Baseerat Online News Portal

علامہ سید سلیمان ندوی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو ( دوسری قسط

علامہ سید سلیمان ندوی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو ( دوسری قسط)

 

اسجد عقابی

 

 

 

پہلی قسط پڑھنے کیلئے کلک کریں

 

علامہ سید سلیمان ندوی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو اسجد عقابی

دکن کالج پونہ

 

1913 میں آپ نے استاد محترم علامہ شبلی نعمانی کے حسب ایماء ممبئی یونیورسٹی کی شاخ دکن کالج پونہ میں شمولیت اختیار کی۔ یہاں آپ کو کھلا ہوا میدان نصیب ہوا، جس میں شاہین و عقاب کی اصل پرواز کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔ کچھ دنوں میں آپ کا شمار ممتاز علماء کرام کی صف میں ہونے لگا۔ طلاقت لسانی سے ایسے دلآویز جواہر پارے موتیوں کی شکل میں برسنے لگے کہ ہر محفل اور ہر جلسہ کی شان آپ بن گئے۔ اسی زمانہ میں انجمن ترقی اردو کا اجلاس پونہ میں منعقد ہوا، جس کی صدارت آپ کے ذمہ تھی۔ آپ نے جو علمی اور تحقیقی خطبہ صدارت پیش کیا تھا وہ آج تک اردو زبان و ادب کے باب کا زریں تحفہ ہے۔

 

علامہ شبلی نعمانی کی رحلت

 

آپ کو پونہ گئے تقریباً ڈیڑھ دو سال ہی ہوئے تھے کہ، آپ کے مشفق و مربی علامہ شبلی نعمانی کی طبیعت میں گراوٹ شروع ہوگئی۔ روز افزوں بڑھتی ہوئی کمزوری نے آنے والے حالات سے آگاہ کردیا تھا۔ آپ نے تار بھیج کر سید سلیمان ندوی صاحب کو پونہ سے بلا لیا۔ سید سلیمان ندوی صاحب کے پہنچنے کے کچھ دنوں بعد علم و فضل کا ایک روشن ستارہ ہمیشہ ہمیش کیلئے 1914 میں غروب ہوگیا۔ استاد محترم کی رحلت کے بعد آپ نے ان کے ادھورے چھوڑے ہوئے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا فیصلہ کیا۔ جن میں دو کام سب سے اہم تھے۔ سیرہ النبی کی تکمیل اور دارا المصنفین کا قیام۔

دارا المصنفین کا قیام

علامہ شبلی نعمانی نے حیات طیبہ میں ہی اس ادارہ کا خواب دیکھا تھا۔ آپ اسے قائم کرکے ہندوستان میں تحقیق و تخریج کے ایک نئے باب کا اضافہ کرنا چاہتے تھے، لیکن عمر نے وفا نہ کی اور اس کام کی تکمیل آپ کے ہونہار شاگرد کے ہاتھوں منصہ شہود پر آئی۔

چند مخیر حضرات کے تعاون سے 1915 میں علامہ سید سلیمان ندوی نے اعظم گڑھ میں دارا المصنفین کی بنیاد ڈالی۔ استاد کی خواہش کا اس درجہ اہتمام کے آپ نے بالکلیہ دکن کالج کی نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور دارا المصنفین کی ترقی و کامیابی کیلئے ہمہ تن مصروف ہوگئے۔ دارا المصنفین سے سب سے پہلا علمی کارنامہ جو کتاب کی شکل میں عوام الناس تک پہنچا وہ سید سلیمان ندوی صاحب کی کتاب ( ارض القرآن) کی پہلی جلد تھی۔ اس سے عوام وخواص تک دارا المصنفین کے منہج و مقاصد آشکارا ہوگئے اور دیگر مصنفین اور تحقیق و تخریج کے متلاشی اس جانب رجوع کرنے لگے

رسالہ معارف کا اجراء

دارا المصنفین کے قیام کا مقصد محض کتابوں کی اشاعت تک محدود نہیں تھا، بلکہ حالات حاضرہ پر واقع ہونے والے اثرات سے عوام کو واقف کرانا اور انہیں دیگر علمی مسائل میں تشفی بخش معلومات فراہم کرنا بھی تھا۔ چنانچہ اس کام کی انجام دہی کیلئے 1916 میں رسالہ ( معارف) کا اجراء عمل میں آیا۔ آپ نے رسالہ ( معارف) اور دارا المصنفین کی ترقی کیلئے ہر ممکن کوشش کی اور محض دو سال کے عرصہ میں اس بام عروج تک پہنچا دیا کہ جب بڑودہ میں مذاہبِ عالم کے موازنہ پر ادارہ قائم کیا گیا تو مذہب اسلام کے متعلق معلومات کیلئے دارا المصنفین کو مرجع قرار دیا گیا۔

 

