کرونا وائرس حیاتیاتی جنگ (Biological Warfare)کا ایک نیا ٹریلر

طالب جلال (دارالعصر، نئی دہلی)
حیاتیاتی جنگ کیاہے؟
اس کو دوسرے الفاظ میں جراثیمی جنگ بھی کہا جاتا ہے۔اس میں بیکٹیریا، متعدی ایجنٹس، فنجس، وائرس اور کیڑے مکوڑے وغیرہ کا استعمال کرکے جاندار اور حیاتیاتی نقل تیار کیا جاتا ہے۔
یہ ایک طرح کی حیاتیاتی دہشت گردی(Bioterrorism) ہے۔
حیاتیاتی ہتھیار (Biological weapon) یا جراثیمی ہتھیار اعلانیہ اور خفیہ طور پر مختلف ممالک تیار کرتے رہےہیں۔ اگرچہ ایک سو ممالک نے 1972 میں ایک معاہدہ کی رو سے فیصلہ کیاتھا کہ انھیں تیار نہ کیا جائے اور نہ ہی ذخیرہ کیا جائے؛ مگر حیرت انگیز طور پر انھیں استعمال کرنے پر اس معاہدہ میں کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ حالانکہ 1925 میں جنیوا میں ایک معاہدہ کے تحت ان کے استعمال پر عالمی پابندی لگائی گئی تھی۔
جنگی لحاظ سے ایک اچھا حیاتیاتی ہتھیار اسے سمجھا جاتا ہے جس کے جراثیم ایک سے دوسرے فرد کو تیزی سے لگ جاتے ہوں، ہوا کے ذریعے پھیل سکتے ہوں اور جلدی تیار کیے جا سکتے ہوں؛ مگر اس کا توڑ بھی موجود ہو؛ تاکہ اپنے لوگوں کو اس سے بچایا جا سکے۔
حیاتیاتی یا جراثیمی ہتھیار قدیم زمانے سے استعمال میں ہیں۔ پہلے ان کی صورت یہ تھی کہ دشمن کے پانی کے ذرائع کو زھر آلود کر دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ جراثیموں سے ناواقفیت کے باوجود دشمن کے پانی کے ذرائع میں فنجس اور ایسے پودے ڈالنے کی مثالیں بھی موجود ہیں جن سے اس پانی کے پینے والے بیمار ہو جائیں یا مر جائیں۔ ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ طاعون کے مریضوں کی لاشوں کو دشمن کے علاقے میں پہنچا دیا جاتا تھا۔ مثلاً 1710 میں روس نے سویڈن کے ساتھ جنگ میں ایسا ہی کیا۔ امریکا میں یورپی لوگوں نے بہت سی ایسی بیماریاں پھیلائیں جن سے امریکا کے قدیمی باشندے لاکھوں کی تعداد میں مرے۔ اس کا تذکرہ لارڈ جیفرے ایمھرسٹ نے کیا ہے۔ کہ 1756-1763 میں فرانسیسیوں نے امریکا کے قدیمی باشندوں (ریڈ انڈین) میں ایسے کمبل تقسیم کیے جن میں خسرہ کے جراثیم تھے یعنی انھیں ایسے لوگوں نے استعمال کیا تھا جن کو خسرہ تھا۔ یاد رہے کہ امریکہ میں اس سے پہلے یورپی بیماریاں نہیں تھیں اور اس سے مقامی باشندے آسانی سے موت کے منہ میں چلے جاتے تھے۔
ایسے ہی کمبل 1834 میں رچرڈ ھنری نے سان فرانسسکو میں تقسیم کیے اور کئی مقامات پر بیچے۔ بیسویں صدی میں امریکہ میں باقاعدہ طور پر فورٹ ڈسٹرکٹ کی تجربہ گاہ میں کئی جراثیم جنگی نقطہ نظر سے تیار کیے گئے جن میں انتھراکس جیسے جراثیم شامل تھے۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ اور روس نے اس میدان میں بہت تحقیق کی اور متعدد جراثیم اور ان کے توڑ تیار کیے۔ کوریا کی جنگ (1950-1953) کے دوران امریکہ نے ان ہتھیاروں کو استعمال بھی کیا۔امریکا نے ہمیشہ ایسے الزامات سے انکار کیا ہے۔
