں شراب اڈے کھولنے کاشرمناک منصوبہ

عبدالرافع رسول
چندیوم سے یہ خبرگشت کررہی ہے دہلی وادی کشمیرکے دس اضلاع میں مجموعی طورپر76شراب خانے کھولنے کی منصوبہ بندی کرچکاہے۔اس خبرسے اسلامیان کشمیرمیں سخت اضطراب،بے چینی اوربے کلی پائی جارہی ہے۔دراصل1947 میں جب بھارت نے کشمیرپر قبضہ جمایاتو وہ سامراجیت ،ظلم وجور،نسل پرستی ،فرقہ پرستی ،بے حیائی ،اخلاق سوزی کے ساتھ ساتھ شراب کی خباثت کوبھی اپنے ساتھ کشمیرلے آیا ۔جس کامقصد یہ تھاکہ کشمیریوں کوشراب پلائی جائے ،وہ مست رہیں گے اوروہ جب وہ اپنے ہوش وحواس کھوبیٹھیں توپھروہ یہ نہیں سمجھ پائیں گے کہ آخربھارت نے اس مسلم ریاست پرقبضہ کیوں کیااورایسے عالم میں ریاست پربھارتی قبضے کے خلاف وہ سوچ بھی نہیں سکتے مزاحمت تو دورکی بات ۔ا سی مکروہ فکروفلسفے کے تحت گذشتہ ستردہائیوںمیںشراب ’’ ام الخبائث‘‘کوارض کشمیرمیں پھیلانے اورعام کرنے کے لئے دہلی کی طرف سے بڑی تگ ودوجاری رہی ۔اگرچہ دہلی کو یہ جرات نہ ہوئی کہ سرزمین کشمیرپرکھلے عام شراب کی ترسیل کرے تاہم اس نے اپنی فوج کوٹاسک سونپاکہ وہ کشمیریوں کوفوجی کیمپوں کے ساتھ مانوس کرکے شراب سے ان کی تواضع کرے اوران کے لئے تمام فوجی کیمپوں میں مفت شراب کھلی مہیارکھی جائے ۔لیکن یہ کشمیری مسلمانوں کی تاریخ رہی ہے اورانہیں بہرحال میں یہ زبردست کریڈٹ جاتاہے کہ انہوں نے بھارتی فوج اور فوجی کیمپوں کے ساتھ کسی بھی قسم کاکوئی تعلق واسطہ نہیں رکھااورنہ ہی ملاقاتوں کاکوئی جھلمل استواررکھا۔اس طرح دہلی کاکشمیریوں کوشرابی بنانے کی مذموم سازش ناکام ہوئی ۔
دہلی کوجب اس حوالے سے فوجی فرنٹ سے ہزیمت اٹھاناپڑی توایک اورطریقے سے بھارتی چیرہ دستی جاری رہی کہ اس نے دنیاکے عارضی تعیش میں الجھے ،حرص وآزکی آگ اورطمع ولالچ کی روگ میں مبتلا اور حقیرمنفعت کے غلام شیخ عبداللہ کی قیادت والی اسمبلی سے سترکی دہائی میں یہ کہتے ہوئے ’’شراب بل‘‘ پاس کروایاکہ کشمیرمیں بیرون ممالک بالخصوص یورپ سے لوگ سیاحت پرآتے ہیںجبکہ کشمیرمیں سکھ کیمونٹی بھی رہتی ہے جوشراب کے خوگرہیں اور ہمیں ان دونوں طبقوں کاخیال رکھناہوگا۔ اس بل کے ذریعے سے کشمیر اسمبلی میں بیٹھے شرابیوں نے اپنے ہم مشربوںکو ہر قسم کا اورقانونی تحفظ فراہم کیا ہے اور اس کے حق میں نام نہاد قانونی جواز پیش کیا جاتا رہاہے ۔واضح رہے کہ ایسے قبیح افعال پر شیخ عبداللہ اپنی قبائے زندگی میں جھانک کربھی شرمندہ نہیں ہوئے اور لغویات اوربکواسیات کی اس آڑ میں پہلے ان تمام ہوٹلوںمیں شراب مہیارکھی گئی جہاں غیرملکی سیاح قیام پذیرہوتے۔ لیکن اسے تخت دہلی کاوہ منصوبہ روبہ عمل نہ آسکاجواسلامیان کشمیرکے خلاف وہ ترتیب دے چکا تھا۔اس لئے اپنے شرمناک منصوبے کوعملاتے ہوئے سترکے دہائی میں ہی سر ینگر کے فوجی زون سونہ وارعلاقے جہاں بھارتی فوج کا15کورہیڈ کوارٹرہے عین سامنے بٹہ وارہ بازار میں آزمائشی طورپر(BROADWAY)کے نام سے شراب کی ایک شراب خانہ اورسینماہال کھولا ۔