1917 میں آپ کے مضامین کا مجموعہ ( حیات امام مالک) بشکل کتاب منظر عام پر آیا۔ آپ کو امام مالک سے عجیب انسیت تھی۔ آپ علم حدیث میں مؤطا امام مالک کی جانب بہت زیادہ رجوع فرمایا کرتے تھے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ حنفی المذہب ہونے کے باوجود علماء ہند نے خدمت حدیث کی نیت سے مؤطا امام مالک پر بہت کام کیا ہے۔ اس میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کی کاوش سب سے زیادہ نمایاں ہیں، آپ نے مؤطا امام مالک کی شرح اوجز المسالک سترہ جلدوں میں ترتیب دی ہے جو علم حدیث کے باب میں عظیم خدمت ہے۔

سیرہ النبی کی اشاعت

علامہ شبلی نعمانی کا یہ دیرینہ خواب تھا۔ انہوں نے بوقت مرگ اپنے شاگرد سے اس بات کی خصوصی وصیت فرمائی تھی کہ اسے ہر حال میں شائع کرنا ہے۔ دو جلدوں کے مسودے تیار ہوچکے تھے لیکن حالت حیات میں اشاعت کی فرصت نہیں ملی۔

1918 میں سید سلیمان ندوی نے مکمل تحقیق و تخریج کے بعد اس کتاب کو شائع فرمایا۔ یہ کتاب ہر اعتبار سے سیرت النبی پر مشتمل مواد کا بیش بہا خزینہ ہے۔ اس کی افادیت اس کے مصنفین کے اخلاص و للہیت سے آج تک برقرار ہے۔ اردو زبان میں لکھی گئی یہ کتاب اپنے آپ میں کارنامہ ہے۔

بعد کے زمانے میں سید سلیمان ندوی مصروفیات کے باوجود ہمیشہ اس کام کی تکمیل کیلئے کوشاں رہا کرتے تھے، آپ کی مخلصانہ کاوش بارگاہ ایزدی میں قبول ہوئی اور آپ نے سات جلدوں میں سیرت کے موضوع پر قیمتی تحفہ امت مسلمہ کے سامنے پیش فرمایا۔

خلافت کمیٹی کی تشکیل

1919 میں سلطنت عثمانیہ اپنے آخری دور میں پہنچ چکی تھی۔ بقا کی امیدیں دم توڑتی ہوئی نظر آرہی تھی، ایسے سنگین حالات میں ہندوستان کے چند سرفروشان اسلام نے ممبئی میں خلافت کمیٹی کی بنیاد رکھی۔ سید سلیمان ندوی صاحب بھی اس قافلہ کے سالاروں میں سے تھے۔ اب آپ کا ذہن مکمل طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا، لیکن کمال انصاف یہ ہے کہ آپ نے ہر دو امور کو بحسن وخوبی انجام دیا۔ 1920 میں جب حالات کی سنگینی مزید بڑھ گئی تو ہندوستان سے ایک وفد خلافت کمیٹی کی جانب سے حکومت برطانیہ سے بات چیت کیلئے برطانیہ روانہ کیا گیا، اس وفد میں سید سلیمان ندوی صاحب کو خصوصی طور پر شامل کیا گیا تھا۔ برطانیہ سے واپسی کے بعد 1920 میں جب ترک موالات کی تحریک کانگریس اور خلافت کمیٹی کی جانب سے مشترکہ طور پر شروع کی گئی تو سید سلیمان ندوی صاحب نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور جابجا جلسوں میں عوام کو اس میں شمولیت کیلئے ترغیب دیں۔ انہیں ایام میں آپ نے میرٹھ میں اور بہار میں منعقد ہونے والے خلافت کانفرنس کی صدارت فرمائی۔

عرب و ہند کے تعلقات

برطانوی سامراج کے آخری ایام میں انگریزوں نے ہندوستانیوں کو مذہب کی بنیاد پر دو حصوں میں تقسیم کرنے کی حکمت عملی اپنائی اور اس کام کیلئے چند ضمیر فروشوں کو آلہ کار بنایا۔ فرنگیوں کی تخم ریزی ہندوستانیوں کو دو حصوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب نظر آنے لگی تھی۔ ایسے وقت میں سید سلیمان ندوی صاحب نے ہندوستان کے ہندوؤں کو مذہب اسلام کے مبدا عالم عرب کے تعلقات اور ان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے مضامین لکھیں۔ تقاریر کیں۔ عرب و ہند کے باہمی تعلقات کو تاریخی طور پر ثابت کیا اور اس سلسلہ میں آپ نے ایک مکمل کتاب بنام ( عرب و ہند کے تعلقات) کو ترتیب دے کر پھیلائے گئے جھوٹ پر قدغن لگایا۔

 

اس پورے عملی اور مصروف ترین زندگی میں جہاں آپ نے حجاز کے بیشتر مقامات کا سفر کیا، متحدہ ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں جاکر آزادی کی تحریک چلائی، علمی ذوق و شوق کو معارف کے ذریعہ برقرار رکھا اور خصوصاً ندوہ العلماء کی ذمہ داری اور دارا المصنفین کی سرپرستی میں کبھی کمی و کوتاہی نہیں ہونے دی۔

 

 

 

 

بیعت و سلوک

 

