ملک کے موجودہ حالات سے دعوتی فائدہ اٹھایاجائے

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی

(مہدپور ضلع اجین، ایم پی)

دعوت ایک نظریاتی جنگ
(Ideological struggle)
ہے۔ یہ جنگ جیتنا ایسے موقع پر نسبتا زیادہ آسان ہوتا ہے، جب اسلام کے سلسلے میں مخالفین لوگوں کو کسی خاص نکتے کی طرف متوجہ کرتے ہیں، اس وقت اسلام مخالف پروپیگنڈے کے نتیجے میں حق پسند طبقہ اسلام کی صحیح تصویر دیکھنے اور سمجھنے کا خواہاں ہوتا ہے، اس لیے ایسے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی دعوتی ذمہ داری کی ادائیگی میں تندہی سے کام لے کر ہمیں نظریاتی فتح حاصل کرنی چاہیے۔ یہ ایسا موقع ہوتا کہ ہم دعوتی میدان میں اسلامک امپائر (Islamic Empire) قائم کرسکتے ہیں، جو مغل اور عثمانی امپائر سے بھی بہت بڑی امپائر ہے۔
انٹرنیٹ اشاعتِ اسلام کے لئے خدائی نعمت ہے۔ میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی جھوٹی باتوں سے لوگوں کی ذہنی تطہیر عام طور پر مشکل تھی؛ لیکن انٹر نیٹ (Internet) نے بالکل آسان کردیا۔ کسی بھی کذب بیانی کے خلاف آپ اپنی بات اس کے وساطت سے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ آ ج ہم کسی غار میں بیٹھ کر اللہ کے دین کو دنیا کے ہر کونے اور دنیا میں موجود اکثر مکانات تک لوگوں کے بستر پر بھی پہونچا سکتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ پوری قوت و مستعدی کے ساتھ ہم جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کریں۔
ملک میں جس طرح اسلام اور مسلمانوں کے خلا ف حالات بنائے جارہے ہیں۔ اسی کے ساتھ عداوت سے مغلوب ہو کر یا پھر پروپیگنڈے کی وجہ سے اسلام کو سمجھنے کی لہر بھی چل رہی ہے۔ اسلام شیشہ (GLASS) اور آئینہ (Mirror) کی طرح بے غبار اور کھول کر بیان کیا جانے والا مذہب ہے۔ عداوت سے مغلوب ہوکر جو لوگ قرآن اور اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں ان میں بھی بہت سے ایسے ہیں کہ جب ان کی سامنے اسلام کی صحیح تصویر آجاتی ہے تو وہ دولت اسلام سے مشرف ہو کر دین محمدی (علی صا حبھا الصلوۃ والسلام) کی نصرت و اشاعت میں مصروف ہوجاتے ہیں؛ اس لئے حالات سے مایوس ہونے کے بجائے جدید ذہن کو سمجھ کر دعوت کے لئے نئے وسائل کو استعمال کیا جائے۔نومسلم بھائیوں کے ساتھ داعی مزاج، تربیت یافتہ، دین دار لوگ وقت دیں۔ تدریج کے ساتھ ان کی تربیت کی جائے اور مسلسل اپنائیت کا احساس کرایا جائے۔نومسلم افراد ماشاء اللہ دعوتی کاموں کو بہتر ڈھنگ سے کرتے ہیں، اس لئے انہیں زیادہ سے زیادہ دعوتی کاموں کا موقع فراہم کیا جائے۔
داعی کو ان لوگوں سے اپنی ذات کے لئے کوئی مطالبہ نہیں کرنا چاہیے جن کو دعوت دے رہا ہے۔
ہزاروں سال سے مظلومیت کی چکی میں پِس رہی قوموں کو بیدار کرکے ہمیں ان سے مستقل تعاون حاصل کرنے کا صرف یہی راستہ ہے کہ انہیں اسلام کی دعوت دے کر مشرف بہ اسلام کیا جائے، اس کے بعد یہ لوگ خود اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کریں گے، اور،اسلام کی شوکت کا باعث بنیں گے۔ یاد رکھیں ایک نقطے پر متحد ہونے کے لئے دلتوں کے پاس کوئی مضبوط تصور نہیں ہے؛ اسی وجہ سے ان کا کوئی ایسا نصب العین نہیں ہے، جس کی بنیاد پر تمام دلت اور پسماندہ اقوام ایک ہوکر خود اپنا بھلا کر سکیں۔پورے بھارت میں اسلامی تصور و اعتقاد (Islamic concept) ہی انہیں متحد کرکے برہمنی مظالم سے بچا سکتا ہے، اسلام قبول کرنے کے بعد ہی پسماندہ اقوام اور مسلمانوں کے وہ ہمدرد بن سکتے ہیں۔
دعوتی کام میں اگر کچھ ہم مزاج لوگوں کی شرکت ہوجائے تو کام آسان ہو جاتا ہے، اور بہتر نتائج سامنے آتے ہیں، اس لئے مختلف شہروں میں مراکز قائم کرکے جماعت بناکر علماء حق کی نگرانی میں دعوت کا کام کرنا چاہیے۔ دعوت کے لئے "کلمہ سواء” ہمارا مستقل نصب العین نہیں ہے؛ کیوں کہ اس کی ضرورت صرف آ غازِ دعوت میں ہوتی ہے، بعد میں بقیہ چیزیں تدریجی طور پر خود بخود اس کا حصہ بنتی چلی جاتی ہیں۔ اللہ تعالی اپنے دین کے کام کے لئے کسی کا محتاج نہیں ہے، اگر کوئی دین و دعوت کا کام کرتا ہے تو اسے اللہ کی طرف سے توفیق بخشی گئی ہے؛ ا س لئے وہ کیسی ہی کم زیادہ صلاحیت والا ہو، اسے اپنے کام میں دلجمعی سے مصروف ہو جانا چاہیے، اور اپنے کام میں کا میابی کے لئے اللہ کی طرف اس کو برابر رجوع کرتے رہنا چاہیے۔ ع

اندھیروں کا تسلط ہے یہاں
روشنی بن کر گزرنا چاہیے۔

Comments are closed.