اگلاہدف کون؟

سمیع اللہ ملک
امریکا نے طالبان سے افغان امن معاہدے کے تحت افغانستان سے فوج کا انخلا شروع کردیاہے جس کامقصد ملک میں امن قائم کرناہے۔امریکانے معاہدے کے تحت 135 دن کے اندرافغانستان میں اپنی فوج کو12 ہزارسے کم کرکے8600کرنے پراتفاق کیاتھا۔ افغانستان سے امریکی فوجیوں کوواپس بھیجناامریکااورطالبان کے درمیان 29 فروری کوہونے والے تاریخی امن معاہدے کی ایک شرط تھی۔افغان حکومت نے اس معاہدے میں حصہ نہیں لیاتاہم یہ توقع ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرے گی۔اشرف غنی نے ابتدامیں کہاتھاکہ وہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی شرط کے طورپرطالبان قیدیوں کورہاکرنے کے معاہدے پرعمل نہیں کریں گے لیکن افغان اشرف غنی نے9 مارچ ک دوسری مدت کیلئے صدر کے عہد کا حلف اٹھاتے ہی ایک ہزارطالبان قیدیوں کی رہائی کاعندیہ دیاہے۔
گذشتہ ہفتے ہلمند میں افغان فورسزپرطالبان کے حملے کے جواب میں امریکی فضائی حملہ کے بعد امن معاہدہ ٹوٹتادکھائی دیاتھا۔ طالبان نے جنگی کاروائیوں میں کمی کامطالبہ کیاتھا جس کے جواب میں افغانستان میں امریکی افواج کے ترجمان کرنل سونی لیگٹ نے امریکی فوجیوں کے انخلا کے پہلے مرحلے کااعلان کیا۔ کرنل لیگٹ نے ایک بیان میں کہا کہ امریکا نے فوجیوں کی واپسی کے باوجود افغانستان میں اپنے تمام مقاصد کے حصول کیلئے تمام فوجی وسائل اورحکام کوبرقراررکھاہے۔امریکااور اس کے نیٹواتحادیوں یطالبان کی جانب سے معاہدے کوبرقراررکھنے کی صورت میں 14ماہ کے اندرتمام فوج واپس بلانے پراتفاق کیاہے۔اس معاہدے کے تحت طالبان نے حملوں سے گریزکے ساتھ ساتھ القاعدہ یاکسی اورشدت پسند گروہ کو اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں آپریشن کرنے کی اجازت نہ دینے پراتفاق کیاہے۔
یادرہے کہ اس جنگ میں امریکی فوجی افسران کے بیانات پرمشتمل دستاویزات میں انکشاف کیاگیاہے کہ افغان جنگ کی لاگت اورعسکری حکام کی ہلاکتوں سمیت دیگر حقائق عوام سے چھپائے گئے ہیں۔ امریکا کے معتبراخبارواشنگٹن پوسٹ کے مطابق 2ہزارصفحات پرمشتمل خفیہ دستاویزات میں امریکی فوجی افسروں اور اہلکاروں کے انٹرویوز شامل ہیں۔ دستاویزات میں انکشاف کیاگیا کہ افغان جنگ پرایک ٹریلین امریکی ڈالر خرچ ہوئے،خواتین سمیت 2400 فوجی ہلاک اور20 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ اخبار نے یہ معلومات سرکاری ادارے اسپیشل انسپکٹرجنرل فارافغانستان ری کنسٹرکشن سے حاصل کی ہیں اور تمام معلومات ویت نام جنگ کے بارے میں پینٹاگان کی دستاویزات سے ملتی جلتی ہیں۔امریکاکے ریٹائرڈنیوی افسرجیفری ایگرزکے مطابق اسامہ اپنی قبرمیں ہنس رہاہوگاکہ ہم نے اس شکست پرکتناپیسہ خرچ کرڈالا۔