Baseerat Online News Portal

تیز بارش کے دوران راہل گاندھی کا بھاشن’’بھارت جوڑو ‘‘

محمد ہاشم القاسمی (خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال)
فون نمبر =9933598528
بھارت جوڑو یاترا آئین کی حفاظت کی یاترا ہے، آئین کے بغیر ہمارے ترنگے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ اس یاترا میں آپ کو نفرت، تشدد نظر نہیں آئے گا، ہر مذہب، ہر ذات، ہر علاقے، ہر زبان کے لوگ اس یاترا میں ساتھ چل رہے ہیں۔
بھارت جوڑو یاترا کا مقصد بی جے پی اور سنگھ پریوار کے نظریہ کے خلاف کھڑا ہونا ہے جو نفرت اور تشدد پھیلا رہی ہے۔
جب بھیڑ میں لگتا ہے، جب کوئی گرتا ہے، ہر کوئی اسے اٹھاتا ہے، اس کی مدد کرتا ہے۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ تمہارا مذہب کیا ہے، تمہاری ذات کیا ہے، تمہاری زبان کیا ہے، یہ ہمارا پیارا ہندوستان ہے۔ امن کا ہندوستان، بھائی چارے کا ہندوستان ہے۔ یہ یاترا کنیا کماری سے کشمیر تک چلے گا اور اسے کوئی نہیں روک سکتا، کوئی طاقت اس پد یاترا کو نہیں روک سکتی۔ کیونکہ یہ پد یاترا ہندوستان کی آواز ہے۔ اس پد یاترا میں لوگ ہم سے ملتے ہیں اور اپنا درد بیان کرتے ہیں۔پد یاترا میں لوگ ہمیں بے روزگاری، مہنگائی، کسانوں کے خلاف مظالم، عوامی کمپنیوں کی نجکاری کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ہماری پد یاترا کے بعد لمبی تقریریں نہیں کی جاتی ہیں۔ ہماری پد یاترا کا مقصد آپ کو سننا ہے، آپ کو بتانا نہیں، جمہوریت میں مختلف ادارے ہوتے ہیں، میڈیا ہے، پارلیمنٹ ہے، یہ تمام راستے اپوزیشن کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔ ہم سے میڈیا میں بات نہیں کی جاتی، پارلیمنٹ میں بولنا ہو تو وہاں ہمارا مائیک بند کر دیا جاتا ہے۔ ایوان کو چلنے نہیں دیا جاتا، احتجاج کرنے پر اپوزیشن کو حراست میں لے لیا جاتا ہے۔ تو ایسے وقت میں ہمارے پاس ہزاروں کلومیٹر پیدل چل کر عوام کے درمیان جانے کا ہی راستہ باقی ہے۔ ہمیں اس راستے پر چلنے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔مندرجہ بالا باتیں کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کے دوران مختلف مواقع پر کہیں۔
کانگریس لیڈر راہل گاندھی میسور میں بارش میں بھیگتے ہوئے ایک پرہجوم ریلی سے خطاب کیا، اس موقع پر اُن کی تقریر سننے کیلئے تیز بارش کے دوران بھی لوگ میدان میں ڈٹے رہے اور درمیان میں نعرے بھی لگاتے رہے، اس کی وجہ سے کانگریس میں زبردست جوش و خروش دیکھا جارہا ہے، اُس موقع پر اپنی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کو بابائے قوم مہاتما گاندھی کے نام وقف کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ "مہاتما گاندھی نے لوگوں کو ہمیشہ آگے بڑھنے، بے خوف رہنے اور خود مختار رہنے کا درس دیا ہے، اسلئے ان کے ماننے والوں کو یہ بات ہمیشہ گرہ میں باندھ کر رکھنی چاہئے۔ ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلنے والوں کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی”۔
اس پر کیف نظارہ پر کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے ٹویٹ کیا کہ ’’شروعات میں، میں نے راہل گاندھی کو کور کرنے کی کوشش کی، لیکن پھر دیکھا کہ وہ بارش کے رکنے کا انتظار نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ ہزاروں لوگ انہیں سننے کیلئے بارش میں بھیگ رہے تھے تو میں بھی انہیں سننے لگا۔ انہوں نے اپنا خطاب جاری رکھا اور پوری طرح بھیگ گئے۔ ایک سچا ہندوستانی لیڈر۔‘‘