ملاحظہ ہو:
(Wartime lies published on June 27 1999, New york Times)
امریکہ میں حیاتیاتی جنگ کا ایک پروگرام 1942 میں سول ایجنسی ’’وار ریزرو سروس‘‘ کو سونپا گیا، چنانچہ 1950-53 کی کوریا وار میں روس، چین اور شمالی کوریا نے امریکہ پر الزام لگایا کہ وہ حیاتیاتی ہتھیار کا باقاعدہ استعمال کر رہے ہیں۔ بعد ازاں برطانیہ پر عمان کے خلاف اور امریکہ پر ہانگ کانگ اور عراق کے خلاف بائیولوجیکل ہتھیار استعمال کرنے کےالزامات لگے۔
کیوبا کئی دہائیوں سے امریکی ستم ظریفی کا شکار بتایا جاتا ہے۔1981ء میں کیوبا میں ڈینگو بخار وبا کی طرح پھیلا۔ اس نے کم از کم 158 شہریوں کی جان لی۔ ان میں سے51 بچے تھے۔ کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو نے اس وبا کا ذمے دار امریکہ کو ٹھہرایا اور اسے کیوبا کے خلاف امریکی حیاتیاتی جنگ قرار دیا۔
جراثیمی تحقیقاتی ادارہ کے مطابق برطانیہ اور امریکہ جہاں جراثیمی ہتھیار تیار کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہیں وہیں ان کے علاوہ سترہ مزید ممالک پر بھی شبہ ظاہر کیا گیا ہے جن میں بھارت، اسرائیل، کوریا، روس، ایران، عراق، شام، مصر، چین، ویت نام، لاوس، کیوبا، بلغاریہ، جنوبی افریقہ، لیبیا، جنوبی کوریا اور تائیوان شامل ہیں۔
ریاستہائے متحدہ امریکا نے ایسے ہتھیار بھی تیار کیے تھے جو زراعت کو نقصان پہنچاتے ہوں مثلا گندم اور چاول کی فصلوں کے مخصوص جراثیم جو کلسٹر بم کے ذریعے سے دشمن کے علاقے میں پھینکے جا سکتے ہوں یا ہوا میں چھڑکاؤ کیے جا سکتے ہوں۔ اگرچہ ظاہراً 1970 میں ان کی تیاری امریکہ نے بند کر دی تھی۔
برطانوی لیبارٹری ’’اوکزی ٹیک‘‘ نے ڈینگو بخار سے نپٹنے کے لیے جینیاتی متغیر مچھر تیار کیے۔2009ء میں یہ جزائر غرب الہند کے جزیرے ’’گرینڈ کے مین‘‘ میں چھوڑے گئے۔2010ء میں ایسے 30 لاکھ مچھر خفیہ طریقے سے چھوڑے گئے۔
ان موضوعات پر
Jeffrey Alan Lockwood
professor of Natural Sciences and Humanities
University of Wyoming
نے کئی وقیع کتابیں تصنیف کیں ہیں۔
ستمبر 2001 میں خود امریکا ایسے ہتھیاروں کا شکار ہونے لگا تھا جب امریکی کانگرس اور دوسرے مشہور لوگوں اور دفاتر کو ایسے خط ملے جن میں انتھراکس کے جراثیم پاؤڈر کی شکل میں موجود تھے؛ لیکن تاحال اس کے ذمہ داروں کا اور ان کے مقصد کا پتہ نہیں چل سکا اور بعض لوگ اسے ایک امریکی ڈراما سمجھتے ہیں۔
حیاتیاتی جنگ کی دنیا میں ایڈز کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ انسانی طور پر تیار کردہ جراثیموں کی مدد سے پھیلا۔ اور یہ جراثیم امریکہ نے اپنی ایک فوجی تجربہ گاہ میں تیار کیے تھے۔ یہ فوجی تجربہ گاہ فورٹ ڈسٹرکٹ، میری لینڈ، امریکا میں واقع ہے۔ اور USAMRIID کہلاتی ہے۔ یہ صرف ایک سازشی نظریہ نہیں بلکہ امریکہ اور مغربی دنیا کے بے شمار لوگ اس کے قائل ہیں اور اس سلسلے میں ان کی تحقیق بھی موجود ہے مثلاً:
