فسادات کے موقع پر اہم احتیاطی باتیں

محمد اشرف قاسمی خادم الافتاء شہر مہدپور ضلع اجین (ایم پی)
1۔ عام حالات میں قانون ہاتھ میں لینے کے بجاۓ پولس اسٹیشن، محلہ کمیٹی، پنچایت کو فورا اطلاع دیں۔
2. بےجا شور شرابہ، ڈینگ ڈانگ،اور خواہ مخواہ کی نعرہ بازی بہت مضر ہے، اس سے بچیں۔
3۔ عورتوں، بچوں تک کو ویڈیو ریکارڈنگ سکھائیں اور جب گھروں میں فسادی یا سرکاری اہل کار غیر قانونی کارروائی کریں توخاص طور سے عورتیں بچِے اس منظر کی بہر حال ویڈیو ریکارڈنگ کریں۔
آج ایک بجے سرکاری اہل کاروں اور فسادیوں کی طرف سے "رنگریز باکھل” میں خلاف قانون کارروائی ہوئی؛ لیکن اس کارروائی کی کوئی ویڈیو ریکاڈنگ نہیں ہوسکی۔ یہ بھی افسوس ناک بات ہے۔
4۔ حالات جب قابو سے باہر ہو رہے ہوں تو ایسے موقع پر اپنی حفاظت اور بچاؤ کی تدبیروں کے ساتھ ہی دوچار مکانات کی شکل میں آباد اپنے بھائیوں کو فورا حالات سے باخبر کرکے محفوظ مقام پر پہونچانے کی فکر کریں۔
اس سلسلے میں ہونے والی کوتاہی کے بارے میں میری اپنی مثال شاید کم از کم میرے لئے اور دوسرے سنجیدہ لوگوں کے لئے سبق آموز ہوگی۔
آج رات شہر مہدپور میں ساڑھے دس بجے حالات خراب ہوۓ، میرا مکان شہر سے صرف ایک لائن مکانات کی فصیل سے لگ کر نئی کالونی میں ہے، جہاں فی الحال پانچ یا چھے مکانات میں اہل ایمان رہتے ہیں۔ اس کالونی سے متصل آباد علاقے میں تصادم کا شور ہمارے کانوں میں آرہا تھا۔ کسی دوسرے شہر سے کسی نے بذریعہ فون مجھے محفوظ مقام پر جانے کے لئے کہا۔ میں نے دروازہ کھول کر باہر اپنے بھائیوں کے مکانوں پر نظر ڈالی، تو پتہ چلا دو مکان بالکل خالی ہیں۔ میرے علاوہ صرف ایک مکان میں اس کے مکین ہیں۔ شہر کے کچھ ذمہ داروں سے رابطہ کیا تو ان لوگوں نے مجھے اپنے یہاں محفوظ مقام پر شفٹ کرنے کے لئے کہا؛ لیکن پھر ایک ہی مکان کے مکین باقی بچتے، نیز دینی وضع قطع کے ساتھ ہمارا اور ہمارے چھے فیملی ممبران کا شہر میں کچھ طویل مسافت تک چلنا مناسب نہیں تھا؛ اس لئے پاس ہی کے دوسرے مکان میں شفٹ ہوگئے۔ شفٹ ہوتے وقت ہم اپنے مکان میں لاک بھی نہ لگا سکے۔
وہاں پہونچ کر معلوم ہوا کہ ان کے غیرمومن پڑوسی اپنی چھت سے انہیں اطمینان دلارہے ہیں۔
رات کسی طرح گذری، صبح میری بچی نے اسی پڑوسی کے بارے میں بتایا کہ ان کو پولس پکڑ کر لے گئی تھی۔ (شاید مس گائڈ کے لئے میری بچی کے ذریعہ مجھ تک ایسی بات پہونچائی گئی)
بعد میں پتہ چلا کہ رات میں شاہین باغ کی خواتین پر حملہ آور افراد کی گرفتاری کے خلاف، دوسرے طبقہ کے افراد صبح سے ہی پولس تھانہ پر دباؤ بنانے کے لئے بڑی تعداد میں پہونچے تھے، ان میں ہمارا وہ غیر صاحب ایمان پڑوسی بھی شامل تھا۔ اس میں اپنی شمولیت کے اخفا کے لئے اس نے اپنی گرفتاری کی کہانی بچوں کی معرفت مجھ تک پہونچائی۔
ہم صبح بعد نماز فجر اپنے گھر پر واپس آگئے۔ تقریبا ایک بچے شور سنائی پڑا۔ فون کے ذریعہ معلوم ہوا کہ اہل ایمان کے محلوں میں سرکاری اہل کار گھروں میں داخل ہو کر اندھا دھند گرفتاریاں کر رہے ہیں۔ صبح تھانہ پر دوسرے طبقہ کے دباؤ اور اصرار پر یہ کارروائی ہو رہی تھی۔ جس میں گھروں میں فریج، ٹیلی ویزن، واشن مشین، موٹر سائیکل وغیرہ سامانوں کی توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔
جس میں ہمارے ایک کرم فرما کے مکان کو بھی نشانہ بنایا گیا جنہوں نے شب میں اپنے اسی گھر میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ شفٹ کرنے کے لیے مجھے کہا تھا۔،صبح کی کارروائی میں اس گھر کا دروازہ ٹو ٹ چکاتھا اور گھر کے سامان بھی تباہ ہوچکے تھے۔ مرد حضرات اپنے اس گھر سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔
شورشرابہ سن کر ہم اپنے بچوں کے ساتھ پھر اسی مکان میں آگئے۔
اس کے بعد مجھے پھر محفوظ مقام پر لانے کے لئے شہر سے متعدد لوگوں کے فون آئے۔ لکھنے پڑھنے کے تمام کام مجھے موقوف کرناپڑا۔ کل رات دس بجے سے آج شام چھے بجے تک ہم الجھن میں رہے۔ ہماری مولوی برادری (یہاں جن کے کنبہ، خاندان، گھر، کھیت، دوکان، کاروبار سب کچھ ہیں) حالات کی اصلاح میں ایسی مصروف رہی کہ جو دوچار مکانات پر مشتمل اہل ایمان آباد ہیں، کسی محفوظ مقام پر شفٹ کرنے کا انہیں دھیان نہیں رہا ہوگا۔ میں خود آج شام تک اپنی مولوی برادری کی توجہ کا منتظر رہا؛ لیکن ان کی اپنی مصروفیات کی وجہ سے شاید انہیں اس کی اجازت نہ مل سکی۔
ایسے موقع پر یقینی حد تک احساس ہوا کہ بر وقت جہاں بہت سے کام کیے جاتے ہیں وہیں دوچار مکانات کی شکل میں اپنے بھائیوں کو فورا کسی محفوظ مقام پر شفٹ کرانے کی فکر کرنی چاہیے۔
یہ مایوس کن حالات آج شب سے ابھی تک میرے تجربے میں آئے ہیں، اس لئے یہ نکتہ کچھ طویل ہوگیا۔
والسلام
طالب دعا:
محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاء شہر مہدپور
ضلع اجین (ایم پی)
2020/03/15ء
Comments are closed.