راہل گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کے دوران کرناٹک کے میسور میںگرج چمک اور شدید بارش میں بھیگتے ہوئے اپنا خطاب جاری رکھا۔
سوشل میڈیا میں راہل گاندھی کا یہ ویڈیو کافی وائرل ہو رہا ہے اور خوب چرچے ہو رہے ہیں، نوجوانوں میں کافی جوش و خروش دیکھا جا رہا ہے، راہل گاندھی کو ایک ہمدرد اور سچا لیڈر کی حیثیت سے شناخت مل رہی ہے اور اس کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں. یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ آئندہ 2024 کے لوک سبھا الیکشن میں اس کے کتنے اثرات پڑنے والے ہیں، تاہم تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ راہل گاندھی کے بھارت جوڑو یاترا سے نقصان تو نہیں ہوگا البتہ کتنا فائدہ مند ثابت ہوگا یہ کہنا فی الحال مشکل ہے لیکن کانگریس کو اس کا فائدہ ضرور ہوگا اور راہل گاندھی کے ذاتی امیج کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
راہل گاندھی نے ریاست کرناٹک کے اپنے دورے کے تیسرے دن 3/اکتوبر پیر کو چامنڈی پہاڑیوں پر واقع چامنڈیشوری مندر اور ایک چرچ بھی گئے، ستور مٹھ میں، شری شیو راتری دیش کیندر سوامی جی سے ملاقات کی جو ایک ممتاز لِنگایت پیروکار ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے شہر میں مسجد اعظم کا بھی دورہ کیا اور ذمہ داران سے ملاقات کی، اس موقع پر کچھ سرکردہ لوگوں نےراہل گاندھی سے ملاقات کی۔
آئندہ21؍ دنوں میں یہ یاترا کرناٹک میں 511؍ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرے گی۔ اس طرح 5؍ ماہ میں 3570؍ کلومیٹر کی یہ یاترا تمل ناڈو کے کنیا کماری سے جموں کشمیر کے سری نگر تک کی ہے۔
تمل ناڈو اور کیرالا کے بعد راہل گاندھی کی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ کرناٹک میں بھی مقبول ہورہی ہے۔ سوشل میڈیا پرموجود ویڈیوز میں یاترا کو دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔ پارٹی کارکنان یا سماجی و صحافتی اداروں کی جانب سے اس کے چند ایسے مناظر خاص طور پر پوسٹ کئے جاتے ہیں جن میں راہل گاندھی کسی بچی کی جوتیوں کا فیتہ درست کررہے ہیں تو اُن سے ملنے کے بعد ایک لڑکی خوشی سے رو پڑی ہے۔ یہ متاثر کن ویڈیوز یاترا کے دوران رونما ہونے چھوٹے چھوٹے خوشگوار واقعات سے متعلق ہیں. مگر ان واقعات سے زیادہ اہمیت اُس واقعہ کی ہے جس پر سوشل میڈیا میں شاید خاموشی رہی۔
راہل گاندھی نے میسور و ہائی وے سے متصل ایک گاؤں (بدناوالو) میں کچھ ایسا کیا جو برسوں یاد رکھا جائے گا۔ اُنہوں نے اس گاؤں کی 180؍ میٹر کی ایک رہگزر کی تعمیر کیلئے اپنے ہاتھوں سے اینٹیں رکھیں. اور اس موقع پر مقامی آبادی کے دو ایسے طبقات کو اپنے ساتھ کھانے پر مدعو کیا جو 25؍ مارچ 1993ء کے ایک ناخوشگوار واقعہ کے بعد سے ایک دوسرے سے نالاں تھے اور اُن میں رابطہ نہیں تھا۔ یہ ناخوشگوار واقعہ تب رونما ہوا تھا جب لنگایت برادری کے افراد نے مقامی سدھیشور مندر میں دلتوں کے داخلے پر اعتراض کیا تھا۔ معاملہ بڑھا، پُرتشدد ہوا اور تین دلت موت کے گھاٹ اُتار دیئے گئے جس کے جواب میں دلتوں نے لنگایتوں کے چند مکانات پھونک دیئے۔ اس کے بعد سے دونوں برادریوں میں بھلے ہی کوئی اور ناخوشگوار بات نہیں ہوئی مگر وہ آپس میں ملے بھی نہیں۔ راہل نے دونوں برادریوں کے لوگوں کو دوپہر کے کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دے کر گویا گلے شکوے بھول جانے اور مل جل کر رہنے کی دعوت دی جس کا گاؤں کے لوگوں نے دلی خیرمقدم کیا۔
