Baseerat Online News Portal

’’مالابد منہ اردو‘‘ــــــــــــــــــــ ترجمہ نگاری کا شاہ کار

محمد وقار احمدکھگڑیاوی
متعلم دار العلوم دیوبند

متحدہ ہندوستان کے مدارس میں مالابدمنہ کو امتیازی خصوصیت حاصل ہے، یہ فقہ حنفی کے اہم مسائل پر مشتمل ہے، حسن ترتیب اور ضروری احکام کے احاطہ کی وجہ سے اسے بڑا قبول حاصل ہوا، خوب پسند کی گئی۔
اس کے مرتب مرزا مظہر جان جاناں رحمتہ اللہ علیہ کے مرید باصفا حضرت مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی ہیں فارسی زبان میں یہ کتاب اس وقت تصنیف کی گئی تھی جب ہندوستان میں فارسی زبان رائج تھی تمام سرکاری و غیر سرکاری دفاتر میں فارسی زبان کا بول بالا تھا، عام بول چال کی زبان بھی فارسی تھی۔
لیکن موجودہ دور میں فارسی برائے نام باقی ہے، فارسی کی پہلی، دوسری، گلزار دبستاں، پند نامہ، کریما کے بعد گلستاں اور بوستاں کو کافی سمجھا جاتا ہے۔ فارسی کی اکثر کتابیں بس کتب خانوں کی زینت ہیں، چند ہی لوگ اس کا لطف اٹھاتے ہیں۔ انھیں کتابوں میں ایک ’’مالابدمنہ‘‘ ہے جو دار العلوم دیوبند کے تجوید و قرأت اردو کے طلبہ کو دوسرے سال میں پڑھائی جاتی تھی؛ لیکن مشکل مسائل کے فارسی زبان میں ہونے کی وجہ سے ’’کریلا بر نیم چڑھا‘‘ کا مصداق تھی بار بار اساتذہ اور ممتحنین کے توجہ دلانے کے بعد دار العلوم دیوبند کی مجلس شوری نے اس کے اردو ترجمہ کی تجویز پاس کی اور اس کا م کی ذمہ داری فخر المحدثین حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری علیہ الرحمہ شیخ الحدیث و صدر المدرسین دار العلوم دیوبند کے سپرد فرمائی؛ لیکن حضرت مفتی صاحب کے عدیم الفرصت ہونے کی وجہ سے یہ کام ٹلتا رہا، بالآخر ناظم مجلس تعلیمی حضرت مولانا مجیب اللہ گونڈوی نے مفتی اشیاق احمد دامت برکاتہم کو حضرت کی نگرانی میں اس کے اردو ترجمہ کرنے کا حکم دیا؛ چنانچہ موصوف نے نہایت ہی عرق ریزی سے اس کا اردو ترجمہ کر کے شیخ الحدیث ؒ کی خدمت میں پیش کیا، پھر بڑی دیدہ ریزی سے اصلاح و تربیت کی ذمہ داری کو موصوف نے نبھایا، اس طرح اس کے استفادے کو آسان سے آسان تر بنادیا یہ کتاب اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت سی خصوصیت کی حامل ہے۔
(۱)اصل کتاب کے مواد کو نہایت ہی احتیاط سے ادا کیا گیا ہے۔
(۲) تعبیرات میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ قاری کو کہیںبھی الجھن محسوس نہ ہو۔
(۳) خطبہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے حمد و صلوٰۃ میں ہی اہل السنۃ و الجماعۃ کے اکثر عقائد کو سمودیا گیا ہے؛ اس لیے مترجم نے اس کے ہر ہر جملے کو مستقل عقیدہ ہونے کی وجہ سے الگ الگ کر د یا ہے اور ہر عقیدے پر عقیدہ کا الگ الگ عنوان لگا کر مضمون کو کھولا ہے اور طالب علم کے لیے مفید بنانے کی کوشش کی ہے۔
(۴) وصیت نامے میں گھر کے ذاتی احوال تھے اس لیے اس کو ترجمہ میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔
(۵) کفریہ کلمات کو اخیر میں رکھا گیا ہے، اس میں یہ بھی ہے کہ اگر کسی آدمی میں کفر کی ننانوے وجہیں ہوں اور ایک جہت کفر کی نہ ہو تو کفر کا فتوی نہیں دیا جائے گا؛ لیکن ہر مسلمان کو کفر کے اسباب سے بچے رہنا ضروری ہے۔
(۶) احادیث کی تحقیق کرکے پورا اطمینان کر لیا گیا ہے۔تحقیق کی تفصیلات کو اس لیے نہیں لکھا گیا ہے کہ اس سے نصاب کی کتاب بوجھل ہوجاتی ہے۔
(۷) بعض مسائل میں حواشی کی ضرورت تھی اس کے لیے حواشی بھی لگا ئے ہیں۔
