Baseerat Online News Portal

موجودہ وباء اور قنوت نازلہ کا اہتمام!

فقیہ عصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
ترجمان وکارگذارجنرل سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ
دنیا میں کوئی بھی واقعہ جو پیش آتا ہے ، اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر وقوع پذیر نہیں ہوسکتا ؛ اس لئے ایک صاحب ایمان کا کام یہ ہے کہ جب بھی وہ کسی مصیبت یا آزمائش سے دو چار ہو ، اللہ کی طرف رجوع کرے اور اللہ کے خزانۂ غیب سے مدد کا طلب گار ہو ؛ اسی لئے اسلام میں ایک مستقل نماز نمازِ حاجت رکھی گئی کہ انسان کی کوئی بھی ضرورت ہو ، دو رکعت نماز خاص اسی نیت سے پڑھ کر اللہ کے سامنے دست ِسوال پھیلائے ، بعض مواقع کے لئے شریعت نے مخصوص نمازیں رکھی ہیں ، جیسے کسی کی وفات ہو جائے تو نمازِ جنازہ ، بارش نہ ہو تو نماز استسقاء ، کسی معاملہ کے بارے میں اضطراب ہو کہ کیا پہلو اختیار کرنا چاہئے ؟ تو نمازِ استخارہ ، سفر کے موقع پر نماز سفر ، اسی طرح اگر معمول کے خلاف مصیبت وآزمائش سے دو چار ہوں تو ایسے مواقع کے لئے کوئی مستقل نماز تو نہیں رکھی گئی ؛ لیکن ایک خصوصی دُعاء رکھی گئی ہے ، جس کو ’’قنوتِ نازلہ ‘‘ کہتے ہیں ، نازلہ کے معنی مصیبت و آزمائش کے ہیں اور قنوت کے متعدد معانی آتے ہیں ، جن میں سے ایک معنی دُعاء ہے، اور یہاں یہی معنی مراد ہے ، پس قنوتِ نازلہ کے معنی ہوئے: مصیبت کے وقت کی دُعاء، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں جو کمزور لوگ پھنسے ہوئے تھے اور اہل مکہ انھیں ہجرت کی اجازت نہیں دیتے تھے ، ان کے لئے قنوتِ نازلہ پڑھی ہے ، اسی طرح ایک خاص واقعہ پیش آیا ، جس میں حفاظ کی بڑی تعداد شہید کر دی گئی ، یہ واقعہ سیرت کی کتابوں میں’’ بئر معونہ‘‘ سے مشہور ہے ، اس موقع پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ تک قنوت نازلہ پڑھی ہے ، اِس وقت کورونا کی شکل میں عالمی سطح پر جو مصیبت آئی ہوئی ہے، وہ ایک بڑی مصیبت ہے، اور اس سے نجات کے لئے بھی قنوت نازلہ کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے۔
قنوتِ نازلہ کے سلسلہ میں کئی باتیں قابل ذکر ہیں ، قنوتِ نازلہ کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص تھا یا آج بھی امت کے لئے باقی ہے ؟ قنوتِ نازلہ کن مواقع پر پڑھی جائے گی ؟ کس نماز میں پڑھی جائے گی؟ اور نماز میں قنوت پڑھنے کا کیا محل ہے؟ بآوازِ بلند پڑھی جائے یا آہستہ ؟ جب امام قنوتِ نازلہ پڑھے تو مقتدی کیا کریں؟ قنوتِ نازلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے کن الفاظ میں منقول ہے ؟
۰ تمام قابل ذکر فقہاء و ائمہ مجتہدین کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی قنوت نازلہ کا حکم باقی ہے ؛ چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ مسیلمہ کذاب سے جنگ کے وقت آپ نے قنوتِ نازلہ پڑھی، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی بعض مواقع پر قنوتِ نازلہ پڑھی ہے ، خلیفۂ راشد سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان جنگ کے موقع پر دونوں نے قنوتِ نازلہ پڑھی ہے ، ( دیکھئے : منحۃ الخالق علی البحر : ۲ ؍ ۴۴) اس لئے صحیح یہی ہے کہ قنوتِ نازلہ کا حکم رسول اللہا کے لئے مخصوص نہیں تھا اور اب بھی یہ حکم باقی ہے ، ائمہ اربعہ اس پر متفق ہیں ۔ ( دیکھئے : حلبی : ۴۲۰ ، شرح مہذب : ۳ ؍ ۵۰۶، المقنع : ۴ ؍ ۱۳۵)