تاہم کشمیری مسلمان نہ صرف اپنے آپ کواسے لعنت سے بچاتے رہے بلکہ فسق اورفحش کے ان دونوں اڈوں کوبندکرانے کے لئے انہوں نے ہرسطح پرصدائے احتجاج بلندکیا ۔ بھارتی فوج اورنیشنل کانفرنس کی انتظامیہ نے نے یہ کہہ کرمعاملہ گول کیایہ دونوں اڈے بھارتی فوج کے ہیڈکوارٹر کے سامنے صرف اورصرف فوجی اہلکاروںکے لئے کھولے گئے اورعام شہریوں کاان اڈوں کے ساتھ کوئی لینادینااورمیلان نہیں۔مگراس تلبیس ابلیس کے باوجود بھارت نوازنیشنل کانفرنس اورکانگریس سے وابستہ لوگ بے شک تعدادمیں نہایت کم ہی سہی لیکن چوری چھپے گناہوں کے ان دونوں اڈوں کے ساتھ منسلک ہوئے۔چونکہ اپنے احتجاج میں کشمیری مسلمانوںنے سرزمین کشمیرپرشراب اڈہ کھولنے کو نا قا بل بر داشت قرار دیا اس لئے بھارتی فوج اورنیشنل کانفرنس کی انتظامیہ کشمیرکے دیگرعلاقوں میں شراب خانے کھولنے سے کتراگئی اوران میں یہ جرات پیدانہ ہوسکی کہ وہ شراب کوعام کرکے کشمیری مسلمانوں کے دینی جذبات سے کھلواڑ کرسکیں۔
کشمیرکا مسلم سواداعظم دینی معاملات کے حوالے سے ہمیشہ چوکناثابت ہواہے۔دین کے ساتھ اسلامیان کشمیر کی لازوال ایمانی وابستگی ،انکے حساس سینسراورانکی بیدار حس اورہوشیارمغزی نے ارض کشمیرمیں شراب عام کرنے اوراس کے اڈے قائم کرنے والے بھارت نوازوںکی بساط الٹ دی ۔جب بھی کشمیر اسمبلی میں شراب خانے کھولنے کی باتیں ہوئیں تومزاحمت کے لئے اسلامیان کشمیر نے کمرکس لی توپیداشدہ صورتحال کودیکھ کر انتظامیہ اور بھارتی فوج کادہلی سے سازبازاپنے مذموم منصوبوں پرعمل درآمدکرانے میں ناکام رہا۔جس کی تاز مثال 2019کی ہے کہ جب سری نگر کے ائیرپورٹ پرایک شراب خانے کے کھل جانے کی خبر سامنے آئی تواسلامیان کشمیرسراپااحتجاج بن گئے ۔کشمیری مسلمانوںکے کڑے تیوردیکھ کر انتظامیہ کواپنافیصلہ واپس لیناپڑا۔
تاہم اسکے باوجودکشمیرکے مسلمانانہ تہذیب و تمدن اورکشمیری مسلمانوں کے اسلامی عقاید کوللکارنے کے لئے درپردہ ناپاک منصوبے اورکشمیرکے اسلامی تشخص اورمسلم شناخت کو مٹانے کے لئے مذموم سازشیں تیارہوتی رہیں اوراسی کی دہائی میں یہ ہمارے لڑکپن کی بات ہے کہ سری نگرکے لال چوک کی جنگلات گلی اورجہانگیرچوک کے نذدیک نمائش چوک کے ساتھ چوری چھپے دویاتین شراب خانے کھل گئے لیکن وہ بھی رات کے وقت کھل جاتے تھے دن میں ان کے کھولنے کی تاب وہ نہیں لاسکے ۔چونکہ انتظامیہ ان لوگوںپرمشتمل تھی کہ جو دینی اور اخلاقی طورپر پوری طرح دیوالیہ ہوچکے تھے اوراسی دیوالیہ پن کا نچوڑ یہ نکلاکہ وہ نہ صرف ناک رگڑ کربھارت کے سامنے سجدہ ریزہوئے بلکہ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے انکی دوری کامظہربھی یہی دیوالیہ پن ثابت ہوا۔یہ حیرتوں کامنبع ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہندوئوںکے ساتھ ،ہندو،سکھوںکیساتھ سکھ اورمسلمانوںکے ساتھ مسلمان پیش کرتے رہے اوربغیرکسی ہچکچاہٹ کے بیک وقت مندر،مسجداورگردواروں میں جاتے رہے اورضرورت کے مطابق قرآن ،گیتااورگرنتھ کو پڑھتے رہے۔اس عظیم اورقبیح گناہ کی داغ بیل شیخ عبداللہ نے ڈالی ۔شیخ عبداللہ نے برطانیہ سے تعلق رکھنے والی ایک نصرانی انگریزنی عورت کواپنے بیٹے فاروق عبداللہ کی بیوی بناکرلایا توشیخ عبداللہ کے مرنے کے بعد فاروق عبداللہ جسے کشمیرمیں’’ داند‘‘کہاجاتاہے نے اپنی بیٹی کانگریس کے لیڈر اوراس وقت کے وزیر راجیش پائلٹ کے بیٹے سچن پائلٹ کودی اور ایک سکھ لڑکی کواپنے بیٹے عمرعبداللہ کی بیوی بناکرگھرلایا یوں کشمیرکے اس غدارخاندان نے اکبر کے ’’دین الٰہی کی طرح ‘‘اپنے لئے ایک نیامذہب تراشا۔
