Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل

 

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد ۔ جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

بچوں کے باتصویر کھلونوں کا حکم
سوال : – بچوں کے کھلونوں میں گڑیا ، بطخ ، مور وغیرہ جو پلاسٹک کے بنے ہوتے ہیں ، ان کا خریدنا اور بچوں کو کھیلنے کے لئے دینا کیا جائز ہے ؟ (عدنان احمد،سنتوش نگر )
جواب : – اسلام میں تصویر کی حرمت بہت ہی شدید ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار تاکید کے ساتھ صورت گری اور تصویر سازی سے منع فرمایا ہے ، پلاسٹک کی جو تصویریں بنی ہوتی ہیں ، ان کے تصویر ہونے میں کوئی شبہ نہیں ، بلکہ وہ سایہ دار تصویریں ہیں ، جن کی حرمت پر اہل علم کا اتفاق ہے اور جو چیز کسی کے لئے جائز نہ ہو ، بچوں کے لئے بھی اس کا مہیا کرنا درست نہیں، گڑیا وغیرہ کے بارے میں فقہاء نے صراحت کی ہے کہ بچوں کو بہلانے کے لئے ٹھیکرے کا بنا ہوا بیل یا گھوڑا خریدنا جائز نہیں اور اگر کوئی اسے تلف کردے تو تلف کرنے والے پر اس کا کوئی تاوان واجب نہیں : اشتری ثورا أو فرسا من خزف لأجل إستیناس الصبي لا یصح و لا قیمۃ لہ ، ولا یضمن متلفہ (درمختار: ۲؍۵۰) غرض اس طرح کی گڑیا خرید کر بچوں کو دینا جائز نہیں ۔

دستر خوان پر کھانا بعد میں لایا جائے
سوال :- بعض بزرگوں سے سنا ہے کہ دسترخوان پر پہلے لوگ بیٹھیں پھر کھانا لایا جائے ، اسی طرح کھانا اٹھا دیا جائے تب کھانے والے اٹھیں ، کیا یہ حکم کسی حدیث سے ثابت ہے ؟ (عبد البصیر، حمایت نگر)
جواب: – کھانا اللہ تعالیٰ کی نہایت ہی عظیم الشان نعمت ہے ، اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت قابل قدر اور لائق احترام ہے اور جو نعمت جس درجہ اہم ہواسی لحاظ سے اس کا زیادہ احترام بھی ہونا چاہئے؛ چنانچہ کھانے کے بعد خاص طور پر دعا سکھائی گئی ہے اور کھانے کی چیزوں سے استنجاء کرنے سے منع کیا گیا ہے ، ادب و احترام کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ قابل احترام شئ کا انتظار کیا جائے اور اس کو رخصت کرنے کے بعد خود ہٹا جائے ، اسی پس منظر میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ کھانا آنے سے پہلے لوگ دسترخوان پر بیٹھیں اور کھانا اٹھنے کے بعد دسترخوان سے اٹھیں ، گویا یہ آداب میں سے ہے ، تاہم میرے علم کے مطابق کسی حدیث میں یہ حکم نہیں آیا ہے اور نہ فقہاء نے لکھا ہے ۔

فیشن کے طور پر ناخن بڑھانا
سوال :- آج کل ایک فیشن ناخن بڑھانے کا شروع ہوا ہے ،عورتیں ناخن بڑے کرتی ہیں ، کیا ایسا کرنا درست ہے ؟ ( فارحہ بیگم ، ہائی ٹیک سیٹی)
جواب :- اسلام میں نظافت اور صفائی ستھرائی کو بڑی اہمیت حاصل ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظافت کو آدھا ایمان قراردیا ہے اور طہارت و نظافت کے لئے ایک پورا نظام امت کے حوالہ کیا ہے ، ناخن کا تعلق بھی صفائی ستھرائی سے ہے ؛ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ناخن کا کٹانا امور فطرت میں سے ہے ‘‘ (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۴۱۹۸) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے : ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے چالیس دن کا وقت مقرر کیا تھا کہ کم سے کم چالیس دنوں میں ایک بار ضرور ہی نا خن کتروا دیا جائے اور بدن کے دوسرے حصوں کو صاف ستھرا کرنے کی تد بیر کی جائے ‘‘ (مسلم، حدیث نمبر: ۴۲۰۰)
یہ زیادہ سے زیادہ حد ہے، ورنہ فقہاء نے لکھا ہے کہ ہفتہ میں ایک دن ناخن کٹانا مستحب ہے ؛ کیونکہ ناخن کے بڑے ہونے سے اس کی تہوں میں میل جم جاتے ہیں اور نقصاندہ جراثیم کو اپنے لئے ایک ٹھکانہ ہاتھ آجاتا ہے ؛ اس لئے یہ نہ صرف اسلامی نقطہ نظر ہے ؛ بلکہ طبی اعتبار سے بھی بڑے ناخن رکھنا صحت کے لئے مضرت ر ساں ہے ؛ اس لئے خواتین کو چاہئے کہ وہ ایسے فیشن سے بچیں جس میں دین کا بھی نقصان اور دنیا کا بھی ۔