1940 کے ایام میں جب عالمی طور پر آپ متبحر عالم دین کی حیثیت سے شناخت بنا چکے تھے۔ آپ کے علمی کارناموں کو سند کی حیثیت حاصل تھی۔ عمر کے اس دور میں آپ بیعت و سلوک کی جانب متوجہ ہوئے۔ آپ کے زہد و تقویٰ میں کوئی کمی نہیں تھی۔ آپ کے تواضع و انکساری کو آپ کے رفقاء ہمیشہ محسوس کرتے تھے۔ پیر و مرشد کی تلاش نے تھانہ بھون میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے در اقدس پر پہنچا دیا۔ آپ مولانا عبد الماجد دریابادی کے ہمراہ دیوبند تشریف لائے، یہاں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی سے مدعا بیان کیا۔ حضرت مدنی دونوں حضرات کو اپنے ہمراہ تھانہ بھون لے گئے جہاں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی منشا کے مطابق حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی خانقاہی نظام کو مرتب فرمایا تھا۔ یہاں حضرت حکیم الامت کے دست مبارک پر بیعت کی۔ آپ عبادت و ریاضت میں زہد و تقویٰ کے اس عالی مقام پر فائز تھے کہ آپ کو مزید ریاضت کی حاجت نہیں تھی۔ چند دنوں بعد آپ کے مرشد حضرت تھانوی نے آپ کو خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا، اس کے بعد آپ کی جوشیلی تقریریں وعظ و نصیحت سے بدل گئی۔ آپ نے 1943 میں بعنوان ( رجوع و اعتراف) معارف میں ایک تفصیلی مضمون تحریر کیا، جس میں آپ نے بہت سی ایسی باتیں جن میں جمہور سے قدرے علمی اختلاف رہا تھا یا آپ کی اپنی آراء تھیں ان سے برملا رجوع فرمایا۔

 

 

 

 

 

 

 

ندوہ میں قیام کا ارادہ

 

آپ تقریباً چالیس سال تک ندوہ کے معتمد تعلیمات رہے، اس دورانیہ میں آپ کو کبھی یکسوئی سے ندوہ میں قیام کا موقع نہیں ملا۔ البتہ آپ ہمیشہ ندوہ کے تئیں متفکر رہتے اور حتی الامکان ندوہ میں اساتذہ و طلباء کے ساتھ وقت گزارنے کی کوشش کرتے تھے۔ 1945 میں آپ کی طبیعت خراب ہوگئی، ڈاکٹروں نے آرام کا مشورہ دیا، انہیں ایام میں آپ نے باقاعدہ ندوہ میں رہنے کا ارادہ فرمایا، لیکن چند دنوں بعد 1946 میں آپ قاضی القضاہ کی حیثیت سے بھوپال تشریف لے گئے۔ 1947 میں آزادی کے بعد مزید دو سال تک وہاں قیام رہا، لیکن اس وقت تک بھوپال کے حالات یکسر تبدیل ہوچکے تھے۔ آپ نے 1949 میں بھوپال کو خیر باد کہہ دیا۔

 

 

 

 

ہجرت

 

1950 میں آپ ہجرت کرکے پاکستان تشریف لے گئے۔ وہاں آپ کا پرزور استقبال کیا گیا۔ کئی عہدوں پر فائز ہوئے اور کئی طرح کی علمی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ پاکستان کی مختلف علمی انجمنوں کے مشیر رہے، یونیورسٹی کے ممبر نامزد کئے گئے۔ غرضیکہ محض تین سال کی مدت میں آپ نے اس نوزائیدہ ملک کیلئے ایسی شاندار علمی خدمات انجام دی ہیں جن کے نقوش آج تک تابندہ ہیں اور جن کو مشعل راہ بنا کر بعد والے اب تک مستفید ہورہے ہیں۔

 

 

 

 

وفات

 

1952 میں آپ نے آخری بار ڈھاکہ سے کراچی ہوتے ہوئے ہندوستان میں قیام فرمایا۔ کچھ دنوں تک اپنے داماد کے گھر رہے۔ بعد ازاں ندوہ میں قیام پذیر ہوئے۔ طلباء کے درمیان وعظ و نصیحت کی مجلسیں سجائی گئی۔ اساتذہ کرام کو اپنے تجربات سے روشناس کرایا اور پھر دارا المصنفین کے عہدہ داروں سے رمضان المبارک میں واپسی کا ارادہ کرکے کراچی تشریف لے گئے۔ کسے معلوم تھا کہ یہ اس ذات گرامی سے آخری ملاقات ہے جو کم و بیش چالیس سال تک ندوہ کے معتمد تعلیمات رہے اور دارا المصنفین کے سرپرست رہے تھے۔

 

1953 میں نومبر کے مہینہ میں خدا کا یہ محبوب بندہ اپنے خالق حقیقی کی بارگاہ میں ہمیشہ ہمیش کیلئے سجدہ ریز ہوگیا۔

 

مانند حرم پاک ہے تو میری نظر میں

 

 

 

Comments are closed.