Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

گداگروں کی مدد
سوال:- صدقہ اور خیرات کیا ان مردوں اور عورتوں کو دیا جاسکتا ہے، جو مسجدوں کے باہر تقریبا ہر نماز کے وقت نظر آتے ہیں اور خود نماز نہیں پڑھتے یا پیشہ ور بھکاری ہیں ، جو ہمیشہ چوراہوں پر نظر آتے ہیں ۔ ( محمد کلیم اللہ، میدک)
جواب:- یوں تو کسی بھی سوال کرنے والے کو دیا جائے تو انشاء اللہ باعث ثواب ہی ہوگا؛ لیکن اس مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اسلام میں گداگری کو پیشہ بنالینا نہایت ہی مذموم ہے اور اس کی حوصلہ شکنی کرنا امت کو اس ذلت سے بچانے کی کوشش کرناہے ، رسول اللہ ا کے پاس ایک صاحب مانگنے کے لئے آئے ، آپ ا نے ان سے دریافت کیا : کیا تمہارے پاس کوئی سامان ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ ایک پیالہ اور ٹاٹ ہے ، آپ ا نے دونوں چیزیں منگوائیں اور ان کی ڈاک لگائی ، ایک صحابی ؓ نے دو درہم میں خرید لیا ، آپ ا نے ایک درہم میں کلہاڑی کا پھل خریدکر اور کلہاڑی بناکر انہیں عنایت فرمایا اور ایک درہم انہیں ان کی ضروریات کے لئے مرحمت فرمایا ، پھر ارشاد فرمایا : یہ ایک درہم اپنی ضروریات پر خرچ کرو اورکلہاڑی کے ذریعہ لکڑیاں کاٹ کر لاؤ اور انہیں فروخت کرو اور کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاؤ ، چند دنوں کے بعد جب وہ آپ ا سے ملے تو اس ہدایت پر عمل کرنے کی برکت سے کئی درہم ان کے پاس جمع ہوگئے تھے اور گداگری سے انہیں نجات مل چکی تھی ۔
آپ ا کے اس عمل سے معلوم ہوا کہ پیشہ ور گداگروں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے اور انہیں بھیک مانگنے سے منع کرنا چاہئے ، آج کل مسجدوں اور چوراہوں پر روپیہ دو روپیہ ہر ایک کو دیئے چلے جانے کانتیجہ یہ ہورہا ہے کہ ان کی گداگری کی خو پختہ ہوتی چلی جاتی ہے ، جو یقینا امت کے لئے شرمندگی اور ندامت کا باعث ہے ۔

مسجد کی تعلیم میں بالغ لڑکیوں کی شرکت
سوال:- فی زمانہ شہروں اور دیہاتوں کی اکثر مساجد میں دینی تعلیم کا نظم ہوتا ہے ، جہاں چھوٹے بچے بچیوں کے ساتھ ساتھ چند بالغ یا قریب البلوغ لڑکیاں بھی حاضر ہوتی ہیں اور اساتذہ وائمہ دیگر بچوں کی طرح انہیں بھی سامنے بٹھاکر تعلیم دیتے ہیں ، کیا یہ عمل شرعا درست ہے ؟ (شفیع احمد، آکولہ)
جواب:- ضرورت کے بقدر دینی تعلیم کا حاصل کرنا جس طرح مسلمان مردوں پر فرض ہے ، اسی طرح مسلمان خواتین کے لئے بھی ضروری ہے ؛ اس لئے کوشش تو یہ ہونی چاہئے کہ بالغ اور قریب البلوغ لڑکیوں کی تعلیم کا الگ انتظام کیا جائے ، وہاں پردہ کا نظم ہو اورخاتون استاذ دستیاب ہوتو وہ پڑھائے ؛ لیکن اگر اس کا نظم نہ ہو، چھوٹے بچوں کے ساتھ یا نابالغ بچیوں کے ساتھ بالغ لڑکیاں بھی بیٹھ جائیں اور بالغ لڑکیاں نقاب میں ہوں ، نیز مامون جگہ ہو ، تنہائی کی جگہ نہ ہو ، اور پاکی کی حالت میں ہو ں، تو چوںکہ اس صورت میں فتنہ کے مواقع کم ہوجاتے ہیں ؛ اس لئے اس طرح تعلیم دینے کی گنجائش ہے ۔