انسداد دہشتگردی کے ماہرکرنل باب کراؤلی کے مطابق امریکی حکومت جنگ کی بہترین تصویردکھانے کیلئے ہرچیزکاڈیٹاتبدیل کردیتی تھی اورہمارے سروے بھی مکمل غلط ہوتے تھے۔دستاویزکے مطابق افغانستان میں امریکی فوج اپنے اصل دشمن سے ہی مکمل آگاہ نہیں تھی،کمانڈروں کویہ نہیں بتایاجاتاتھاکہ ہمارے دشمن طالبان ہیں،القاعدہ ہے یاداعش۔افغانستان میں بھیجے جانے والے امریکی فوجیوں کویہ بھی علم نہیں ہوتاتھاکہ یہ غیرملکی جنگجو ہیں یاسی آئی اے کے پے رول پرکام کرنے والے جنگجوسردارہیں۔امریکاکیلئے اچھے طالبان کون اوربرے کون ہیں اوروہ کہاں رہتے ہیں ۔ یہ معلومات ایسے موقع پرسامنے آئیں جب امریکاطالبان کے ساتھ دوحہ میں مذاکرات کررہاتھا۔
امریکی وزارت دفاع کے مطابق افغانستان میں اکتوبر2001سے مارچ2019تک عسکری اخراجات760ارب ڈالرتھے جنگی اخراجات کے حوالے سے بران یونیورسٹی نے ایک تحقیق شائع کی کہ وزارت دفاع نے اس رقم میں سابقہ فوجیوں کودیے جانے والے اخراجات،جنگ سے متعلق دیگرڈیپارٹمنٹس کودی جانے والی امدادکوجنگ کیلئے لیے گئے قرض پرادا کیاگیا سودشامل نہیں کیا۔اضافی عوامل کوملاکراخراجات ایک کھرب کے قریب بنتے ہیں۔
اب کوئی امریکاروس اوران کے اتحادیوں سے پو چھے کہ سات سمندرپارسے ہزاروں میل کی مسافت طے کر کے کبھی مشرق وسطی کبھی خلیج کی ریاستوں کبھی جنوبی ایشیااورسینٹرل ایشیا میں لاؤلشکراورسازشیں لیکرکیوں نازل ہوتے ہیں۔اس کاجواب یہ ہے کہ یہ قوتیں موت فروخت کرنے اورزندگی خریدنے آتی ہیں۔ان کی اس خواہش میں مہم جوئی توسیع پسندی مجرمانہ کاروبارطاقت کا بیجااستعمال اورمذہبی جنونیت کاعنصربھی شامل ہے اگران قوتوں کوانسان اورانسانیت امن وآشتی سے الفت ہوتی،اگرانہیں غربت جہالت مفلسی بیماری سے نفرت ہوتی تویہ دنیاجنت کانظارہ پیش کررہی ہوتی۔ان مقاصدکوپانے کیلئیجنگ وجدال،آگ وخون کے سمندرسے دنیا کونہیں گزرناپڑتا،نہ گولہ بارودکی ضرورت ہوتی بس صرف جیواورجینے دو،انسان اورانسانیت کے اعلی اصولوں کی پاسداری طاقتوراورکمزورکابرابری کی بنیادپراحترام بلاامتیازرنگ ونسل ومذہب،باہمی احترام کسی قوم کی آزادی اس کی سرحدوں کے تقدس کوتسلیم کرنابنیادی شرائط ہیں۔ایک اہم پہلویہ بھی ہے کہ کسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنابہت ضروری ہے مگرموت کے سوداگراورزندگی کے خریدار یہ نام نہادامن وآشتی کے دعویدارجنہوں نے اپنے ملکوں کے چاروں طرف طویل اوردیوقامت حفاظتی دیواریں اورفصیلیں بنارکھی ہیں،ان میں بسنے والے انسان بھی نظرآتے ہیں اورانسانیت سے بھی واقف ہیں،آزادبھی ہیں اورگولہ بارودکے زہرسے محفوظ بھی۔ غریب بھوک و افلاس وبیماری کے مارے کمزورناتواں انسان اور ممالک بچارے کیاان کی سرحدوں میں دراندازی کرسکیں گے۔یہ ملکہ توان شکارکی تلاش میں محوپروازعقابوں کوحاصل ہے جو جہاں چاہیں حملہ آورہوجائیں اورانسان اور انسانیت کے جسم سے بوٹی بوٹی نوچ لیں۔
