توکل اسباب کو پس پشت ڈالنے کا نام نہیں ہے!

عبدالواحد القاسمی مظفرنگری
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
باسمہ تعالى
آج ہمارے درمیان ایک ایسی خطرناک وبا اور بیماری پھیلی ہوئی ہےجو (کرونا وائرس) کے نام سے معروف ہے، جس کی لپیٹ میں لاکھوں لوگ آچکے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ بھی دھو بیٹھے ہیں، مگر ابھی تک کسی کو بھی اس بیماری سے نجات حاصل کرنے کا کوئی راستہ ہاتھ نہیں لگا ہے، بڑے بڑے سائنس داں اور ڈاکٹرز اس کا علاج ڈھونڈنے سے قاصر ہیں، ہاں مگر ایک کمپنی نے اس کی دوا بنانے کا دعوی کیا تو ہے لیکن اس نے بھی چھ مہینے کا وقت مانگا ہے، اب اس دوران خدانخواستہ کتنی تباہی مچ جائے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ (اللهم احفظنا من فيروس كورونا)
لیکن محکمہ صحت نے کچھ ہدایات جاری کی ہے، جن پر عمل کرکے اس بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔ جن میں سے چند ہدایات یہ ہیں۔
” جیسے: بنیادی چیز صفائی و ستھرائی کا اہتمام کرنا اور نجاست و گندگی سے بچنا ہے جو کہ شریعت کا بھی جزو لاینفک ہے، اپنے ہاتھوں کو بار بار صابن سے دھوئیں! کھانستے یا چھینکتے وقت رومال یا ٹیشو پیپر کا استعمال کریں! اپنے ناک منہ اور آنکھوں کو ہاتھوں سے نہ چھوئے اگر ضرورت ہو تو رومال یا ٹیشو پیپر کا استعمال کریں! ایسے اشخاص جنہیں کانسی، نزلہ اور بخار ہو ان سے کم از کم ایک میٹر کا فاصلہ بنائے رکھیں! اسی طرح بھیڑ بھاڑ اور مجمع والی جگہوں سے اپنے آپ کو دور رکھنا ہے اس لئے کہ ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق بھیڑ بھاڑ والی جگہوں پر اس بیماری کے پھیلنے کا زیادہ اندیشہ ہے، اسی طرح اپنے گھروں سے نہیں نکلنا ہے اگر کسی مجبوری کے تحت نکلنا پڑ جائے تو ماسک وغیرہ لگا کر نکلیں!”
اور اسی طرح علماء کرام نے بھی نماز اور مساجد کے تعلق سے کچھ گزارشات کی ہیں ان کو بھی پیش نظر رکھا جائے!
مگر افسوس بہت سے مسلمان توکل توکل کی رٹ لگا کر غفلت اور لاپرواہی کا شکار ہیں اور غفلت کی چادر اوڑھ کر سو رہے ہیں، آج جھنڈ کے جھنڈ سڑکوں اور گلیوں میں میں پھرتے نظر آرہے ہیں، بہت سے لوگ چوراہوں اور دکانوں پر مجمع لگائے اپنی مستی میں مگن ہیں، اسی طرح تبلیغی احباب بھی صرف توکل پر ہی جمے ہوئے ہیں، اور اسباب وتدابیر کو پس پشت ڈال کر جماعت پہ جماعت نکالے جا رہے ہیں یا تو وہ لوگ توکل کے معنی مفہوم سے واقف نہیں ہیں یا جان بوجھ کر وہ ایسا کر رہے ہیں، جس سے ان کی تعریف میں اضافہ ہو ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ صرف "توکل علی اللہ” سے کام نہیں چلے گا بلکہ احتیاط، تدابیر اور اسباب اختیار کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔
آج مسلمان بہت زیادہ بے پرواہ بنے ہوئے ہیں اور غفلت میں مبتلا ہیں جو کہ بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے، اس لئے سنبھلنے کی ضرورت ہے۔
توکل اور بھروسہ کرنا اچھی بات ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسباب اور تدابیر اختیار کرنا بھی ضروری ہوتا ہے، یہ دنیا دارالاسباب ہے یہاں صرف توکل سے کام نہیں چلتا بلکہ اسباب بھی اختیار کرنے پڑتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلے اسباب اختیار کرو پھر توکل کرو!