(۸) حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ کے احوال شروع میںلکھے گئے ہیں تاکہ طلبہ مصنف سے بے خبر نہ ہوں، موصوف فقیہ ہونے کے ساتھ مفسر بھی تھے، ان کی تفسیر مظہری سے صاحب علم واقف ہیں انھیں بیہقیٔ وقت کہا جاتا تھا۔سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے: محمد ثناء اللہ بن مولانا محمد حبیب اللہ بن مولانا ہدایت اللہ بن مولانا عبد الہادی بن سعید الدین بن شیخ عبد القدوس بن شیخ خلیل بن مفتی عبد السمیع بن شیخ حسین بن خواجہ محفوظ بن خواجہ احمد بن خواجہ مخدوم خواجہ شیخ جلال الدین کبیر الاولیاء پانی پتی علیہم الرحمہ آپ کا سلسلہ نسب عثمان غنی رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔ولادت پانی پت میں 1143ھ کو ہوئی۔(تذکرہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی، ص:۶۳)
آپ کا خاندان علم و فضل میں مشہور تھا، ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے گھر پر حاصل کی ،آپ نے سات سال کی عمر میں قرآن کریم کا حفظ مکمل کرلیا ،اس کے بعد آپ نے قرأت سبعہ و عشرہ کی تحصیل فرمائی ؛ اس فن میں مہارت و کمال کا اندازہ تفسیر مظہری کے مطالعہ سے کیا جا سکتا ہے، اس میں قرأت کے وجوہِ سبعہ کو خوب واضح کیا گیا ہے۔
قاضی صاحب نے ابتدائی کتابیں اپنے والد محترم قاضی محمد حبیب اللہ اور بڑے بھائی قاضی محمد فضل اللہ سے پڑھی اور مزید حصول علم کے لیے حضرت مرزا مظہر جاناں علیہ الرحمہ اور مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دیگر ان نابغۂ روزگار شخصیات سے بھی علوم شرعیہ یعنی تفسیر و حدیث اور طریقت میں کمال حاصل کیا۔ابتداء ً شیخ قاضی عابد سنامی علیہ الرحمہ سے بیعت ہوئے پھر ان کے وصال کے بعد شیخ مرزا مظہر جاناں علیہ الرحمہ کی خدمت میں رہ کر تکمیل فرمائی، موصوف نے آپ کو تمام اسانید و سلاسل کی اجازت عطا فرمائی۔ آپ پانی پت میں ’’قاضی الاسلام‘‘ کے منصب پر فائز تھے۔ آپ کا وصال یکم رجب المرجب 1225ھ مطابق 2؍اگست 1800ء کو ہوااور پانی پت میں تدفین عمل میں آئی۔
یہاں مترجم اور نگراں محترم سے بھی قارئین واقف ہو جائیں، اس لیے عرض ہے کہ مترجم محترم دار العلوم دیوبند میں (وسطی ب) کے مدرس ہیں:پیدائش 7؍ جنوری 1978ء کو ان کے نانیہال جھمٹا ضلع سہرسہ (بہار) میں ہوئی، ابتدائی تعلیم اپنے والدین سے حاصل کی، پھر 1983ء تا 1986ء نے گائوں کے مدرسے معارف العلوم جھگڑوا میں حاصل کی، اسکول کی چھٹی جماعت تک، فارسی وغیرہ کی تعلیم اپنے خالو جناب ماسٹر عالم گیر مرحوم سے حاصل کی،پھر 1986ء 1988ء مدرسہ فلاح المسلمین بکرم پٹنہ میں مولانا سہیل احمد قاسمی، مولانا غیاث الدین قاسمی و غیرہ سے فارسی وغیرہ پڑھی اور ہدایۃ النحو کا کچھ حصہ بھی مولانا سہیل احمد صاحب سے پڑھا اور بہار مدرسہ بورڈ سے تحتانیہ ، وسطانیہ چہارم تک کا نصاب پورا کیا۔ پھر 1989ء تا 1991ء مدرسہ قاسم العلوم منگراواں ضلع اعظم گڑھ (یوپی) میں چند اساتذہ کرام سے باضابطہ اول، دوم اور سوم عربی کو پڑھا اور ساتھ ہی ساتھ الہ آباد بورڈ سے مولوی کا امتحان پاس کیا پھر 1992ء تا 1995ء مدرسہ ریاض العلوم گورینی ضلع جونپور (یوپی) میں چہارم، پنجم اور ششم عربی کی تعلیم حاصل کی اور خارج میں قرأت حفص باضابطہ اور قاری شمیم احمد بکھرا، اعظم گڑھ سے قرأت سبعہ میں شاطبیہ پرھی اور ساتویں پارے تک اجرا کیا، 1996ء میں دار العلوم دیوبند میں دورۂ حدیث شریف میں داخل ہوئے اور دورۂ حدیث میں تیسری پوزیشن سے کامیابی حاصل کی، پھر افتاء اور