ھیمبولٹ یونیورسٹی، جرمنی کے ایک پروفیسر جیکب سیگل کی تحقیق کے مطابق امریکی فوجی تجربہ گاہ میں یہ عمل دو جرثوموں Visna اور HTLV-1 کی مدد سے 1977 میں کیا گیا۔ یہ تجربہ جیل کے کچھ قیدیوں کے اوپر کیا گیا جن کو جلدی رہا کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ اس پروفیسر پر امریکا نے روس کا جاسوس ہونے کا الزام لگایا
نوبل انعام یافتہ ونگاری متھائی (Wangari Maathai) کے خیال کے مطابق ایڈز کا جراثیم حیاتیاتی ہتھیاروں کے تجربات کی پیداوار ہے۔ اور انسانی ہاتھوں سے بنا ہے۔
مصنف ڈاکٹر ایلن کینٹول (Dr. Alan Cantwell) نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ایڈز کا جرثومہ جینیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے اور امریکا میں اسے تیار کرنے والے تجربات کا ذمہ دار ڈاکٹر وولف زمونس (Dr. Wolf Szmuness) تھا۔
ملاحظہ ہو:
AIDS and the Doctors of Death: An Inquiry into the Origin of the AIDS Epidemic and Queer Blood: The Secret AIDS Genocide Plot, Dr. Alan Cantwell-
ڈاکٹر لیونارڈ ہوروز (Dr. Leonard G. Horowitz) نے اپنی کتاب میں لکھا ہےکہ ایڈز کا جرثومہ امریکی فوجی تجربات کی پیداوار ہے۔
ملاحظہ ہو:
Emerging Viruses: AIDS & Ebola. Nature, Accident or Intentional? and Death in the Air: Globalism, Terrorism and Toxic Warfare BY Dr. Leonard G. Horowitz
وائرس کیا ہے؟
یہ دراصل جاندار ہوتا ہے اور ایک لحاظ سے بےجان بھی۔
یہ اربوں کھربوں سال کہیں پڑا ہو تو پڑا رہے گا مرے گا نہیں ۔ یہ جتنا ہوتا ہے اتنا ہی رہتا ہے۔ اسے کسی قسم کی کوئی غذا درکار نہیں ہوتی ۔ یہ جب تک کسی جاندار کے جسم میں نہیں جاتا اپنی تعداد بھی نہیں بڑھا سکتا۔ یہ ایک بیکٹیریا کے مقابل تقریباً سو گنا کم حجم رکھتا ہے۔ اس کی قلمیں یعنی کرسٹلز بھی بنائی جا سکتی ہیں جیسے چینی یا نمک کی کرسٹلز ہوتی ہیں اور یہ پھر بھی زندہ ہوتا ہے۔
وائرس کی سینکڑوں اقسام ہیں اور یہ سینکڑوں بیماریاں بھی پیدا کرتا ہے ۔
اسے بیرونی ماحول میں صرف جلا کر ہی ختم کیا جا سکتا ہے لیکن جو شے نظر ہی نہیں آتی اسے جلانے کے لیے پوری دنیا کو جلانا پڑے گا ۔
اس کا واحد علاج انسانی جسم کا مامونی نظام یعنی امیون سسٹم ہے ۔
جب یہ انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے تو انسانی جسم میں موجود دفاعی نظام اور اس وائرس کے درمیان میچ ہوتا ہے ۔
اکثر چھوٹے موٹے میچز جیسے نزلہ زکام وغیرہ میں تو حتمی فتح انسانی دفاعی نظام کی ہوتی ہے لیکن ایڈز کے سامنے یہ نظام بھی بے بس ہوتا ہے کہ ایڈز کا وائرس حملہ ہی دفاعی نظام پر کرتا ہے۔
وائرس کو آپ سادہ انداز میں ایک کوڈ سمجھ
سکتے ہیں جسے فعال ہونے کے لیے ایک زندہ جسم یا خلیہ درکار ہوتا ہے جہاں وہ بھی زندہ ہو جاتا ہے اور آنا فانا اپنی تعداد بڑھانے لگتا ہے۔
کرونا وائرس (COVID-19) یہ بظاہر بخار سے شروع ہوتا ہے جس کے بعد خشک کھانسی آتی ہے۔