اقامت کے بعد ضروری ہدایات
سوال:- اقامت کے بعد نماز شروع کرنے سے پہلے امام صاحب تمام مصلیوں سے اس طرح خطاب کرتے ہیں : صفیں درست فرمالیں ، سر پر ٹوپی پہن لیں ، آستین اوپر ہیں تو نیچی کرلیں ، جن کے پائیچے نیچے ہیں ، وہ اوپر کرلیں ، موبائل چیک کرلیں اور کھلا ہو تو بند کرلیں ، کیا نماز سے پہلے اتنا لمبا خطاب کرنا درست ہے ؟ (سید حسنین، ہمایوں نگر )
جواب:- اقامت کے بعد چند فقروں میں ضروری باتوں کی طرف اشارہ کردینا جائز بلکہ مستحب ہے ، رسول اللہ ا بھی اس موقعہ پر صفوں کو سیدھا رکھنے اور درمیان میں فاصلہ نہ چھوڑنے کے سلسلہ میں ہدایتیں دیا کرتے تھے ، (بخاری،حدیث نمبر: ۶۸۵) اس زمانہ میں چوںکہ دوسرے امور میں کوتا ہی نہیں ہوتی تھی؛ اس لئے مزید ہدایات کی ضرورت نہیں پڑتی تھی ، آج کل صفیں سیدھی نہ رکھنے کے علاوہ ننگے سر نماز پڑھنے ، آستین اوپر چڑھائے رہنے ، پائجامے ٹخنوں سے نیچے تک رکھنے اور موبائل کے سلسلے میں احتیاط نہ کرنے کی شکایت عام ہے ؛ اس لئے ان باتوں کی طرف توجہ دلادینا بھی درست ہے ، رہ گیا اقامت اور نماز کے درمیان وقفہ تو اتنا سا وقفہ دینے میں حرج نہیں ، طویل وقفہ نہیں ہونا چاہئے ، طویل وقفہ سے مراد — بعض فقہاء کے بیان کے مطابق —دو رکعت نماز کے بقدر وقفہ ہے اور ان فقروں کے کہنے میں اتنا طویل وقفہ نہیں ہوتا ۔

نشست کے نیچے ٹیپ ریکارڈر
سوال:- میرے پاس ایک آٹو ہے ، میں نے اسی آٹو میں ڈرائیور سیٹ کے نیچے باکس بنواکر ٹیپ ریکارڈر فٹ کیا ہے ، اسی ٹیپ ریکارڈر سے حمد ، نعت ، قراء ت ، وعظ وغیرہ سب کچھ سنتا ہوں ؛ لیکن ڈر یہ ہے کہ ٹیپ ریکارڈ سیٹ کے نیچے اور میں اوپر ہوں ، اس طرح کیسٹ سن کر الٹا بے ادبی کر رہاہوں ؟ (محمد خورشید، جل پلی )
جواب:- ٹیپ ریکارڈکی حیثیت محض ایک مشین کی ہے ، اور خود کیسٹ کی حیثیت بھی کتابوں کی نہیں؛ بلکہ ایک مشنری شی ہی کی ہے ، جس نے آواز کو محفوظ کر لیا ہے اور آپ کا مقصد بھی بے ادبی نہیں؛ بلکہ استفادہ ہے ؛ اس لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ، فقہاء کے یہاں یہ صراحت ملتی ہیں کہ قرآن مجید باکس میں ہو اور وہ نشست گاہ سے نیچے رکھا ہوا ہو ، مقصود حفاظت ہے نہ کہ بے احترامی تو اس میں مضائقہ نہیں :وضع المصحف تحت رأسہ في السفر للحظ لا بأس بہ (ہندیہ:۵؍ ۳۲۲) البتہ آپ اس کا اہتمام ضرور کریں کہ دینی اور مذہبی کیسٹ لگایا کریں ، یہ آپ کی طرف سے ایک خاموش تبلیغ کی انجام دہی ہوگی ، اور اگر آپ نے گانے بجانے کی کیسیٹ لگائی تو آپ نہ صرف سننے کی وجہ سے گنہگار ہوں گے ؛ بلکہ آپ کے آٹو پر سوار ہونے والے لوگ گانے سنیں گے ، ان کے گناہ میں بھی آپ شریک قرار پائیں گے ۔