خونی عقابوں کاٹولہ جوننگے بھوکے انسانوں کی لاش کوگولہ بارودمیں بھون کرنوچنے والے دہشتگرد عقاب اپنے ہی ہاتھوں ستائے ہوئے انسانوں میں دہشتگرد تلاش کرکے شکارکرنے پرآمادہ اوربضدہیں۔ان دہشتگردعقابوں کے اپنے بھی کوئی اصول نہیں ہیں اورشکارکی تلاش میں کبھی خودبھی دست وگریباں ہوتے رہے ہیں۔1950میں برطانیہ فرانس اور امریکا نے ایک سہ فریقی معاہدہ کیاتھاجس کے تحت مشرق وسطی کی تمام سرحدوں کی سلامتی کی ضمانت اس شرط پردی گئی تھی کہ کوئی فریق جارحیت کاارتکاب نہیں کرے گامگرحرص و ہوس کے مارے مغرب کوکہاں قرار۔6سال ہی اس معاہدے کوگزرے تھے کہ برطانیہ اورفرانس نے نہرسویزپرحملہ کردیا،یہ ایک الگ داستان ہے۔سردست امریکااوراس کے موجودہ اتحادیوں کے تین بنیادی مفادات زیرِقلم ہیں۔پہلامفادیہ ہے کہ خلیج کے ممالک سے جہاں سے دنیاکی60فیصد تیل کی ضرورت پوری ہوتی ہے ان کے وسائل پر قبضہ کرکے اس علاقہ میں ان کی اجارہ داری قائم ہو۔(اس دوڑمیں سوویت یونین بھی شامل رہاہے)امریکی پالیسی کے تحت امریکااسرائیل کی سلامتی کی ضمانت فراہم کرنے کے علاوہ اس کی آزادی اوروجودکواس قدرمضبوط کرناچاہتاہے کہ اسرائیل کے خوف سے عرب ممالک پریشان اوردبے رہیں اوراس کی آڑمیں امریکی پالیسوں کوعربوں پرمسلط کیاجاتا رہا جبکہ دوسری حکمت عملی یہ ہے کہ بعض عرب ریاستیں جن میں سعودی عرب،مصر،اردن اورخلیج کی دیگربادشاہت اورحاکمیت پرمشتمل ریاستوں کے اقدارکے تحفظ اوراسرائیلی خوف سے نجات دلانے کی یقین دہانی پرنام نہاددوستی کے نام پرامریکانے ان کی معیشت اقتصادیات اوردفاعی شعبوں پراپنی اجارہ داری قائم کرلی ہے،سلامتی کے خوف میں مبتلاسعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ریاستوں میں امریکی فوجیں موجود ہیں۔ایک طرف امریکی فوجوں اورساماں حرب کے اخراجات ان ممالک کوبرداشت کرنے پڑرہے ہیں تودوسری طرف امریکی فوجوں کی ان ریاستوں میں موجودگی اسرائیل کیلئے تحفظ اورسلامتی کا باعث ہیں۔
ایران میں انقلاب کے بعدامریکااپنے ایک معتمد سے محروم ہوگیا۔اس تبدیلی کے باعث امریکانے سریع الحرکت فوج تیارکی جس کامقصدخلیج اورساری دنیامیں اپنے مفادات کا تحفظ بذریعہ طاقت کرناتھا۔عراق،شام،لبنان امریکی تسلط سے آزادمگرسوویت یونین کے زیراثرتھے۔ایران کوکھونے کے بعدامریکانے عراق کواپنے حصارمیں لے لیاچونکہ ایران عراق میں سرحدی ودیگرایشوزپر شدیداوردیرینہ اختلافات اورتنازعات تھے،امریکااس کافائدہ اٹھاکرایران کے انقلاب کوناکام بنانے کیلئے دونوں میں تصادم کرانا چاہتا تھا اوراسے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہوئی۔ 8سالہ عراق ایران جنگ نے دونوں ملکوں کوشدیدجانی ومالی نقصانات سے دوچارکیاجبکہ اسلحہ سازفیکٹریاں رکھنے والے امریکا سمیت دیگرممالک نے ان دونوں ممالک کو83بلین ڈالرکااسلحہ فروخت کیا۔