ایک ہفتے بعد سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے،واضح رہے کہ اس انفیکشن میں ناک بہنے اور چھینکنے کی علامات بہت کم ہیں۔
اس کا وائرس پھیپھڑوں پر حملہ کرتا ہے جس سے نمونیئے جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ مرض کی شدت کی صورت میں پھیپھڑے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور موت واقع ہو جاتی ہے۔
کرونا وائرس اب 40 ممالک تک پھیل چکا ہے۔ چین میں اب تک کورونا وائرس سے 78 ہزار سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں جبکہ 2700 ہلاک ہوئے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق انفیکشن کے لاحق ہونے سے لے کر علامات ظاہر ہونے تک کا عرصہ 14 دنوں پر محیط ہے۔لیکن کچھ محققین کا کہنا ہے کہ یہ 24 دن تک بھی ہو سکتا ہے۔
کرونا وائرس کیسے شروع ہوا؟ اس سلسلے میں تین آراء سامنے آئی ہیں۔
1.
یہ وائرس زونوٹک (Zoonotic)ہے۔ یعنی اس کی اصل جانور میں پائی جاتی ہے اور یہ جانور سے انسان میں منتقل ہوا ہے۔
نامہ نگار ہیلن بِرگ کا جائزہ ہے کہ چین کے کسی علاقے میں ہوا میں اڑتے ایک چمگادڑ نے اپنی لید میں کورونا وائرس چھوڑا یہ وائرس جنگل کی زمین پر گرا جہاں پینگولین نام کے جانور کو اس فضلے سے یہ وائرس ملا۔
یہ وائرس دوسرے جانوروں میں پھیلا۔ یہ متاثرہ جانور انسانوں کے ہاتھ لگا اور یہ بیماری انسانوں میں پھیلنی شروع ہوئی اور دنیا میں وبا کی شکل اختیار کرنے لگی۔
زولوجیکل سوسائٹی آف لندن کے پروفیسر اینڈریو کنگھم کا کہنا ہے کہ سائنسدان کسی جاسوسی کی طرح ان واقعات کی کڑی جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگل میں کئی طرح کے جانوروں میں یہ وائرس ہو سکتا ہے خاص طور پر چمگادڑیں جن میں کئی طرح کے کرونا وائرس پائے جاتے ہیں۔
اس معمے کا دوسرا سوال اس پراسرار جانور کی شناخت ہے جس کے جسم میں یہ وائرس آیا اور اس سے ووہان کی بازار میں پہنچا۔ اس سلسلے میں پینگولین نام کے جانور پر شبہہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ چیونٹیوں اور دیگر کیڑے مکوڑوں کو کھانے والا یہ جانور دنیا میں سب سے زیادہ اسمگل ہونے والا جانور کہا جاتا ہے اور معدومیت کا شکار ہے۔
ووہان میں ایسے ہی ایک بازار کو وبا پھیلنے کے بعد بند کر دیا گیا جس میں جنگلی جانوروں کا ایک سیکشن بھی تھا جہاں زندہ اور ذبح شدہ جانوروں کو فروخت کیا جاتا تھا۔ ان میں اونٹ، ریچھ اور دیگر جانوروں کے اعضا فروخت ہوتے تھے۔روز نامہ گارڈین کے مطابق دوکانوں پر فرخت ہونے والی فہرست میں بھیڑیے کے بچے، سنہری ٹڈے، بچھو، چوہے، گلہری، لومڑی، سیہہ، بجو، کچھوا اور مگر مچھ کا گوشت شامل تھا۔
جہاں تک ہمیں معلوم ہے چمگادڑیں اور پینگولین اس فہرست میں شامل نہیں تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں ہمیں جن وائرسز کا پتہ چلا ہے وہ سب جنگلی حیات سے انسانوں میں منتقل ہوئے تھے چاہے وہ ایبولا ہو یا سارس اور اب کورونا وائرس۔
2.