نومسلمہ سے نکاح
سوال:- ایک شخص نے ایک غیرمسلم عورت سے بقول اس کے اسلام قبول کراکرنکاح کرلیا،وہ عورت کئی بچوںکی ماںاورایک وفادار شوہرکی بیوی تھی،اس عورت کواس کے پہلے شوہرنے نہیں چھوڑا تھا، اس صورت میںاس عورت کے ساتھ اس مسلم شخص کانکاح درست ہے یا نہیں ؟ ( امانت اللہ، گلبرگہ)
جواب:- غیر مسلم عورت اسلام لے آئے اوراس کاشوہرمسلمان نہ ہو،تواتفاق ہے کہ اس عورت کااپنے اس کافرشوہرسے رشتہ ازدواجی ختم ہوجائے گااوراس کاکسی اورمسلمان مردسے نکاح کرناجائز ہوگا،البتہ حنفیہ کے یہا ں اس کی تفصیل یہ ہے کہ مسلم ملک میں یہ صورت پیش آئے توقاضی شوہرپراسلام پیش کرے گا،اگروہ قبول کرلے تونکاح باقی رہے گا،انکارکرے تودونوںمیں تفریق کافیصلہ کردے گا،غیرمسلم ملک ہوتوتین حیض انتظارکرے گی ،اگراس درمیان شوہرکواسلام کی توفیق ہوجائے تونکاح باقی رہے گا؛ورنہ وہ آپ سے آپ اس مردکی زوجیت سے آزاد ہوجائے گی اوریہی مہلت کافی ہوگی،عدت بھی واجب نہیں :وإذا أسلمت المرأۃ فی دار الحرب و زوجھا کافر لم یقع الفرقۃ علیھاحتی تحیض ثلاث حیض ثم تبین من زوجھا وإذا وقعت الفرقۃ والمرأۃ حربیۃ فلاعدۃ علیھا و إن کانت ھی المسلمۃ فکذلک عند أبی حنیفۃ (ہدایہ:۲؍۳۴۷) اگرشخص مذکورنے اسی تفصیل کے مطابق اس عورت سے نکاح کیا،تونکاح درست ہے ۔

استغفار اور اس کے لئے دعاء
سوال:-استغفار کیا ہے؟ کیا اس کے پڑھنے کے لئے عربی کی کوئی مخصوص دعاء ہے ؟ کیا توبہ ہی کا دوسرا نام استغفار ہے ؟ ( عبدالمقیت، بی بی نگر)
جواب:- استغفار کے معنی اللہ تعالی سے گناہوں پر بخشش طلب کرنے کے ہیں، اس طرح توبہ اور استغفار کا مقصد ایک ہی ہے ،یعنی گناہ پر شرمندگی ،اور اللہ تعالی سے عفو درگزر کی درخواست ،استغفار کے لئے کوئی ایک ہی دعاء مقرر نہیں،اور یہ بھی ضروری نہیں کہ عربی ہی میں استغفار کیاجائے ،اپنی زبان میں ہی اللہ تعالی سے گناہ پر مغفرت طلب کی جائے ،یہ بھی استغفار ہی ہے ،تاہم یہ ضرور ہے کہ رسول اللہ ا کے الفاظ میں جو انوار و برکات ہیں، وہ دوسرے کلام میں نہیں ہوسکتے ، اس لئے حضور ا سے ماثور الفاظ میں استغفار زیادہ بہتر ہے ، آپ ا سے استغفار کے لئے بہت سی دعائیں منقو ل ہیں ، ان میں ایک جامع دعاء جو صحیح سند سے مروی ہے، ترجمہ کے ساتھ یہاں درج کی جاتی ہے ،آپ چاہیں تو اسے یاد کرلیں : اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْتَغْفِرُکَ لِمَا قَدَّمْتُ وَمَا اَخَّرْتُ ۔ وَ مَااَسْرَرْتُ وَ مَا اَعْلَنْتُ ، اَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَاَنْتَ الْمُأَخِّرُ ، وَاَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۷۷۱) اے اللہ !میں آپ سے ان تمام گناہوں کی معافی چاہتاہوں،جو میں نے پہلے کئے یا بعد میں کروں ، جسے میں نے چھپ کر کیا یا علانیہ، آپ ہی آگے بڑھانے والے اور پیچھے کرنے والے ہیں، اور آپ ہر چیز پر قادر ہیں ۔