زبردستی چندہ وصول کرنا
سوال:- میں ایک عصری مدرسہ میں کام کرتا ہوں ، جبکہ وہ بھی عربی مدارس طرز پر چلتے ہیں ، بعض دفعہ اخراجات ضروریہ کے لئے مدرسہ اور اساتذہ کے کاموں کے لئے اساتذہ سے لے کر خرچ پورا کیا جاتا ہے ، واضح رہے کہ ادارہ کے ذمہ داران اپنا کوئی ذاتی مفاد نہیں رکھتے ؛ حتی کہ چائے وغیرہ تک نہیں پیتے ، اور نہ اساتذہ سے کوئی رقم ذاتی مفاد کے لئے لیتے ، فقط مدرسہ اورضروری کاموں کے لئے اساتذہ سے ہی چندہ یا ہدیہ کی شکل میں لیتے ، کیا یہ صورت جائز ہے ؟ (ماسٹر محمد یوسف، کریم نگر)
جواب:- تعلیم خواہ دینی ہو یا عصری، ایک اچھا کام ہے ؛ اس لئے اس میں تعاون کرنا بہر حال باعث اجر و ثواب ہے ؛ البتہ یہ ضروری ہے کہ تعاون لوگوں کی رضامندی سے حاصل کیا جائے ، اس میں جبر اور دباؤ نہ ہو ، نہ قانونی جبر ہو اور نہ اخلاقی ؛ کیوںکہ اساتذہ کی اجرت ادا کرنا شرعا واجب ہے ، چندہ دینا ان پر واجب نہیں ، دباؤ ڈال کر چندہ حاصل کرنا باطل طریقے پر مال حاصل کرنے میں شامل ہے ۔

ریلوے سے ضائع شدہ سامان کا تاوان لینا
سوال:- ریلوے کی طرف سے اسٹیشنوں پرامانت گھر کی سہولت موجودہے ،اسی طرح ٹرین کے ذریعہ ایک جگہ سے دوسری جگہ مال بھیجا بھی جاسکتا ہے ،ان صورتوں میں گورنمنٹ ذمہ دار ہوتی ہے کہ اگرمال ضائع ہوگیااور محفوظ نہیں رہ سکا، تووہ اس کا ہرجانہ دے گی ، کیا اس ہرجانہ کا لینا درست ہوگا؟ جبکہ سنا ہے کہ امانت ضائع ہوجانے پرامانت دار سے اس کا تاوان وصول نہیں کیا جاسکتا ، امیدکہ اس سلسلہ میں وصناحت کریںگے ۔ (محمد خبیب،نامپلی )
جواب :- اگرکوئی چیزکسی کے پاس امانت رکھی جائے ،جس کو فقہ کی اصطلاح میں ’’ودیعت ‘‘ کہتے ہیں اور امانت رکھنے والایہ کام رضا کارانہ طور پر کرتا ہو ،اس کی اجرت کا طلبگار نہیں ہو ، اور اس کی کوتاہی کے بغیر امانت رکھی ہوئی چیز ضائع ہوگئی ہو ، تو اس پر اس کی ذمہ داری نہیں ، لیکن اگر کوئی شخص امانتوں کی حفاظت کی اجرت لیتا ہو اور اس کے ہاتھوں وہ ضائع ہوگئی تو وہ اس کا ذمہ دار ہوگا اور اس کو اس شئ کی قیمت ادا کرنی پڑے گی ، چاہے اس کے ضائع ہونے میں اس کی کوتاہی کا دخل ہو یا نہ ہو : فلا تضمن بالہلاک إلا إذا کانت الودیعۃ بأجر سواء أمکن التحرز عنہ أم لا ، ہلک معہا شيء أم لا (درمختار مع الرد: ۱۲؍۴۴۶)اس لئے کہ جو شخص امانت کی حفاظت کے لئے اجرت لے ،وہ اصل میں امین نہیں ہے ، اجیر ہے ، جسے حفاظت ہی کے کام پر اجیر رکھا گیا ہے ، علامہ شامیؒ نے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔ (ردالمحتار: ۱۲؍۴۴۶) پس گورنمنٹ سے ضائع شدہ چیز کا ہرجانہ لینا درست ہے۔