آئیے ہم پہلے توکل کے معنی سمجھیں! کہ توکل کیا چیز ہے۔
توکل کے لفظی معنی کسی معاملہ میں کسی ذات پر اعتماد کرنے کے ہیں، یعنی اپنی عاجزی کا اظہار اور دوسرے پر اعتماد اور بھروسہ کرنا توکل کہلاتا ہے۔ شرعی اصطلاح میں توکل کا مطلب: اس یقین کے ساتھ اسباب اختیار کرنا کہ دنیاوی واخروی تمام معاملات میں نفع ونقصان کا مالک صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس کے حکم کے بغیر کوئی پتا درخت سے نہیں گر سکتا۔ ہر چھوٹی بڑی چیز اپنے وجود اور بقا کے لیے اللہ کی محتاج ہے۔ غرضیکہ خالق کائنات کی ذات باری پر مکمل اعتماد کرکے دنیاوی اسباب اختیار کرنا توکل علی اللہ ہے۔ اگر کوئی شخص بیمار ہوجائے تو اسے مرض سے شفایابی کے لیے دوا کا استعمال تو کرنا ہے لیکن اس یقین کے ساتھ کہ جب تک اللہ تعالیٰ شفا نہیں دے گا دوا اثر نہیں کرسکتی۔ یعنی دنیاوی اسباب کو اختیار کرنا توکل علی اللہ ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: کیا اونٹنی کو باندھ کر توکل کروں یا بغیر باندھے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: باندھو اور اللہ پر بھروسہ کرو۔ (ترمذی ۔کتاب صفۃ القیامۃ) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اہل یمن بغیر سازوسامان کے حج کرنے کے لیے آتے اور کہتے کہ ہم اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ لیکن جب مکہ مکرمہ پہنچتے تو لوگوں سے سوال کرنا شروع کردیتے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی آیت (سورۃ البقرۃ ۱۹۷) نازل فرمائی: حج کے سفر میں زادِ راہ ساتھ لے جایا کرو۔ صحیح بخاری
جو بھی اسباب مہیا ہوں انہیں اس یقین کے ساتھ اختیار کرنا چاہئے کہ کرنے والی ذات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔حضرت ایوب علیہ السلام نے جب اپنی طویل بیماری کے بعد اللہ تعالیٰ سے شفایابی کے لیے دعا فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنے پیر کو زمین پر ماریں۔ اب غور کرنے کی بات ہے کہ کیا ایک شخص کا زمین پر پیر مارنا اس کی بیسیوں سال کی بیماری کی شفا یابی کا علاج ہے؟ نہیں۔ لیکن انہوں نے اللہ کے حکم سے یہ کمزور سبب اختیار کیا، جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ان کے زمین پر پیر مارنے سے پانی کا ایسا چشمہ جاری کردیا جس سے غسل کرنے پر حضرت ایوب علیہ السلام کی بیسیوں سال کی بدن کی متعدد بیماریاں ختم ہوگئیں ۔ حضرت ایوب علیہ السلام کے اس واقعہ کی تفصیلات کے لیے سورۃ الانبیاء آیت ۸۳ و ۸۴ اور سورۃ ص آیت ۴۱ سے ۴۴ کی تفسیر کا مطالعہ کریں۔ حضرت ایوب علیہ السلام کے اس واقعہ سے ہمیں متعدد سبق ملے، دو اہم سبق یہ ہیں۔ پہلا سبق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ارادہ سے بھی حضرت ایوب علیہ السلام کو شفا دے سکتے تھے مگر دنیا کے دار الاسباب ہونے کی وجہ سے حضرت ایوب علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ کچھ حرکت کریں یعنی کم از کم اپنے پیر کو زمین پر ماریں۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ جو بھی اسباب مہیا ہوں ان کو اس یقین کے ساتھ اختیار کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکم سے کمزور اسباب کے باوجود کسی بڑی سے بڑی چیز کا بھی وجود ہوسکتا ہے۔