نیشنل کانفرنس کے بعد جب پی ڈی پی بنی اوردہلی نے اپناسابق ہرکاربدل اسے ہرکاری کاکام لینے کاعزم کیا تو22جون 2016 کو محبوبہ مفتی نے بطور وزیراعلیٰ کشمیرکے علماء کرام ،ائمہ مساجداورخطبا ء عظام حضرات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہو ئے کہا کہ یہ لوگ ماحولیات کے بگاڑ،سماجی بدعات اور سنگین مسائل کے خلاف اف بھی نہیں کرتے ہیں تاہم صنعتی پالیسیوں’’شراب کووہ صنعت سمجھتی رہی‘‘ اور سینک کالونیوں کے خلاف مساجد میں شور مچاتے ہیں۔اس کے بعد 25جون 2016 کومحبوبہ مفتی کے وزیر خزانہ حسیب درابو نے شراب پر پابندی لگانے سے یہ کہتے ہو ئے انکار کیا کہ ہم اپنے فیصلے دوسروں پر مسلط نہیں کر سکتے ہیں لوگوں کو ان کی پسند اور خواہش کے انتخاب کی مکمل آزادی حاصل ہے لہذا انھیں اپنی پسند کا فیصلہ کرنے کی اجازت ہونی چاہیے ۔مکمل آزاد معاشرے میں رہ کر ایک کی پسند دوسروں پر مسلط نہیں کی جاسکتی ہے ۔اسے قبل جب بھارت نواز نیشنل کانفرنس اقتدارکی کرسی پربراجماں تھی تواس کے وزیر خزانہ عبدالرحیم راتھرنے بھی اسمبلی میں اسی طرح کے انتہائی بھونڈی دلیل پیش کرتے ہو ئے شراب پر پابندی لگانے سے انکار کردیا۔
اس انتظامیہ کی سینہ زوری دیکھیں کہ کشمیرمیںسکھوںکی ایک چھوٹی سی اقلیت کوراضی رکھنے کے لئے ریاست کے مسلم سواد اعظم کے دل پرمونگ دل رہی ہے ۔ مسلمانوںکی سرزمین پر جو چیز مسلمانوں کے عقائد اور ایمان سے متصادم ہے اس پرتو مکمل پابندی ہونی چاہئے ۔مگرتف!شراب کی لت پڑنے والے اسلامی احکامات کیسے سمجھ پائیں گے۔اب توساراکشمیردہلی کے ایک گورنرکے سپردہے جب کشمیرکے بھارت نوازسیاست کار ہی کشمیری مسلمانوں کے دشمن بنے بیٹھے تھے تودہلی کاایک ہندوگورنرجس طرح چاہے اورجس قدرچاہے کشمیرمیں تباہی مچادے گا۔لیکن اس میں کوئی ابہام اورکوئی دورائے نہیں کہ پہلے کی طرح آج بھی اسلامیان کشمیردہلی کی تمام سازشوں کاڈٹ کامقابلہ کریں گے۔افسوس !2015میں بہار جیسی ہند اکثریتی ریاست شراب کے مضر صحت اور سماجی و معاشرتی بگاڑ کے لئے پابندی لگانے کے لئے متحد ہو کر پابندی لگواسکتے ہیں مگر سرزمین مسلمانان میں ماضی کے حال احوال دیکھیںتوارض کشمیرمیں پیوستہ دہلی کے کھونٹے نہ صرف یہ کام نہیں سکے بلکہ اس کے علیٰ الرغم وہ اس کے حق میں قانون سازی کرتے رہے ۔یہ محض اس لئے کہ تذلیل کے ایوانوں اور غلامانہ نوکریوں پر درازپڑے نام نہاد بیروکریسی خود شراب کی خوگر تھی اس لئے وہ اس پر پابندی کے حق میں کیسے ہو سکتے ہیں ؟آج جس طرح تخت دہلی انکی تذلیل کررہاہے یہ خداکی طرف سے ان پرقہرنازل ہوچکاہے ۔یہ مصرعہ فی البدیہہ ان پرپوری طرح صادق آتاہے کہ ’’انہیں خداملانہ ہی وصال صنم‘‘۔
