Baseerat Online News Portal

یوپی میں قانونی دہشت گردی

حسام صدیقی
ہاتھرس کے بلگڑھی گاؤں میں دلت بالمیکی لڑکی کا ریپ کے بعد قتل ہوگیا، کانگریس لیڈر راہل گاندھی اور ان کی بہن پرینکا گاندھی نے یکم اکتوبر کو گاؤں جا کر ماری گئی لڑکی کے کنبہ سے ملنے کی کوشش کی تو پولیس یمنا ایکسپریس وے پر انہیں روک کر نہ صرف گرفتاری کرتی ہے بلکہ ایک پولیس والے کا ہاتھ راہل گاندھی کے گریبان تک پہونچ جاتا ہے۔ انہیں باقاعدہ دھکے مار کر گرا دیا جاتا ہے۔ دہلی مہیلا کانگریس کی صدر امرتا دھون کے کپڑے پھاڑ دیئے جاتے ہیں۔وہ دوپٹے میں اپنا جسم چھپاتی نظر آئیں، کانگریس کی ترجمان سابق صحافی سپریہ شرینیتر اور پرینکا گاندھی تک کے ساتھ دھکا مکی ہوتی ہے۔ تین اکتوبر کو راہل پرینکا سمیت پانچ لوگوں کو بلگڑھی جانے کی اجازت ملتی ہے۔ لیکن ایکسپریس وے پر ان کے سا تھ پہونچے کانگریس ورکرس پر لاٹھیاں چلائی جاتی ہیں۔ پرینکا ڈوائیڈر کود کر اپنے ساتھیوں کو بچانے پہونچتی ہیں تو یوگی کا مرد پولیس والا پرینکا کے کاندھے سے ان کا جمپر پکڑ کر کھینچتا ہے۔ مرد پولیس والے کا ہاتھ کسی خاتون خصوصاً پرینکا کے گریبان تک پہونچ جائے اور اس پولیس والے کے خلاف سخت کاروائی نہ ہو یہ یوگی راج میں ہی ممکن ہے۔ بلگڑھی کی ریپ کا شکار دلت لڑکی کی لاش اس کے والدین کو دکھائے بغیر رات کے ڈھائی بجے پولیس کے ذریعہ لکڑیوں پر پیٹرول اور گوبر کے اوپلوں کے ذریعہ جلا دیا جاتا ہے۔ ڈی ایم پروین کمار کہتے ہیں کہ لاش خراب ہونے کا خدشہ تھا اس لئے رات میں جلایا گیا۔ بعد میں ریاستی سرکار سپریم کورٹ میں داخل حلف نامے میں کہتی ہے کہ گاؤں میں نظم و نسق کو خطرہ تھا اس لئے لاش رات میں جلانی پڑی۔ سابق لوک سبھا ممبرراشٹریہ لوک دل کے لیڈر جینت چودھری،سماج وادی پارٹی کا وفد گاؤں جاتا ہے تو ان پر جم کر لاٹھی چارج ہوتا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے سنجئے سنگھ جاتے ہیں تو ہندوتووادی سینا چلانے والی دیپک شرما پولیس کی موجودگی میں ان پر سیاہی پھینکتا ہے۔ ٹی ایم سی کے ممبران جاتے ہیں تو ہاتھرس کا ایس ڈی ایم راجیہ سبھا ممبر ڈیرک اوبرائن کو زمین پر پٹخ دیتا ہے، ان کے ساتھ گئی خواتین ممبران پارلیمنٹ کے ساتھ بدسلوکی کی اور دھکا مکی کی گئی۔ دو دنوں تک میڈیا کو گاؤں میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ یہ ہے یوگی راج میں چل رہا قانون کا آتنک۔ پانچ اکتوبر کو اچانک خفیہ ایجنسیوں کو اطلاع مل گئی کہ اپوزیشن پارٹیوں، میڈیا اور لیفٹ طاقتوں نے اترپردیش میں ذات پات اور فرقہ وارانہ فسا د کرانے کی سازش رچی، پیپلز فرنٹ آف انڈیا کے ذریعہ اس کے لئے مسلم ممالک سے سو کروڑ کی فنڈنگ ہوئی۔ چھ اکتوبر کو خود وزیراعلیٰ یوگی نے اس مبینہ سازش پر بیان دیتے ہوئے سازش میں شامل لوگوں کو سخت سزا دینے کا اعلان کیا۔
یوگی سرکار کی ہڑ بڑی کا عالم یہ ہے کہ پہلے تو ریپ اور قتل کے پورے معاملے کی جانچ کے لئے اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم(ایس آئی ٹی) بنا کر کہا گیا کہ سات دنوں کے اندر ایس آئی ٹی اپنی جانچ رپورٹ سرکار کو پیش کرے۔ ایس آئی ٹی موقع پر جانچ کرنے پہونچتی ہے تبھی کسی مطالبے کے بغیر وزیراعلیٰ یوگی اپنی طرف سے سی بی آئی تحقیقات کا اعلان کردیتے ہیں۔ اس سے پہلے وزیراعلیٰ نے لڑکی کے کنبہ کو پچیس لاکھ کی مالی مدد، گھر کے ایک فرد کو سرکاری نوکری اور کنبہ کو ہاتھرس میں ایک مکان دینے کا بھی اعلان کرچکے تھے۔ پانچ اکتوبر سے سرکار نے بھونکنے والے اینکر کے چینل اور زی نیوزکہے جانے والے چینل سمیت کئی غلام چینلو ں پر خبریں چلوا دیں کہ لڑکی کا ریپ ہوا ہی نہیں، اسے تو اس کے اپنے بھائی سندیپ نے قتل کیا ہے کیونکہ وہ ملزم بنائے گئے سندیپ کے ساتھ تقریباً دو سالوں سے ناجائز رشتے میں تھی۔