Baseerat Online News Portal

مرض اور مریض — اسلامی تصور

مولاناخالد سیف اللہ رحمانی
ترجمان وسکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ
ابھی گذشتہ ہفتہ ہم نے عالمی یومِ صحت منایا ہے ، بے شک صحت سے بڑھ کر اللہ کی کوئی نعمت نہیں اور بیماری سے بڑھ کر شاید کوئی آزمائش نہیں ، آخرت کی جوابدہی کے احساس اورانسانی محبت کے سوا کوئی چیز نہیں جو ایک مشغول آدمی کو مایوس ، زود رنج اور ناہموار مزاج مریض کی عیادت و تیمارداری پر آمادہ کر سکے ، اسی لئے آپ ا نے فرمایا کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں ، ان میں آپ انے مریض کی عیادت کا بھی ذکر فرمایا، ارشاد فرمایا کہ جب تک انسان کسی مریض کی عیادت میں مصروف رہتا ہے ، گویا وہ جنت کے باغیچوں میں رہتا ہے ، ایک موقع پر فرمایا کہ اللہ قیامت کے دن انسان سے دریافت فرمائیں گے کہ اے فرزند ِآدم ! میں بیمار تھا اور تم نے میری عیادت نہیں کی ؟ انسان کہے گا کہ باری تعالیٰ ! کیا آپ بھی بیمار اور عیادت کے محتاج ہو تے ہیں ؟ ارشادِ ربانی ہوگا کہ اگر تم فلاں مریض کے پاس پہنچتے اور اس کی عیادت کرتے تو مجھے وہاں موجود پاتے ۔
آپ انے عیادت کو ایک انسانی فریضہ قرار دیا ہے ، اس لئے اس میں مسلمان اورغیر مسلم ، بڑے چھوٹے ، مال دار اور غریب کا کوئی فرق نہیں ، آپ ا نے یہودی کی بھی عیادت کی ہے اور مشرک کی بھی عیادت فرمائی ہے ؛ البتہ عیادت کا مقصد دلداری اور راحت رسانی ہے، اگر کسی مریض کے قریب جا کر عیادت کرنے میں مریض کے لئے یا عیادت کرنے والے کے لئے ضرر کا اندیشہ ہو تو فون پر مزاج پرسی اور علاج میں مالی تعاون کے ذریعہ اس حق کو ادا کیا جا سکتا ہے؛ چنانچہ آپ انے اس بات سے منع فرمایا کہ اگر کسی علاقہ میں وبائی مرض پھوٹ پڑے تو وہاں سے لوگ بھاگ کھڑے ہوں ، کہ ایک تو بھاگنے والوں کے ذریعہ مرض کے جراثیم دوسرے علاقوں تک بھی پھیل جائیں گے ، دوسرے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ جو لوگ مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں، ان کے لئے تیمار دار اور دیکھ ریکھ کرنے والے نہیں رہیں گے ، قرآن مجید نے بیماروں کے لئے خصوصی مراعات دی ہیں ، ارشادِ ربانی ہے : ’’ وَلاَ عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجْ ‘‘ (النور)ا یک موقع پر قرآن نے خاص طور پر ’’ نابینا‘‘ اور ’’ لنگڑے‘‘ کا ذکر کیا کہ ان پر کوئی حرج نہیں : ’’لَیْْسَ عَلَی الْأَعْمٰی حَرَجٌ وَلَا عَلَی الْأَعْرَجِ حَرَج‘‘۔ (الفتح: ۱۷)
بعض مذاہب میں بیماری کو پاپ کا لازمی نتیجہ سمجھا جاتا تھا ، ہندو بھائیوں کے یہاں آواگون کا نظریہ ہے، اس نظریہ کے تحت انسان اس جنم میں جو کچھ تکلیف اٹھاتا ہے، وہ پچھلے جنم کے گناہوں کا اثر ہے ، اس سے مریض کے تئیں ہمدردی ، محبت و خیر خواہی اور رحم دلی کے بجائے نفرت کا جذبہ اُبھرتا ہے ، اسلام نے بتایا کہ بیماری اللہ کی طرف سے آزمائش اور امتحان ہے ، ضروری نہیں کہ گنہگار ہی بیمار پڑے ، اللہ کے نیک بندے بھی بیمار ہوتے ہیں ، یہاں تک کہ بیماری سے انبیاء و رُسل بھی دو چار ہوتے ہیں ؛ بلکہ بعض دفعہ صالحین اور اللہ کے نیک بندوں کی آزمائش زیادہ ہوتی ہے ۔
آپ انے انسانی زندگی کے امانت خداوندی ہونے کا تصور پیش کیا ، اسی لئے آپ ا نے خود کشی کو حرام اور سخت گناہ قرار دیا ، آج تو عدالتیں بھی خود کشی کی اجازت دینے کو آمادہ ہیں ؛ لیکن اسلامی ہی نہیں ، اخلاقی اور انسانی نقطہ نظر سے بھی یہ ایک سانحہ کا درجہ رکھتا ہے ، اسلام نے اس وقت سے انسان کا تحفظ کیا ہے، جب کہ وہ ابھی عالم رنگ و بو میں آیا بھی نہ ہو ، اسی لئے اس نے معاشی مقصد کے تحت اسقاطِ حمل کو منع کیا ، آپ انے انسانی آبادی کی افزائش کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے ، معاشی اندیشوں کے تحت آبادی کی روک تھام کا تصور کچھ نیانہیں ہے ، اسلام سے پہلے بھی عربوں کے یہاں ایسا تصور موجود تھا ، قرآن مجید نے اس کی مذمت کی اور