موٹاپے کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھنا
سوال:-عورتیں اپنی نماز بیٹھ کر پڑھیں یا کھڑی ہوکر ؟ بیٹھ کر نماز پڑھنے سے نماز پوری ہوگی یا نہیں ؟ اگر کسی کو موٹاپے کا بوجھ ہو، جس سے اٹھنا بیٹھنا مشکل ہو تو کیا کرے ؟( شوکت علی، مہدی پٹنم)
جواب:- فرض اور واجب نماز میںقیام فرض ہے :وأما أرکانھا فستۃ منھاالقیام، وقال اللہ تعالیٰ: وقوموا للہ قانتین ( البقرہ: ۲۳۸ )یہ حکم مردوں کے لئے بھی ہے اور عورتوں کے لئے بھی؛ اس لئے عورتوں کو بھی کھڑے ہوکر ہی نماز ادا کرنی چاہئے ، موٹاپا اگر اس درجہ کا ہو کہ کسی قدر مشقت کے ساتھ قیام کر سکتا ہو ، تو فرض نماز تو کھڑا ہوکر ہی ادا کرے ، فرض نمازوں میں اسی شخص کے لئے بیٹھنے کی اجازت ہے جو بیماری کی وجہ سے کھڑا نہ ہوسکتا ہو ، اگر کھڑا ہوا تو بیماری میں اضافہ ہوجائے گا ، یا صحت یاب ہونے میں تاخیر ہوگی ، محض معمولی دشواری کی وجہ سے بیٹھ کر فرائض کا ادا کرنا درست نہیں ، (درمختار:۱؍۵۰۸) البتہ نوافل اور سنتیں بلا عذر بھی بیٹھ کر ادا کی جاسکتی ہیں؛ اس لئے موٹاپے کی وجہ سے سنتیں بیٹھ کر پڑھ لی جائیں ، تواس میں کچھ حرج نہیں ۔

تاجروں کے لئے احکام تجارت کا علم حاصل کرنا ضروری ہے
سوال:- میں کمپیوٹر کی تجارت شروع کرنے جارہا ہوں اور خود کمپیوٹر انجنیئر ہوں ، مجھے تجارت شروع کرنے سے پہلے دینی نقطۂ نظر سے کیا کرنا چاہئے ؟ (مشتاق احمد، سکندرآباد)
جواب:- اسلام نے زندگی کے ہر شعبے کے لیے رہنمائی کی ہے ، انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ جس شعبہ میں داخل ہو اس کے بارے میں احکام شریعت کی واقفیت حاصل کرے ؛ چنانچہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ ہر مسلمان پر علم کا حاصل کرنا فرض ہے : طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم (ابن ماجہ، حدیث نمبر:۲۲۴)،اس میں وہ تمام علوم شامل ہیں ، جن کی دین پر عمل کرنے کے لئے ضرورت پڑے یا جو معاش کے حاصل کرنے کے لئے ضروری ہیں ؛ چنانچہ فتاویٰ سراجیہ میں ہے :
علم کا اتنی مقدار میں حاصل کرنا فرض ہے جس کی ضرورت ہو ، ایسے کاموں کے سلسلہ میں جو اس کے لئے ناگزیر ہوں ، جیسے وضو ، نماز ، دوسرے شرعی احکام اور معاشی امور (فتاویٰ سرایہ:۷۱)
کمپیوٹر کی تجارت سے متعلق بھی بہت سے شرعی مسائل ہوسکتے ہیں ، جیسے سودی لین دین سے بچنا ، محفوظ پروگراموں کی چوری سے اجتناب کرنا ، اگر کمپیوٹر کے ساتھ ساتھ سی ، ڈی بھی فراہم کرتے ہوں تو مخرب اخلاق سی ڈیز کی خرید و فروخت سے بچنا ، پس آپ سب سے پہلے تجارت اور بالخصوص اپنے شعبہ سے متعلق مسائل و احکام کی واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اس بات کا پختہ ارادہ رکھیں کہ جھوٹ ، دھوکہ اور بد دیانتی سے اپنے آپ کو بچائیںگے؛ بلکہ فقہاء نے لکھا ہے کہ جب تک آدمی خرید و فروخت کے احکام سے واقف نہ ہوجائے اسے تجارت شروع نہ کرنی چاہئے : لا ینبغي للرجل أن یشتغل للتجارۃ مالم یعلم أحکام البیع و الشراء ما یجوز منہ و مالا یجوز(فتاویٰ سرایہ:۷۴)

Comments are closed.