چین کی تجارت کو تباہ کرنے کے لیے امریکہ نے کرونا وائرس تیار کیا ہےاور چین میں پھیلا دیا ہے۔
پچھلی کئی دہائیوں سے معاشی طور پر چین مضبوطی کی طرف گامزن ہے اور مختلف چیلنجرز کو کامیابی کے ساتھ سنبھالتا رہا ہے تاہم چین نے جب سے اپنے سمندری اثر و رسوخ اور علاقائی توسیع (Territorial Expansion) کا آغاز کیا ہے تب سے امریکہ و چین کے مابین سرد جنگ کا ماحول ہے۔
انیسویں صدی میں مشہور برطانوی سیاستداں Halford John Mackinder نے کہا تھا کہ دنیا پر دھاک بٹھانے کے لیے علاقائی توسیع (Territorial Expansion) نہایت ضروری ہے۔ اسی طرح
بیسویں صدی کے اوائل میں مشہور امریکی مؤرخ Alfred Thayer Mahan نے کہا تھا کہ جس ملک کا کنٹرول سمندر پر ہوگا وہی دنیا پہ حکمرانی کرے گا۔
چین کی سوشل میڈیا پر یہ خیال عام ہے کہ کرونا وائرس امریکہ کی طرف سے چین پر ایک بڑا حملہ ہے اور اسے وسیع پیمانے پر ایک مشترکہ سازشی نظریہ بتایا جا رہا ہے۔
یہ کہا جا رہا ہے کہ Military World Games – 2019 میں جن امریکی فوجیوں نے حصہ لیا تھا انہوں نے ووہان (Wuhan) کے Hunan Seafood Market میں وائرس پھیلا دیا۔
ان کا نعرہ تھا کہ ایک نئی قسم کی حیاتیاتی جنگ (Biological Warfare) آرہی ہے۔
لہذا چین کے ایک سوشل ایکٹیوسٹ نے چین میں ایک مستقل بائیو ڈیفنس فورس (Biodefense Force) کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔
اسی طرح 2002 میں عام ہونے والے سارس وائرس کے بارے میں بہت سارے چینی سائنسدانوں نے تسلیم کیا تھا کہ سارس (SARS) ایک حیاتیاتی ہتھیار (Biological Weapon) تھا جو امریکہ نے تیار کیا تھا۔
چین کے کچھ فوجی ماہرین نے امریکہ پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ اس نے ایوین فلو وائرس (Avian Flu Virus) کو بطور ہتھیار استعمال کیا اور اس نے Antibiotic-Resistant Anthrax Strains تیار کر لیا ہے۔
ایک روسی سائنسدان نے اس وقت کہا تھا کہ سارس کے اندر خسرہ (Measles) اور ممپس (Mumps) کا مرکب ہے جسے صرف لیب ہی میں بنایا جاسکتا ہے۔
US Centres for Disease Control and Prevention (US CDCP)
کے مطابق سارس کے متاثرین میں 58 فیصد گورے اور 32 فیصد ایشیائی افراد تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ بائیو ٹیررازم (Bioterrorism) میں بہت پہلے سے متحرک اور فعال ہے۔یہی وجہ ہے کہ 1960میں ہارورڈ یونیورسٹی کے مشہور ماہر حیاتیات (Biologist) میتھو میسلسن (Mathew Meselson) نے حیاتیاتی ہتھیار کے خلاف امریکہ میں ایک کامیاب تحریک چلائی تھی۔
1969 میں امریکہ نے اس بین الاقوامی معاہدہ سے اتفاق کیا تھا جسے Biological Weapons Convention – BWC کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس معاہدے میں حیاتیاتی ہتھیار کی نشوونما اور ذخیرہ اندوزی کو ممنوع قرار دیا گیا تھا اور اس کے متعلقہ عناصر کی ترسیل و تجارت پر پابندی لگائی گئی تھی۔