ہندوستان کی جنگ آزادی کی کوکھ سے جنم لینے والی انڈین نیشنل کانگریس لامحدود جدوجہد اور قربانیوں کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ ملک کے کروڑوں باشندگان نے کانگریس کی قیادت میں جس انقلاب کا آغاز کیا تھا، وہ برطانوی حکومت سے آزادی حاصل کر کے اپنی حکومت اور اپنے آئین کے لئے تو تھا ہی، اس کا ایک اہم مقصد ہر طرف پھیلی عدم مساوات، امتیازی سلوک، تعصب، قدامت پسندی، چھوا چھوت اور تنگ نظری کو ختم کرنا بھی تھا ، کروڑوں کانگریسیوں نے آزادی کی جدوجہد میں جیل کے غیر انسانی تشدد کو برداشت کیا اور مادر ہند کی آزادی کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔
ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم، پنڈت جواہر لال نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل، مولانا ابوالکلام آزاد اور ان کے معاونین نے نہ صرف ملک کو متحد کیا بلکہ منصوبہ کمیشن اور پنج سالہ منصوبے کے توسط سے اناج، ڈیم اور آبپاشی، پاور پلانٹ، جوہری توانائی، سڑک، ریل، مواصلات، سیکورٹی، تعلیمی اداروں، تحقیقی اداروں، فیکٹریوں اور بنیادی ڈھانچہ اور ترقی کی بنیاد کھڑی کی، اور بعد آنے والی کانگرس کی حکومت میں اسے پروان چڑھایا۔
لیکن آر ایس ایس اور بی جے پی کی سازشی قوتوں کو یہ پسند نہیں آیا کہ یہاں کے عوام کو سماجی حقوق حاصل ہوں اور یہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رہے اس لئے طرح طرح کے حربہ استعمال کر کے لوگوں کے حقوق چھیننے کی کوشش کی گئی۔ نوٹ بندی کے نام پر ملک کے روزگار اور کاروبار پر حملہ کیاگیا، جی ایس ٹی کے نام پر چھوٹے چھوٹے اور درمیانے کاروباروں کو تالابندی کے دہانے پر لا کھڑا کیا گیا۔ پھر کورونا کے نام پر لاک ڈاؤن لگا کر بھی لوگوں کو تِل تِل کا محتاج بنا کر مرنے پر مجبور کیا گیا۔ تکبّر کا یہ عالم تھا کہ گنگا نعشوں سے اٹی پڑی تھی لیکن متکبر حکمران کو وہ نعشیں نظر نہیں آئیں۔
گزشتہ 8 سال میں ملک میں بے روزگاری کا دور دورہ ہے، مہنگائی کی آگ نے ہر کسی کو جھلسا دیا ہے۔ عوام کے لئے گیس سلنڈر خریدنا بھی ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ جبکہ پٹرول، ڈیزل، آٹا، تیل، دالیں، سبزیاں، روزانہ استعمال کی چیزوں کے دام آسمان پر ہیں۔ روپیہ کی قیمت لگاتار گر رہی ہے، لوگوں کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے اور حکومت ہر سرکاری ادارے کو فروخت کرنے پر آمادہ ہے۔ اپنی انہی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے موجودہ بی جے پی حکومت ملک میں فرقہ وارانہ دشمنی کا ماحول تیار کر رہی ہے۔ اقلیتوں، دلتوں اور غریبوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بی جے پی مذہب اور ذات کے نام پر نفرت کے بیج بوکر طاقت کی بھوک مٹا رہی ہے۔ اس سے ملک کے مستقبل پر شدید خطرہ لاحق ہے۔
آج سے ٹھیک 80 سال پہلے 1942 میں مہاتما گاندھی نے ‘بھارت چھوڑو کا نعرہ دیا تھا۔ اور آج سال 2022 میں کانگریس کا کہنا ہے کہ ملک کا نعرہ ہے ’’بھارت جوڑو‘‘ ۔

Comments are closed.