بہرکیف!کشمیرمیں بھارتی فوج اوربھارتی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھارت نوازکشمیری سیاست کارایڑی چوٹی کابڑازورلگاکرماضی کے شب روز کشمیر میں شراب کی ترسیل اوراس کے پھیلائو میں ناکام رہے ہیںلیکن حالیہ برسوں ایسے ناپاک اورشرمناک منصوبوں میں نہایت سرعت سے کام ہوتاہوادیکھاگیااوراب تمام سرپنچ فوجی کیمپوں میں جاکرشراب پینے کے عادی ہوچکے ہیں۔جبکہ نوجوان کی ایک تعدادبے شک محدودہی سہی ببی منشیات اورشراب کی لعنت میں گرفتارہوچکی ہے ۔ مگراب دہلی جو شراب کاطوفان یہاں لارہاہے تواس پردینی تقاضے کے عین مطابق اگر شدیدردعمل کااظہارنہ کیاگیااور اس طوفان بدتمیزکوروکانہ گیاتوپھریہ طوفان اسلامیان کشمیرکی تباہی کاسامان فراہم کرے گا ۔پھربھارتی ریاستوں اورانکے شہروں ہی کی طرح یہاں خدانخواستہ ہرگھرمیں بوتل پہنچے گی اورخڈانہ کرے ہرگھرمیں شرابی پائے جائیں گے۔
بھارتی منصوبوں کودیکھ کرارض کشمیرپرشراب اورمنشیات سے پاک معاشرے کے قیام کیلئے ایک بڑی جدوجہد کی ضرورت ہے اوراسکی ذمہ داری علماء ،خطباء ،ائمہ مساجد ،اساتذہ ،معلمین،اسلامی سکالرزاورداعیان دین پرعائد ہوتی ہے یادرہے کہ یہ انکی دینی ،ایمانی اور منصبی ذمہ داری ہے۔ مسلمانیت اور انسانیت بچائو کی ایک زوردارمہم بیک وقت منبرومحراب اورشوشل میڈیاسے شروع کی جائے اور اسلامیان کشمیربالخصوص طلباوطالبات اور نوجوان کے دونوں اصناف کو ام الخبائث اورمنشیات کی لعنت اوراس کے مہلک اثرات اوراسلام میں اسکی حرمت سے پوری طرح باخبرکیاجائے اورہردوسطح پرآوازبلندکرنے اوراہنمائی فراہم کرنے سے کشمیرکی نسل کواس لعنت سے بپایاجاسکتاہے ۔
کشمیر کی نام نہادبیوروکریسی کو ہمیشہ یہ خلش اضطراب میں ڈالتی رہی ہے کہدہلی کی طرف سے سونپے گئے امور میں سے ان سے کوئی کام کرنے سے رہ نہ جائے کہ جس کے باعث کہیں ان کا اندراج مکمل مطیع اورفرمانبرداروںکے کھاتے میں نہ کیا جائے اس لئے کہ یہاں کرسیاں اور مناصب مداخلت دین اور کشمیری مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کرنے اورانہیں صلواتیں سنانے سے ہی فراہم کی جاتی ہیں ۔کشمیرمیں ایسے لوگوں کے ہاںزیادہ سیکولر کا مطلب یہاں یہی لیا جاتا ہے کہ کشمیری مسلمانوںکی مرضی ومنشااورانکی دینی حمیت اورایمانی غیرت کے خلاف بنائے گئے منصوبے بام تکمیل کوپہنچائے جائیں ۔لیکن
اگرآج اس کاسدباب نہ کیاگیا توآئندہ آنے والی نسلیں بھی بربادہوجائیںگی۔تاریخی طورپردیکھاگیاہے کہ دنیاکے کئی خطوںمیں جان بوجھ کروہاں کی نوجواں نسل کوبربادکرنے کے لئے انکے دشمنوں نے شراب وشاب کا حربہ استعمال کیا تاکہ نوجوان نسل کومنشیات کی لت پڑے اوروہ اسی میں لگے رہیںانہیں اپنی اوراپنے قوم کی فکر دامن گیر نہ رہے اوروہ اس طرف دیکھنے یاسوچنے کے قابل نہ رہیں۔دورماضی میں وسط ایشائی مسلم ریاستوں میں سوویت یونین نے یہی حربہ آزاماکران سے ان کادین وایمان چھین لیاتھا۔لیکن شکررب کاکہ سوویت یونین بکھرجانے کے بعدوہ آزادہوئے اوراب وہ اپنی اصل یعنی اسلام کی طرف مراجعت کرچکے ہیں۔

Comments are closed.