شوہر کا خون، بیوی کے جسم میں
سوال:- اگر بیوی کو خون کی ضرورت پڑے اور شوہر اسے اپنا خون دے دے تو کیا یہ جائز ہو گا اور کیا اس سے میاں بیوی کے درمیان حرمت پیدا نہیں ہو جائے گی ، جب کہ شریعت نے دودھ کی وجہ سے حرمت کا حکم لگا یا ہے ؟ ( محمد مبین، سعید آباد)
جواب :- اگر کسی کو خون کی ضرورت ہوتو اسے خون دیا جا سکتا ہے ، اس میں رشتہ دار ، اجنبی اور شوہر وغیرہ کے حکم میں کوئی فرق نہیں ، شوہر بھی اپنی بیوی کو خون دے سکتا ہے ، اس سے میاں بیوی کے درمیان حرمت پیدا نہیں ہو گی ، حرمت صرف ان ہی صورتوں میں ہو گی، جن کو شریعت نے رشتہ کی حرمت کا سبب ٹھہرا یا ہے ، ظاہر ہے کہ خون ان میں سے نہیں ہے ۔

نہار پیٹ پانی پینا
سوال :- نہار پیٹ پانی پینا سنت ہے یا نہیں ؟ اکثر لوگ صبح منھ ہاتھ دھوتے ہی فوراً پانی پیتے ہیں ، سنت کیا ہے ؟ جواب دیں تو میں اپنا عمل درست کرلون گی اور دوسروں کو بھی انشاء اﷲ اس کی تلقین کروں گی ۔ ( ام حبیبہ، ملے پلی)
جواب:- حدیث میں میرے علم کے مطابق نہار پیٹ پانی پینے کا ذکر نہیں آیا ہے؛ البتہ سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ کی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم وضو سے فارغ ہونے کے بعد کھڑے ہوکر وضو کا بچا ہوا پانی نوش فرماتے تھے ،(بخاری، حدیث نمبر: ۵۶۱۶) اسی لئے فقہاء نے بھی وضو کے بعد بچے ہوئے پانی کے پی جانے کو مستحب لکھا ہے : وأن یشرب بعدہ من فضل وضوئہ (الدر المختار: ۱؍۲۸۸) چوںکہ دن کا آغاز نماز فجر سے ہوتا ہے اور اس وقت عام طورپر وضو کی حاجت بھی ہوتی ہے اورجب وضو کیا جاتا ہے تو کچھ پانی برتن میں بچ بھی جاتا ہے ، اس سے صبح سویر پانی پینے کی بات فی الجملہ ثابت ہوتی ہے ؛ لیکن ظاہر ہے کہ اس کا مقصد وضو کے پانی سے تبرّک ہے ، نہ کہ خالی پیٹ میں پانی پینا —- اس سلسلہ میں بنیادی اہمیت طبی مشورہ کی ہے ، اگر معالج نے صبح سویر پانی پینے کو کہا ہو ، جیساکہ قبض کے مریضوں کو بعض اطباء مشورہ دیتے ہیں تو ایسے لوگوں کو اس کا اہتمام کرنا چاہئے ؛ کیوںکہ حفظانِ صحت کی تدبیر بھی بعض حالات میں واجب اور کم سے کم مستحب ہے ؛ البتہ اس کو سنت کہنا درست نہیں معلوم ہوتا ؛ کیوںکہ کسی بات کے مسنون ہونے کے لئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے واضح ثبوت ہونا چاہئے ۔

اگر والد کی زمین میں مکان بنائے
سوال:- اگر بیٹا اپنے والد کی زندگی میں والد کی خریدی ہوئی زمین پر والد کے کہنے سے اپنے پیسے سے مکان بنالے تو کیا والد کے انتقال کے بعد ترکہ کی تقسیم کے وقت دوسری جائدادوں کے ساتھ اس زمین کو چھوڑ دیں یا اس کو لیں ، یا مکان اور زمین دونوں کی مالیت حساب میں شامل کر لی جائے ، واضح رہے کہ والد نے زمین بیٹے کے نام ہبہ کیا یا نہیں ؟ واضح نہیں ہے ۔ ( محمد آصف الدین، وجے نگر کالونی)
جواب:- اصل میں اس کا حکم شرعی اس بات پر موقوف ہے کہ والد نے مکان بنانے کی اجازت بطور ہبہ کے دی تھی یا بطور عاریت کے ، اس کا اندازہ ان کلمات سے ہوگا جو والد نے اجازت دیتے ہوئے کہے ہوں ، اگراس کی وضاحت ممکن نہ ہو اور دوسرے ورثہ اس کو ہبہ ماننے کو تیار ہوں اور خود مکان بنانے والا اس کا مدعی ہو تب تو وہ مکان خاص اس کی ملکیت سمجھی جائے گی ، اوراگر ایسا نہ ہو تو زمین متروکہ سمجھی جائے گی ، اور مکان مکان بنانے والے لڑکے کی ملکیت ہوگی ، اورمیراث کی تقسیم میں اس کو ملحوظ رکھا جائے گا ۔(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.