حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا غیر مسلموں کے ساتھ سلوک ۔ ۔ ۔

شاداب انظارندوی
مینیجنگ ڈائرکٹر مدنی اسکول
پاکٹولا سیتا مڑھی (بہار)

اگر آپ اس دنیا کا جائزہ لیں تو فکری اعتبارسے ایک بڑے طبقہ کو تعصب کے مرض میں مبتلا پائیں گے ۔تعصب ایسا مرض ہے جو مسلسل انسانی کے ذہنوں میں خرافات اور بدگمانیوں کو پیدا کرتا ہے اور اسی وجہ انسان رشد وہدایت کے عظیم نعمت سے محروم ہوجاتا اور وہ لوگ جو راہ راست پر ہوتے ہیں اسے گمراہ سمجھتا ہے اور اپنی گمراہی کو ہی حق تسلیم کرکے اپنی زندگی کفر و ضلالت کے اندھیرے میں دھکیل دیتا ہے اگر تعصب کا چشمہ اتار کر دیکھیں تو اس کی اچھائی یا برائی کا اندازہ ہو جائے گا کہ وہ پیروی کے لائق ہے یا نہیں
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب نبوت سے سرفراز کئے گئے تو بہت سارے قبیلوں نے قوموں نے اللہ کے نبی صلی وسلم کی بات کو نہیں سنی یا نہیں سمجھا کہ وہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ہیں تو صرف قومی یا نسلی تعصب کی بنیاد پر ورنہ وہی لوگ نبوت سے پہلے آپؐ کو صادق امین کہا کر تے تھے پورا مکہ اس بات پر متفق تھا اس پوری دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ امانت دار آپ صلی اللہ سے زیادہ سچا آپ سے زیادہ حیا والا بیواؤں یتیموں غریبوں فقیروں کا خیال رکھنے والا آور کوئی نہیں

لوگوں کو آپ صلی اللہ سے دشمنی کی بڑی وجہ یہ رہی قومی اور نسلی تعصب رہا ہے کیونکہ آپ صلی خاندان بنی ہاشم میں پیدا ہوئے یہودیوں کے بہت سارے قبائل کویہ بات ہضم نہیں ہورہی تھی کہ آخری نبی بنوہاشم میں پیدا کیسے ہوا اوراسی وجہ سے وہ آپ کی بات کو ماننے اور سننےکے لیے تیار نہیں تھے ۔لیکن جب تعصب کا چشمہ اتارکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو فیضان رحمت سے ان کا سینہ لبر یز ہوگیااور خدا کے سامنے سربسجود ہوگئے
اور وہی قبائل حضور کے حسن اخلاق سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے
حضور ﷺ کے اخلاقِ حسنہ کے بارے میں قرآن مجید میں ہے اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔
’’بے شک آپ اخلاق کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہیں۔‘‘ اور بھی بہت سی آیتیں آپؐ کے اخلاق کی شاہد ہیں
دوسری روایت میں حُسْنَ الْاَخْلَاق کے الفاظ آئے ہیں۔
حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اَحْسَنَ النَّاسِ خُلْقًا رسول اللہ ﷺ تمام انسانوں سے اعلیٰ اخلاق رکھتے تھے۔ (متفق علیہ)

حضرت حسان بن ثابت ؓ نے آپؐ کی شان میں فرمایا (جو شاعرے رسولؐ ہیں )
. . . . . . . . . . . . . . . . خلقت مبرامن کل عیب
. . . . . . . . . . . . . . . کانک قد خلقت کما تشاء
آپ اس طرح بے پیدا ہوئے گویا جیسا آپ چاہتے تھے اسی طرح پیدا کیے گئے
۔ ۔ اور شیخ سعدی شیرازی نے اس طرح نذرانے عقیدت پیش کیا
بلغ العلیٰ بکمالہ
کشف الد جیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلوا علیہ وآلہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ اپنے کمالات کی بدولت بلندیوں تک پہنچے ۔ ۔ آپ کے نور جمال سے تاریکیاں چھٹ گئیں آپ بہترین اوصاف وعادات کے حامل ہیں درود و سلام ہو آپ پر اور آپ کے اہل و عیال پر

آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف مسلمانوں کے لیے نہیں پوری دنیا ئے انسانیت کے لیے اور تمام مخلوق کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے آپ نے پوری انسانیت اور تمام مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کو اختیار کیا اور اس کا پیغام لوگوں کو دیا
۔ ۔ ایسا نہیں تک آپ صرف مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہو اور عدل و انصاف سے کام لیتے بلکہ آپ کفار مشرکین کے ساتھ بھی عدل و انصاف اور اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آئے ایک یہودی کا واقعہ ہے جو حدیث کی کتابوں میں موجود ہے
۔ زید بن سعنہ یہودی سے کسی موقع سے آپ نے قرض لیا تھا، اور واپسی کی ایک تاریخ متعین تھی، لیکن وہ مقررہ تاریخ سے تین دن پہلے ہی قرض کا تقاضا کرنے آگیا، اور گستاخانہ انداز میں شانہٴ مبارک سے چادر کھینچتے ہوئے بدزبانی شروع کردی، کہنے لگا کہ: ”تم بنی عبدالمطلب بڑے نادہندہ اور وعدہ خلاف ہو“، اس کی بدکلامی پر برابر رسالت مآب مسکرارہے تھے، حضرت عمر رض وہیں موجود تھے، ان کو برداشت نہ ہوا، انھوں نے جھڑک کر اسے بے ہودہ گوئی سے روکنا چاہا، لیکن رسول اللہ نے روکا اور فرمایا: ”اے عمر! تم نے ہم دونوں سے وہ طرزِ عمل اختیار نہیں کیا جو ہونا چاہیے تھا، اور جس کی ہم کو ضرورت تھی، یعنی مناسب یہ تھا کہ تم اسے جھڑکنے کے بجائے مجھے ادائے قرض اور وعدہ وفائی کی تلقین کرتے،اور اُسے حسن طلب اور نرمی سے تقاضا کرنے کی ہدایت کرتے، یہ کہہ کر آپ نے حضرت عمر فاروق کو ارشاد فرمایا کہ: اس کا قرض ادا کردیں اوراس کو جھڑکنے کے معاوضہ میں مزید بیس صاع (ساٹھ کلو سے زائد) جَو دے دیں“!

حسن سلوک کا ایک دوسرا اس طرح ہے کہ
ایک اعرابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کے ارادے سے راستے میں ہوتا ہے ۔۔ہجرت کے چوتھے سال غزوئہ ذات الرقاع پیش آیا، اس موقع سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہٴ کرام سے الگ ہوکر ایک درخت کے سائے تلے آرام فرمارہے تھے، دشمن خدا غورث بن حارث آدھمکا،اور قتل کے ارادے سے تلوار سونت لی، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی،اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گستاخانہ سوال کیا: ”اب بتا، میرے ہاتھ سے تجھے کون بچائےگا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت اطمینان سے جواب دیا: ”اللہ“ اب رعب نبوت کہیے، یا قدرتِ خداوندی سمجھئے، واقعہ یہ ہوا کہ تلوار دشمن خدا کے ہاتھ میں تھم نہ سکی، زمین پر گرگئی۔

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی تلوار اٹھائی اور دریافت کیا: اب تو بتا!
تجھ کو میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟
دشمن خدا کو خداکی قدرت پر کہاں یقین تھا
اس نے کہا:
کوئی نہیں،
البتہ آپ عمدہ بدلہ لینے والے اور عفوودرگذر کرنے والے ہیں،
آپ نے اس جانی دشمن کو معاف کردیا، آپ کے عفوودرگذر سے بہت متاثر ہوا، بعض روایتوں میں آتا ہے کہ جب وہ اپنی قوم میں گیا تو لوگوں سے کہا کہ: میں روئے زمین پر بسنے والوں میں سب سے بہترین ذاتِ اقدس کے پاس سے آیا ہوں، بالآخر یہی قصہ اس کے اسلام لانے کا سبب بنا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور عفودرگذر کی داستان بہت مشہور ہے جس کو ہم لوگ فتح مکہ کے نام سے جانتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں آنکھیں کھولیں، ابتدائے نبوت سے ہی اہل مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ، تکلیف دیناشروع کردیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیقوں کو اتنا ستایا کہ وہ اپنا ملک عزیز چھوڑنے پر مجبور ہوگئے، مطلب یہ کہ قریش مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے دشمن تھے؛ اس لیے فتح مکہ کے وقت سب کو یقین تھا کہ ان کی ایک ایک ناشائستہ حرکتوں کا بدلہ لیا جائیگا، ان کی سابقہ جفائیں تباہی و بربادی کا سبب بن جائیں گی، لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فاتحانہ داخل ہوئے تو کسی کو کچھ نہیں کہا، سب کو معاف کردیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے قاتل کو بھی معاف کردیا، اور "ہندہ "کو بھی معاف کیا جس نے آپ کے محترم چچا کے ناک، کان کاٹ کر چبایا تھا، اور ان کی لاش کے ساتھ گستاخیاں کی تھیں، آپ نے اس عمیر بن وہب کو بھی معاف کردیا جس نے اپنی تلوار زہر میں بجھاکر آپ کو قتل کرنے کا ناپاک ارادہ کیا تھا، آپ نے اہل مکہ سے مخاطب ہوکر پوچھا کہ تم لوگ کیا کہتے تھے کہ میں تم سے کیا برتاؤ کروں گا؟ انھوں نے کہا: اچھا؛ کیوں کہ آپ مہربان بھائی اور مہربان بھائی کے بیٹے ہیں۔

آپ نے فرمایاکہ: آج میں بھی تم سے وہی کہتا ہوں، جو میرے بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا، ”لاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَہُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْن“ آج تم پر کوئی الزام نہیں، اللہ تم کو معاف کرے اور بے شک وہ تمام رحم کرنے والوں میں سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے
اس لئے تاریخ نے آپ ﷺ حسن اخلاق کو محفوظ رکھا ہے اور رہتی دنیا انسانیت کو آپ ﷺ کا اخلاق متاثر کرتا رہے گا.

 

Comments are closed.