۰ فقہاء کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ وفساد کے علاوہ دوسری مصیبتوں کے مواقع پر بھی قنوتِ نازلہ پڑھنی مسنون ہے ، امام نووی شافعیؒ نے وباء اور قحط میں قنوت پڑھنے کا ذکر کیا ہے ، (روضۃ الطالبین و عمدۃ المفتیین : ۱ ؍ ۲۵۴) حنابلہ کے یہاں بھی وبائی امراض پھوٹ پڑنے پر قنوتِ نازلہ پڑھی جاسکتی ہے ، ( دیکھئے : الانصاف مع المقنع: ۴ ؍۱۳۹) حنفیہؒ نے بھی لکھا ہے کہ طاعون کی بیماری پھیل جائے تو اس کا شمار بھی نوازل میں ہوگا،اور اس سے حفاظت کے لئے قنوت پڑھی جائی گی۔ ( رد المحتار: ۲ ؍ ۴۴۷) گویا اصل میں تو قنوتِ نازلہ جہاد اور اعداء اسلام کے حملہ کے موقع پر پڑھی گئی ہے؛چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب کسی گروہ کے حق میں دُعاء کرنا یا کسی گروہ کے خلاف بد دُعاء کرنا مقصود ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر میں دعاء قنوت پڑھتے تھے ۔(اعلاء السنن ، حدیث نمبر : ۱۷۱۵) اسی مضمون کی روایت حضرت انسصسے بھی مروی ہے۔ ( اعلاء السنن : حدیث نمبر : ۱۷۱۴) گویا جب مسلمان اعداء ِاسلام سے جنگ کی حالت میں ہوں تب تو خاص طور پر قنوتِ نازلہ مسنون ہے ؛ لیکن اس پر قیاس کرتے ہوئے فقہاء نے دوسری مصیبتوں میں بھی قنوتِ نازلہ کی اجازت دی ہے ۔
۰ قنوتِ نازلہ کس نماز میں پڑھنی چاہئے؟ اس سلسلہ میں روایتیں مختلف ہیں ، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل ایک ماہ ظہر، عصر ، مغرب ، عشاء اور فجر میں آخری رکعت کے رکوع کے بعد قنوتِ نازلہ پڑھی ہے ، جس میں آپ نے بنو سلیم ، رعل ، ذکوان ، عصیّہ قبائل کے لئے بد دُعاء فرمائی ہے ، (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۱۴۴۳) بخاری میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب اور فجر میں قنوتِ نازلہ پڑھا کرتے تھے ، (بخاری، حدیث نمبر: ۱۰۰۴) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فجر اور مغرب میں قنوتِ نازلہ پڑھنا حضرت براء بن عازب رضی اﷲ عنہماسے بھی مروی ہے ، (طحاوی :۱ ؍ ۱۴۲) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت میں نمازِ عشاء میں قنوتِ نازلہ پڑھنے اور مکہ کے مستضعفین (مظلوم مسلمانوں) کے لے دُعاء کرنے کا ذکر ہے ، امام طحاوی نے اس کو متعدد سندوں سے نقل کیا ہے ؛ چنانچہ فقہاء شوافع کے نزدیک تو پانچوں نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھنے کی گنجائش ہے ، (شرح مہذب: ۲ ؍۵۰۶، روضۃ الطالبین: ۱؍۲۵۴)
فقہاء احناف کے یہاں دو طرح کی تعبیرات ملتی ہیں، ایک یہ کہ تمام جہری نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھنی چاہئے ، فقہ حنفی کی اکثر متون یعنی بنیادی کتابوں میں یہی لکھا ہے : ’’فیقنت الامام فی الصلوٰۃ الجہریۃ‘‘ ( ملتقی الابحر علی ہامش المجمع : ۱؍ ۱۲۹) مشہور حنفی فقیہ علامہ حصکفیؒ نے بھی بعینہٖ یہی الفاظ لکھے ہیں ، ( در مختار مع الرد : ۲ ؍ ۴۴۸) مشہور محقق علامہ طحطاویؒ نے بھی جہری نمازوں میں قنوت کی اجازت نقل