ایران کوبھی سرحدی تنازعات اوردیگردعوں کی تکمیل صدامی اقتدارکے خاتمے میں نظرآئی۔جنگ کی بساط بچھائی گئی۔خلیج کی ریاستوں کوعدم تعاون کاسگنل دیاگیا،خلیج سے باہر اسلامی ملکوں کوجنگ میں شرکت کی دعوت دی گئی یاغیرجانب داررہنے کوکہاگیا۔مغربی اتحادیوں کے یہاں جنگ کاطبل بجایاگیا۔ریہرسل شروع کردی گئی۔خلیجی ریاستوں کو اپنے تحفظ کے نام پراسلحہ خریدنے کاحکم دیاگیا۔اس خلیجی جنگ کی وجہ سے امریکی دفاعی صنعتوں کوتقریبا290 بلین ڈالرصرف خلیجی ممالک کی طرف سے ملے تھے جس میں سعودی عرب نے تقریبا60بلین ڈالرکااسلحہ امریکاسے خریدا۔
امریکی ایما پراسرائیل عراق سے چھیڑ چھاڑاورفلسطینیوں پرمظالم کی رفتار بڑھاچکاتھا۔ماسوائے دوتین ممالک کے تمام خلیجی ریاستیں عراق کے خلاف امریکاکے پہلومیں کھڑی
تھیں ۔امریکی ایماپرکردوں کی تحریک میں تیزی آچکی تھی۔امریکی خفیہ ایجنسیاں اورادارے فرقہ وارانہ صوبائیت لسانیت اورعلاقائیت کے سوئے ہوئے فتنے کوجگانے میں کامیاب ہوچکے تھے۔ عراقی تینوں افواج میں نفاق کی سازشیں کامیاب ہوچکی تھیں،سیکولرازم اوراشتراکیت کاپرچارکرنے والے صدام کاخیال تھاکہ وہ مختلف المذاہب اورفرقہ واریت اورصوبائیت کے فتنے کوختم کرکے ایک عراقی قوم پرست عوام تیارکرچکے ہیں۔ اظہاررائے کی آزادی سے محروم عراقیوں کے اندرپکنے والالاواتب سامنے آیا جب امریکا جوعراق پرایٹمی وکیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا الزام لگاکراپنی پوری قوت اورطاقت کے ساتھ عراق پرحملہ آورہوا،اورعراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی پوراعراق آگ وخون میں نہلادیاگیا۔ہزاروں عراقی بلاامتیازبوڑھے،جوان بچے خواتین بے رحمی سے شہیدکردئیے گئے،مقدس مقامات کونشانہ بنایاگیا ۔ مظالم کے ایسے خوفناک پہاڑ توڑے گئے کہ ساری دنیانے ابوغریب جیل میں مسلمانوں کی غیرت کے جنازے نکلتے دیکھے۔
عراقی فرقہ واریت صوبائیت اورعلاقائیت کی بنیا دپرباہم متصادم ہوئے۔ عراقی عوام یکجہتی برقرارنہ رکھ سکے اورعراق کی افواج نے صدام سے غداری کی۔تمام جہاز،میزائل اور سامان حرب دھراکادھرارہ گیا۔امریکاکولتاڑنے پرصدام کوپھانسی پرچڑھا دیاگیا۔تین دہائیوں کے بعدمصرمیں منتخب حکومت نے اپنی خودمختاری کاجونہی احساس دلایافوری طورپر اس کادھڑن تختہ کرکے اپنانمائندہ سامنے لے آئے۔خلیجی ریاستوں کے بادشاہوں اورحکمرانوں کے اقتدارکواس وقت تک کوئی خطرہ نہیں جب تک وہ امریکااورمغرب کے تابعدار ہیں البتہ یمن کے مسئلے پرایران اورعرب ممالک میں مستقل مخاصمت برقرار رکھی جائے گی۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعداب اس خطے میں امریکی اوراسرائیلی مفادات کو قطعاًکوئی خطرہ نہیں ہے۔اب دیکھنایہ ہے کہ امریکااوراس کے اتحادیوں کااگلا ہدف کون ہے؟
Comments are closed.