لڑکی کے بھائی کے نام سے خریدے گئے موبائل کی مبینہ کال ڈٹیل بھی ان چینلوں کو پہونچائی گئیں۔ جن کے مطابق اکتوبر ۲۰۱۹ سے مارچ ۲۰۲۰ کے درمیان لڑکی نے ملزم بنائے گئے سندیپ سے سیکڑوں بار باتیں کیں دونوں کے درمیان کل چار گھنٹے ستاون منٹ تک کالیں ہوئیں گاؤں کے ٹھاکروں نے پنچائتیں شروع کردیں اور کئی لوگ اچانک نکل کر میڈیا کو بتانے لگے کہ اس لڑکی اور ملزم بنائے گئے سندیپ کے درمیان پیار محبت کے رشتے تھے۔ اس لئے لڑکی کے بھائی نے بہن کو مار ڈالا۔
جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے سرکار اس معاملے میں طرح طرح کی تھیوری پیش کرتی رہی ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ کے حوالے سے خود وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اعلان کیا کہ اترپردیش میں ذات پات اور فرقہ وارانہ فساد کرانے کی بڑے پیمانے پر سازش رچی گئی اس کے لئے مسلم ممالک سے سو کروڑ کی فنڈنگ ہوئی۔ پچاس کروڑ روپئے مارشس کے ذریعہ پی ایف آئی کے پاس پہونچے بھی چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ یوگی نے کہ ا کہ ہم کسی بھی ایسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ سازش کرنے والے سبھی لوگوں کے چہرے بے نقاب کئے جائیں گے اور ان پر سخت سے سخت کاروائی ہوگی۔
اترپردیش کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ سرکار پر کوئی تنقیدنہیں کرسکتا۔ تنقید کرنے والے پوسٹر یا پمفلٹ نہ تو چسپاں کئے جاسکتے ہیں نہ تقسیم کئے جاسکتے ہیں۔ کوئی دھرنا اور مظاہرہ نہیں ہوسکتا۔ شاہین باغ کے مظاہرے پر فیصلہ سناتے ہوئے سات اکتوبر کو سپریم کورٹ نے پھر کہا کہ شہریت ترمیمی قانون(سی اےاے) یا سرکار کے دوسرے فیصلوں کے خلاف دھرنا دینا، احتجاجی مظاہرہ کرنا شہریوں کا بنیادی حق ہے اسے روکا نہیں جاسکتا لیکن اترپردیش میں سی اے اے کے خلاف دھرنا مظاہرہ آج بھی غداری کے زمرے میں آتا ہے۔
ہاتھرس معاملے میںاب ملزمان کی برادری کے یعنی ٹھاکر برادری کے لوگوں نے بڑے پیمانے پر پنچائتیں کرنی شروع کردیں۔ بظاہر ان پنچائتوں کو سرکار کی بھی حمائت نظر آرہی ہے۔ پی ایف آئی اور دنگا بھڑکانے کے لئے غیر ملکی فنڈنگ کی گھٹی لوگوں کو اس حد تک پلا دی گئی ہے کہ بچہ بچہ ان باتوں کا ذکر کررہا ہے۔ مطلب صاف ہے کہ سازش بتانے والے اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب ہیں۔ میڈیا سے عوام تک ہر جگہ سازش اور غیر ملکی فنڈنگ کی باتیں ہورہی ہیں۔ لڑکی کے گینگ ریپ اور قتل کا معاملہ پوری طرح دب چکا ہے۔ اب یہ سوال بھی نہیں پوچھا جارہا ہے کہ اگر کوئی لڑکی خودنزاعی بیان دیتی ہے کہ اس کا گینگ ریپ ہوا، فلاں فلاں نے اس کی آبرو لوٹی۔ اس کے باوجودایڈیشنل ڈی جی لاء اینڈ آرڈر اور پوری سرکار یہ ثابت کرنے پر تلی ہے کہ لڑکی کے ساتھ ریپ ہوا ہی نہیں۔
میڈیا کے سامنے گاؤں اور نزدیکی گاؤں کے لوگ بڑھ چڑھ کر مقتول گئی لڑکی کےکنبہ کے ساتھ ہمدردی کی باتیں کرتے نہیں تھکتے دوسری طرف سات اکتوبر کو لڑکی کے کنبہ نے آج تک سے کہا کہ انہیں دھمکیاں مل رہی ہیں۔ لڑکی کے و الد نے کہا کہ ہمارے لئے گاؤں میں رہنا مشکل ہے ہمیں کبھی بھی مارا جاسکتا ہے۔ لڑکی کے بھائی نے کہا کہ گاؤں کا ایک بھی شخص ان لوگوںسے ملنے اور زبانی ہمدردی ظاہر کرنے تک نہیں آیا۔ عدالت کے آرڈر کے بعد کنبہ کی حفاظت کے لئے سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے ہیں۔میٹل ڈٹیکٹر بھی لگایا گیا ہے۔

Comments are closed.