کی ہے ، (طحطاوی علی المراقی: ۲۰۶) یہی بات بعض دوسرے فقہاء احناف سے بھی منقول ہے ، (دیکھئے : رد المحتار: ۲ ؍ ۴۴۸) ماضیٔ قریب کے اہل علم میں مشہور محدچ علامہ انورشاہ کشمیریؒ کا بھی یہی نقطۂ نظر ہے ، ( فیض الباری: ۲ ؍ ۳۰۲) علامہ حمویؒ نے اسی قول کو زیادہ درست قرار دیا ہے ، (منحۃ الخالق علی البحر: ۲ ؍۴۴) — دوسری رائے یہ ہے کہ صرف نمازِ فجر میں قنوتِ نازلہ پڑھنا درست ہے ، مشہور حنفی فقیہ علامہ شامیؒ کا رجحان اسی طرف ہے ، شامیؒ کا گمان ہے کہ ممکن ہے کہ بعض نقل کرنے والوں نے ’’ صلاۃ الفجر ‘‘ کو غلطی سے ’’ صلاۃ الجہر ‘‘ لکھ دیا ہو ، ( دیکھئے : رد المحتار: ۲ ؍ ۴۴۸) لیکن جب اتنی ساری نقول موجود ہیں، تو محض ظن و تخمین کی بناء پر اسے رد نہیں کیا جاسکتا ، اسی لئے خود علامہ شامیؒ نے لکھا ہے کہ شاید اس سلسلہ میں احناف کے دو قول ہیں : ’’ولعل فی المسئلۃ قولین‘‘۔ (منحۃ الخالق علی ہامش البحر : ۲ ؍ ۴۴)
پس ، جو بات راجح معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ قنوتِ نازلہ مغرب ، عشاء اور فجر تینوں میں پڑھنے کی گنجائش ہے ؛ کیوں کہ اس سلسلہ میں احادیث موجود ہیں ؛ البتہ چوںکہ فجر کے بارے میں اتفاق ہے اور دوسری نمازوں کے بارےمیں اختلاف ہے؛ اس لئے بہتر ہے کہ فجر میں قنوتِ نازلہ پڑھنے پر اکتفا کیا جائے ، رہ گئی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما کی روایت جس میں ظہر و عصر میں قنوتِ نازلہ پڑھنے کا ذکر ہے ، تو اکثر فقہاء کے نزدیک وہ منسوخ ہے اور احادیث میں اس کے منسوخ ہونے کے قرائن موجود ہیں ۔
۰ نماز میں قنوتِ نازلہ کب پڑھی جائے گی ؟ تو اس سلسلہ میں احادیث قریب قریب متفق ہیں کہ قنوتِ نازلہ رکوع کے بعد پڑھی جائے ، (دیکھئے : بخاری، حدیث نمبر: ۱۰۰۲، ابو داؤد : حدیث نمبر : ۱۴۴۴) فقہاء نے بھی اس کی صراحت کی ہے ۔ (منحۃ الخالق علی ھامش البحر : ۲ ؍ ۴۴)
۰ دُعاء ِقنوت زور سے پڑھی جائے یا آہستہ ؟ اس سلسلہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحیح روایت موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلۂ مضر کے خلاف بد دُعاء کرتے ہوئے جہراً قنوت پڑھی ہے ، ( بخاری کتاب التفسیر ، باب قولہ : لیس لک من الامر شئی ) اس لئے راجح قول یہی ہے کہ قنوتِ نازلہ امام کو جہراً پڑھنا چاہئے ، اسی کو اہل علم نے ترجیح دیا ہے ، (دیکھئے :اعلاء السنن : ۶ ؍۱۱۲) یوں دُعاء آہستہ کرنا بھی درست ہے ؛ بلکہ عام حالات میں آہستہ دُعاء کرنا افضل ہے ؛ لہٰذا آہستہ دُعاء کرنے کی بھی گنجائش ہے، خاص کر تنہا نماز پڑھنے والوں کے لئے اس میں آسانی ہے۔
۰ جب امام قنوتِ نازلہ پڑھے تو مقتدی کیا کریں ؟ اس سلسلہ میں علامہ شامیؒ نے لکھا ہے کہ اگر امام جہراً دعاء قنوت پڑھے ، تو مقتدی آمین کہنے پر اکتفاء کرے اور اگر آہستہ قنوت نازلہ پڑھے تو مقتدی بھی دُعاء کو دہرائے ، (رد المحتار : ۲ ؍ ۴۴۹) — اس بات پر حنفیہ کا اتفاق ہے کہ جیسے نماز سے باہر ہاتھ اُٹھا کر دُعاء کی جاتی ہے ، اس طرح قنوتِ نازلہ میں ہاتھ اُٹھا کر دُعاء نہیں کی جائے گی؛ لیکن ہاتھ باندھ کر رکھا جائے ،یا چھوڑ دیا جائے ؟ اس سلسلہ میں کوئی صریح حدیث موجود نہ ہونے کی وجہ سے فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ، امام ابو حنیفہؒ اور امام ابو یوسف ؒ کے نزدیک ہاتھ باندھنا بہتر ہے اور امام محمد ؒ کے نزدیک ہاتھ چھوڑے رکھنا بہتر ہے ، ( دیکھئے :اعلاء السنن : ۶ ؍۱۲۲) چوںکہ قنوتِ نازلہ ’’قومہ ‘‘کی حالت میں پڑھا جاتا ہے اور قومہ کی حالت میں ہاتھ چھوڑے رکھنا مسنون ہے ؛ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہاتھ چھوڑے رکھے۔