فرمایا گیا کہ بھوک اور فاقہ کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو : ’’ لَا تَقْتُلُوْا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقِ (بنی اسرائیل: ۳۱) فیملی پلاننگ کے پیچھے جو بنیادی نظریہ کار فرما ہے وہ یہ ہے کہ غذائی وسائل محدود ہیں ، اگر انسانی آبادی غیر محدود طور پر بڑھتی چلی جائے تو انسان کے لئے بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی ممکن نہیں رہے گی ؛ لیکن یہ محض اندیشہ ہائے دور دراز کا درجہ رکھتا ہے اور حالات نے اس کی غلطی کو اظہر من الشمس کر دیا ہے ، فیملی پلاننگ کے نظریہ کے بانی مالتھوس کی پیشین گوئی کے مطابق آج لوگوں کو بھوکوں مرنا چاہئے تھا ؛ لیکن ہر شخص سرکی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے کہ کھانے ، پینے ، لباس و پوشاک ، سفر کے وسائل اور رہن سہن کے اعتبار سے معیار زندگی میں ایسا اضافہ ہوا کہ آج سے ۲۵ سال پہلے اس کا تصور بھی دشوار تھا ، حقیقت یہ ہے کہ جوں جوں آبادی بڑھتی جاتی ہے ، اسی نسبت سے وسائل معاش میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے اورزمین ایسے ایسے وسائل ثروت کو اگل رہی ہے کہ نصف صدی پہلے کسی نے اس بارے میں سوچا بھی نہ ہوگا ۔
آج قتلِ انسانی کے لئے بھی لوگوں نے نئے نئے عنوان تلاش کئے ہیں اور خوبصورت ناموں کے ذریعہ ان کو جائز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، اس قسم کی ایک ناروا صورت وہ ہے جس کو ’’ قتل بہ جذبۂ رحم ‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے ، یعنی جو شخص طویل عرصہ سے بیمار ہو، یا تکلیف دہ مرض میں مبتلا ہو ، اس کو ادویہ کے ذریعہ موت کی نیند سلا دیاجائے ، اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ، کوئی مرض نہیں کہ خدانے اس کے علاج کی تدبیریں پیدا نہ کی ہوں ، معالج کاکام ان تدبیروں کو تلاش کرنا ہے، نہ کہ مریض کی زندگی کو بچانے کے بجائے اس کے لئے سامان ہلاکت کا فراہم کرنا، آپ انے خودکشی کو بہر حال حرام قرار دیا ، ان تعلیمات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں انسانی زندگی کی کیا حرمت اور اہمیت ہے ؟
انسانی صحت و حیات کی حفاطت کے نقطہ نظر سے آپ انے اطباء اور معالجین کے لئے بھی ضابطے مقرر فرمائے ، جو لوگ فنِ طب سے کما حقہ واقف نہ ہوں ، علاج و معالجہ کی مہارت نہ رکھتے ہوں اور کسی مریض کاعلاج کرنے میں ان کو نقصان پہنچا دیں تو آپ انے ان کو اس نقصان کا ذمہ دار اور ضامن قرار دیا ہے : ’’ من تطبب ولم یعلم منہ طب فھو ضامن ‘‘۔ (سنن نسائی، باب صفۃ شبہ العمر، حدیث نمبر: ۴۵۸۶)
علاج اور صحتِ انسانی کے مسئلہ کو آپ انے ایسی اہمیت دی کہ از راہِ علاج ان چیزوں کے استعمال کی بھی اجازت دی جو عام حالات میں جائز نہیں ہیں ؛ لیکن یہ اجازت اس وقت ہے کہ حلال چیز کی صورت میں اس کاکوئی متبادل نہ مل سکے ۔
مریض کے لئے ایک اہم مسئلہ راز کی حفاظت کا ہے ، بعض دفعہ انسان ایسے مرض میں مبتلا ہوتا ہے کہ وہ اس کو ظاہر کرنانہیں چاہتا ، آپ انے غیبت کے سلسلہ میں جو اُصول بتائے ہیں، وہ اس سلسلہ میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں ، غیبت انسان کے جسمانی ، فکری یااخلاقی و عملی عیب کو دوسروں پر ظاہر کرنے کا نام ہے ، یہ حرام وگناہ ہے، آپ انے اس سے شدت کے ساتھ منع فرمایاہے ، اس سے معلوم ہوا کہ معالجین کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے مریضوں کے ساتھ ایسے امراض کے معاملہ میں امانت کا ثبوت دیں اور پردہ پوشی سے کام لیں ، جس کو وہ ظاہر کرنا نہ چاہتا ہو ؛ البتہ اگر کسی شخص کو نقصان اور دھوکہ سے بچانا اس کے بغیر ممکن نہ ہو تو اس شخص کی حد تک مرض کا افشاء جائز ہے ، خود آپ اسے ایسے شخص کے سامنے عیب کا اظہار ثابت ہے، جو اس سے رشتہ کرنا چاہتا تھا ، یہی اسلام کا توازن و اعتدال اور اس کا اصل امتیاز ہے۔(۱۶؍ اپریل ۱۹۹۹ء)
(بصیرت فیچرس)
*****

Comments are closed.