حضرت مریم علیہا السلام نے جب اللہ کے حکم سے بغیر باپ کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جنا تو اُن کے لیے حکم خداوندی ہوا کہ کھجور کے تنے کو ہلائیں یعنی حرکت دیں، اُس سے جب پکی ہوئی تازہ کھجوریں جھڑیں تو ان کو کھائیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے حضرت مریم علیہا السلام کو بغیر کسی سبب کے بھی کھجور کھلا سکتے تھے لیکن دنیا کے دار الاسباب ہونے کی وجہ سے حکم ہوا کہ کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلاؤ۔ چنانچہ حضرت مریم علیہا السلام نے حکم خداوندی کی تعمیل میں کھجور کے تنے کو حرکت دی۔ کھجور کا تنا اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ چند طاقت ور مرد حضرات بھی اسے آسانی سے نہیں ہلاسکتے ہیں لیکن صنف نازک نے اس کمزور سبب کو اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے سوکھے ہوئے کھجور کے درخت سے حضرت مریم علیہا السلام کے لیے تازہ کھجوریں یعنی غذا کا انتظام کردیا۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ جو بھی اسباب مہیّا ہوں اللہ پر توکل کرکے اُنہیں اختیار کرنا چاہئے۔
اسباب تو ہمیں اختیار کرنے چاہئیں لیکن ہمارا بھروسہ اللہ کی ذات پر ہونا چاہئے کہ وہ اسباب کے بغیر بھی چیز کو وجود میں لاسکتا ہے اور اسباب کی موجودگی کے باوجود اس کے حکم کے بغیر کوئی بھی چیز وجود میں نہیں آسکتی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلتی ہوئی آگ میں ڈالا گیا، جلانے کے سارے اسباب موجود تھے مگر حکم خداوندی ہوا کہ آگ حضرت ابراہیم کے لیے سلامتی بن جائے تو آگ نے انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچایا، بلکہ وہ آگ جو دوسروں کو جلادیتی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی کا سبب بن گئی۔ اسی طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر طاقت کے ساتھ تیز چھری چلائی گئی مگر چھری بھی کاٹنے میں اللہ کے حکم کی محتاج ہوتی ہے، اللہ نے اُس چھری کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن کو نہ کاٹنے کا حکم دے دیا تھا، لہٰذا کاٹنے کے اسباب کی موجودگی کے باوجود چھری حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن نہیں کاٹ سکی۔
اسباب وذرائع ووسائل کا استعمال کرنا منشائے شریعت اور حکم الٰہی ہے۔حضور اکرم ﷺ نے اسباب ووسائل کو اختیار بھی فرمایا اور اس کا حکم بھی دیا خواہ لڑائی ہو یا کاروبار۔ ہر کام میں حسب استطاعت اسباب کا اختیار کرنا ضروری ہے۔ لہٰذا جائز وحلال طریقہ پر اسباب ووسائل کو اختیار کرنا ، پھر اللہ کی ذات پر کامل یقین کرنا توکل علی اللہ کی روح ہے۔ اگر توکل علی اللہ کا مطلب یہ ہوتا کہ صرف اللہ کی مدد ونصرت پر یقین کرکے بیٹھ جائیں تو سب سے پہلے قیامت تک آنے والے انس وجن کے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ اس پر عمل کرتے حالانکہ آپ ﷺ نے ایسا نہیں کیا اور نہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی حکم دیا بلکہ دشمنوں کے مقابلہ کے لیے پہلے پوری تیاری کرنے کی تاکید فرمائی۔
Comments are closed.