۰ رہ گئے قنوتِ نازلہ کے الفاظ ، تو اس سلسلہ میں کچھ خاص الفاظ ہی کی پابندی ضروری نہیں ہے: ’’وأما دعاء ہ فلیس فیہ دعاء موقت‘‘ ( البحر الرائق : ۲ ؍۴۱) البتہ ظاہر ہے کہ جو الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ثابت ہوں ، ان کو پڑھنے کا اہتمام کرنا بہتر ہے ، اس سلسلہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ان الفاظ میں دُعاء سکھائی :
اَللّٰھُمَّ اھْدِنِی فِیْ مَنْ ھَدَیْتَ وَعَافِنِیْ فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِیْ فِیْمَنْ تَوَلَّیْت ، وَ بَارِک لِی فِیْمَا اَعْطَیْت وَقِنِی شَرَّ مَاقَضَیْتَ ، فَاِنَّکَ تَقْضِیْ وَلَایُقْضٰی عَلَیْکَ وَاِنَّہٗ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ ، تَبَارَکَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ ۔ ( ابو داؤد ، حدیث نمبر : ۱۴۲۵)
اے اللہ ! مجھے بھی ان لوگوں کیساتھ ہدایت عطا فرمائیے ، جنھیں آپ نے ہدایت دی ہے اور مجھے بھی ان لوگوں کے ساتھ عافیت میں رکھئے ، جن کو آپ نے عافیت سے سرفراز فرمایا ہے، اور میری بھی ان لوگوں کے ساتھ نگہداشت فرمایئے ، جن کو آپ نے اپنی نگہداشت میں رکھا ہے ، جو کچھ آپ نے عطا فرمایا ہے، اس میں میرے لئے برکت عطا فرمایئے ، قضاء و قدر کے شر سے میری حفاظت فرمائیے ؛ کیوںکہ آپ فیصلہ کرتے ہیں ، آپ کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ، جسے آپ دوست بنالیں وہ ذلیل نہیں ہو سکتا اور جس کے آپ دشمن ہوں وہ باعزت نہیں ہو سکتا ، پروردگار ! آپ کی ذات ، مبارک اور بلند ہے ۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی ایک دُعاء پڑھنا منقول ہے ، جس کو امام نوویؒ نے بیہقی کے حوالہ سے نقل کیا ہے ، ( الاذکار: ۹۷) لیکن وباء سے حفاظت کے نقطۂ نظر سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول یہ الفاظ زیادہ مناسب ہیں۔
علامہ حصکفیؒنے لکھا ہے کہ دُعائِ قنوت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھی بھیجنا چاہئے : ’’ ویصلی علی النبی، وبہ یفتی‘‘۔( در المختار : ۲ ؍ ۴۴۲)
حاصل یہ ہے کہ وباء کی موجودہ صورت حال میں فجر کی نماز میں رکوع سے پہلے دوسری رکعت میں قنوت نازلہ کا اہتمام ہونا چاہئے، اگر قنوت نازلہ کے الفاظ یاد نہ ہوں تو کوئی اور منقول دعاء جیسے: ’’ اللّھم أسئلک العافیۃ فی الدنیا والآخرۃ‘‘ پڑھ سکتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ ایسی مصیبت کا وقت ہے کہ ہرمسلمان اپنی جبین بندگی خدا کے سامنے خم کر دے اور پورے الحاح اورفروتنی کے ساتھ اللہ کے سامنے دست ِسوال پھیلائے ،کہ انسانیت کو کورونا کی اس مصیبت سے نجات حاصل ہو، جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے!!!
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.