دو سال تدریب فی الافتاء کے بعد دوسال معین مدرس رہ کر دار العلوم دیوبند میں تدریسی خدمت انجام دی، پھر دار العلوم حیدر آباد بلائے گئے اور تقریباً نو سال وہاں تدریس و افتاء کی خدمت انجام دی پھر دار العلوم دیوبند میں ان کا تقرر ہوااور ابھی ششم عربی تک مختلف علوم و فنون کی کتابیں ان کے زیر درس ہیں، موصوف کو حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ شیخ الحدیث و صدر المدرسین دار العلوم دیوبند سے خصوصی نیاز حاصل تھا وہ مردم ساز شخصیت، لاثانی مدرس اور مصنف تھے، مسلک دیوبند کے صحیح ترجمان تھے،آپ کی پیدائش پالن پور میں 1940ء کو کالیڑہ وڈگام ضلع بناسکانتھا (شمالی گجرات) میں ہوئی ، ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن میں اور متوسط درجہ کی تعلیم مظاہر العلوم سہارنپور میں حاصل کی اور اعلی تعلیم کے لیے 21؍ شوال 1379ھ مطابق 1961ء یں فقہ، حدیث، تفسیر اور دیگر علوم و فنون کی تعلیم کے لیے دار العلوم دیوبند کا رخ کیا ۔
یہاں آپ نے 1382ھ مطابق 1962ء کو آپ نے دروۂ حدیث سے فراغت حاصل کر لی اور اس کے بعد افتاء میں داخلہ لیا اور حضرت مفتی مہدی حسن شاہ جہاں پوری کے پاس فتوی نویسی میں اتنی مہارت حاصل کر لی کہ دار الافتاء کے ذمہ دار نے تحریری طور پر آپ کی تقرری کی سفارش کی؛ لیکن مرضی قدرت اور تھی۔ اس وقت آپ کا تقرر دار العلوم میں نہ ہو سکا تو آپ کوآپ کے استاذ محترم علامہ ابراہیم بلیاوی نے دار العلوم اشرفیہ راندیر سورت جانے کا مشورہ دیا، حضرت نے وہاں علیا کے مدرس کی حیثیت سے نو سال تک تدریسی خدمت انجام دی آپ کی مقبولیت اور مختلف صلاحیتوں کی بنیاد پر دار العلوم دیو بند میں آپ کو بحیثیت مدرس منتخب کر لیا گیا، آپ نے نصاب میں شامل فقہ، اصول فقہ، منطق، فلسفہ، عقائد ،مناظرہ، ادب، میراث، تفسیر، اصول تفسیر، حدیث اور اصول حدیث کی مختلف کتابیں نہایت ہی کامیابی کے ساتھ پرھائیں، 19؍ مئی 2020ء79؍ 80سال کی عمر میں اس جہاں سے رخصت ہو گئے۔ انّا للہ وانّا اِلیہ راجِعون
غرض یہ کہ ترجمہ مالا بدمنہ لفظی ترجمہ نہیں ہے با محاورہ ہے۔ سچ ہے کہ مطولات کے اہم اہم مسئلے کو منتخب کر کے ابتدائی درجہ کے طلبہ کے لیے مالابد منہ تیار کی گئی ہے اور بڑی جانفشانی اور سلیقہ مندی سے پوری شریعت کی ضروری باتوں کو اس میں جمع کیاگیا ہے، ترجمہ کو دار العلوم دیوبند کے اساتذہ کرام میں سے مفتی کوکب عالم، مولانا مجیب اللہ گونڈوی، مفتی ذاکر حسین نے دیکھا ہے اور بڑی عرق ریزی کر کے اسے مفید تر بنانے کی ان تھک کوشش فرمائی ہے اور حضرت اقدس مفتی ابوالقاسم نعمانی مہتمم دار العلوم دیوبند نے دیکھنے کے بعد تقریظ لکھ کر مہر صداقت لگا دی ہے۔ اس کتاب میں ذیلی عناوین بھی ہیںجن سے افادیت اور آسان ہو گئی ہے، اسی طرح بہت سے مسئلوں کی دلیلیں اور حوالے فٹ نوٹ پر موجود ہیں، ترجمہ سلیس اور عام فہم ہے تاکہ ابتدائی طالب علم کو کسی طرح کی زحمت کا سامنا نہ ہو، مشکل الفاظ پر اعراب بھی لگا دیا گیا ہے، بعض جگہ مطلب کو بین القوسین میں ذکر کیا گیا ہے تاکہ اصل اور ترجمہ کے اضافے میں فرق رہے، پیچیدہ اور طویل مسائل کو الگ الگ کر کے لکھا گیا ہے؛ غرض یہ کہ راقم حروف کے نزدیک مالا بد منہ جس طرح اپنی انفرادیت میں لا جواب اور بے نظیر ہے، اسی طرح اس کا ترجمہ بھی اردو ترجمہ نگاری کا ایک شاہ کار ہے۔ دار العلوم دیوبند کے نصاب کا جز ہونے کی وجہ سے اس کی مزید اہمیت بیان کرنا تطویل لا طائل کے سوا کچھ نہیں!

Comments are closed.