اس معاملے پر امریکی نقطہء نظر کی وضاحت کرتے ہوئے صدر رچرڈ نکسن نے کہا تھا کہ ہم کبھی بھی جراثیمی ہتھیار استعمال نہیں کریں گے؛ لیکن اگر ہمارے خلاف کوئی اسے کرے گا تو ہم اس کا بھرپور جواب دیں گے۔
2001 میں جارج واکر بش انتظامیہ نے
Biological Weapons Convention – BWC
کے مجوزہ پروٹوکول کو مسترد کر دیا تھا اور یہ وجہ بتائی تھی کہ یہ پروٹوکول زمینی سطح پر اس مقصد کے لیے ناکافی ہے۔ اس انکار نے چینی ماہرین کے اس شبہ کو یقین میں تبدیل کردیا تھا کہ امریکہ حیاتیاتی ہتھیار کی تیاری میں مصروف ہے۔
2007 میں چین کے کچھ فوجی محققین نے ایک مضمون شائع کیا جس میں امریکہ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ مختلف قسم کے حیاتیاتی ایجنٹس سے نئے قسم کا حیاتیاتی ہتھیار تیار کر رہا ہے اور اس کےلئے متعدد ٹکنالوجی بروئے کار لا رہا ہے۔
ان محققین نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ واشنگٹن کے دفاتر پر ہوئے حملہ میں جو انتھراکس پائے گئے تھے وہ امریکہ کی ملیٹری لیب سے آئے تھے۔
2008 میں جب H5H1 برڈ فلو ایک بڑا مسئلہ بن گیا تھا اس وقت انڈونیشیا کے وزیر صحت سیتی سپاری (Siti Supari) نے امریکہ پر حیاتیاتی ہتھیاروں کو تیار کرنے کے لیے وائرس ایجنٹس استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا اور جکارتہ میں جاری امریکی بحریہ کے میڈیکل ریسرچ یونٹ کے آپریشن کو معطل کر دیا تھا۔
3.
کرونا وائرس چین کے حیاتیاتی لیب کا ایک حادثہ ہے۔ اس کو بایو سیفٹی حادثے (Biosafety Accident) کے طور دیکھا جا رہا ہے کہ کرونا وائرس لیب ریسرچ کے دوران لیب سے باہر آگیا اور سائنسداں اس کے درست پروٹوکول پر عمل نہیں کرسکے۔
ووہان انسٹیٹیوٹ آف وائرولوجی میں چین کا سب سے بڑا بایو سیفٹی سینٹر BSL – 4 بھی شامل ہے۔ اس کے محققین میں ایک نام شی زینگلی (Shi Zhengli) کا ہے۔ شی زینگلی نے اپنا نام Batwoman رکھا ہوا ہے۔ اس نے چمگادڑ اور دیگر ایجنٹس سے کرونا وائرس تیار کیا ہے۔ لیکن شی زینگلی نے اس الزام کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ قدرت لوگوں کی غیر مہذب زندگی کی وجہ سے ان کو سزا دے رہی ہے۔
چینی حکومت نے ووہان انسٹیٹیوٹ آف وائرولوجی کے BSL-4 کے ہیڈ کو تبدیل کر دیا ہے۔اب چن وی (Chen Wei) کو BSL-4 کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ چن وی چین کا سب سے ماہر بایووار فیئر ہے۔
اس نئی تقرری نے اس شبہ کو گہرا کر دیا ہے کہ Wuhan Institute of Virology کا BSL-4 ہی وہ مرکز ہے جہاں سے کرونا وائرس لیک ہوا۔
14 فروری 2020 کو چینی صدر شی چن پنگ (Xi Jinping) نے اپنی قومی سلامتی کے لیے بایو سیکورٹی اور بایو سیفٹی کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔
جیفانگ ڈیلی (Jiefang Daily) سے منسلک ویب سائٹ پر ایک پوسٹ شائع ہوا۔ اس کے مطابق چند امریکی CDC ماہرین جاسوسی کے لیے ایک فوجی مشن پر آسکتے ہیں؛ تاکہ وہ وائرولوجی (Virology) میں چین کی صحیح صلاحیت کا اندازہ لگا سکیں۔
فروری 2020 میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن WHO کا ایک وفد چین کے دورے پر آیا تھا۔ اس وفد میں امریکہ کے دو ماہرین بھی شامل تھے۔ لیکن یہ وفد ووہان کے وائرولوجی انسٹیٹیوٹ (Wuhan Institute of Virology) نہیں جاسکا۔
حیاتیاتی ہتھیار کی دنیا میں چین کافی تاخیر سے میدان میں آیا۔دوسری جنگِ عظیم میں جاپان نے یونٹ 731 پروگرام میں دس ہزار سے زائد قیدیوں پر حیاتیاتی ہتھیار کے تجربات کئے۔ تیس ہزار سائنسدانوں نے وسیع پیمانے پر انسانی جانوں سے کھیلنے کا ایسا مظاہرہ کیا کہ تاریخِ انسانی ہی شرما جاتی ہے۔ چوہوں پر کئے گئے کامیاب تجربات بعد ازاں چانگٹے شہر میں دس ہزار چینی باشندوں کی موت پر انجام پذیر ہوئے۔
ان حالات نے اس وقت کے چینی وزیراعظم چاؤ انلائی (Zhou Enlai) کو پریشان کر دیا اور 1951 میں اس نے
Academy of Military Medical Science – AMMS
قائم کیا۔
2014 میں AMMS نے چین کی دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ مل کر ایبولا وائرس (Ebola Virus) کا اینٹی تیار کیا تھا۔
1990 کی دہائی میں چین کے سرکاری ذرائع نے اطلاع دی کہ چینی سائنسدانوں نے نادر زمین (Rare Earth) کو ایک میڈیم کے طور پر استعمال کیا جس میں بہت تیزی سے بروسیلوسس (Brucellosis) کاشت کی جا سکتی تھی۔ بروسیلوسس ایک موزوں حیاتیاتی ایجنٹ ہے۔
وائرس کے کئی حادثے چین میں حالیہ دنوں میں رونما ہوئے۔مثال کے طور پردسمبر 2019 میں Lanzhou Veterinary Research Institute میں کام کرنے والے 65 افراد بروسیلوسس (Brucellosis) سے متاثر ہو گئے تھے۔
جنوری 2020 میں مشہور چینی سائنسداں لیننگ (Li Ning) کو بارہ سال قید کی سزا سنائی گئی کیونکہ وہ مقامی مارکیٹ میں تجربات شدہ جانور فروخت کر رہا تھا۔
درج بالا تفصیلات کے مختلف جہات اس بات کو بتاتے ہیں کہ کرونا وائرس حیاتیاتی جنگ کا ایک نیا عنوان ہے۔اگرچہ حقائق اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ وائرس غلطی سے ووہان لیب سے لیک ہوا تاہم نمبر 2 اور نمبر 3 کی آراء ایک لحاظ سے مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا حیاتیاتی ہتھیار کی دوڑ میں بدترین تحقیقات میں مصروف ہے۔دجالیت اور حیوانیت کا عفریت انسانیت کو نگل رہا ہے۔ موجودہ حالات اہل ایمان سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ظاہری نظافت کے ساتھ باطنی طہارت سے اپنے آپ کی حفاظت کریں۔
Talib Jalal
Darul Asr (New Delhi)
[email protected]
+918585904033
Comments are closed.