ڈاکٹر ابھے کمار کی اردو

معصوم مرادآبادی
ڈاکٹر ابھے کمار کانام اردو والوں کے لیے نیا نہیں ہے۔ ان کا نہایت معلوماتی اور دانشورانہ کالم پابندی کے ساتھ روزنامہ ”انقلاب“ میں شائع ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اپنا کالم پہلے انگریزی یا ہندی میں لکھتے ہوں گے اور پھر کوئی اردو والا اس کا ترجمہ کرتا ہوگا۔ لیکن یہ خیال قطعی غلط ہے۔ ڈاکٹر ابھے کمار بہترین اردو لکھتے، پڑھتے اور بولتے ہیں۔ انھوں نے پٹنہ سے شائع ہونے والے روزنامہ ”قومی تنظیم“ میں بھی کام کیا ہے اور وہیں اپنی اردو کو مانجھا ہے۔
اس وقت ان پر قلم اٹھانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ کل انھوں نے مجھے فون کرکے یہ خوشخبری سنائی کہ انھیں بہار میں اسسٹنٹ پروفیسر کی سرکاری ملازمت مل گئی ہے اور اب وہ بہار ہی میں رہیں گے۔ یہ خبر میرے لیے اس اعتبار سےبہت اہم تھی کہ ابھے کمار پچھلے کافی عرصے سے ایک باعزت ملازمت کی تلاش میں سرگرداں تھے مگر ان کی یہ تلاش پوری نہیں ہوپارہی تھی۔انھوں نے کچھ دن کرناٹک کے شہر گلبرگہ کے ایک مسلم ادارے میں بھی درس وتدریس کا کام کیا مگر وہاں ان کا دل نہیں لگا اور وہ واپس دہلی آگئے۔ ان کی بے روزگاری کا زیادہ تر وقت اردو کی آن لائن کلاسیں لینے میں گزرااور یہی ان کی روزی روٹی کا بھی ذریعہ تھا۔وہ اس بات سے فکر مند تھے کہ انھیں مستقل ملازمت کیوں نہیں مل رہی ہے۔بہرحال اب ان کی یہ جدوجہد پوری ہوگئی ہے۔
ڈاکٹر ابھے کمارکا تعلق مشرقی چمپارن (بہار)کے رکسول علاقہ سے ہے۔ انھوں نے علم سیاسیات میں ایم اے کرنے کے بعد نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے تاریخ میں ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ان کی پی ایچ ڈی کا موضوع”آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ“ تھا۔ وہ شروع سے اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے مسائل سے وابستہ رہے ہیں اور ان کے بارے میں ایک ترقی پسندانہ نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ وہ کامریڈ ہیں اور مجھے ان کے اندر قلندروں کی بوباس محسوس ہوتی ہے۔ وہ بنیادی طور پر ایک انسان دوست ، غریب پرور اور وسیع النظر انسان ہیں ۔
ڈاکٹر ابھے کمارسے میری پہلی ملاقات کا قصہ بھی کچھ کم دلچسپ نہیں ہے۔ یہ غالباً 2006 کا سن تھا۔ وہ نئے نئے بہار سے دہلی آئے تھے اور انگریزی روزنامہ ”انڈین ایکسپریس“ میں رپورٹنگ کررہے تھے۔ ایکسپریس کا دفتر چونکہ پرانی دہلی سے قریب تھا، اس لیے وہ اکثر کسی اسٹوری کی تلاش میں پرانی دہلی کے گلی کوچوں میں گشت کرتے تھے۔ میرے روزنامہ اخبار ”جدیدخبر“کا دفتر ان دنوں کوچہ چیلان میں تھا۔وہ ایک دن ٹہلتے ٹہلتے میرے چھوٹے سے دفتر میں آپہنچے۔ پوچھا یہاں کیا کام ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ اردوکا روزنامہ اخبار نکلتا ہے۔ ان کا دوسرا سوال تھا کہ کتنے لوگ کام کرتے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ چارپانچ لوگ۔اس پر انھوں نے چونکتے ہوئے کہا کہ ”میرے اخبار میں تو ایک ہزارلوگوں کا عملہ ہے۔آپ چارپانچ لوگوں کے ساتھ کس طرح روزنامہ اخبار نکال لیتے ہیں۔“ میں نے انھیں سمجھایا کہ اردو کے اخبارکن حالات میں اور کیسے نکلتے ہیں۔وہ حیرت میں پڑگئے، کیونکہ یہ ان کے لیے ایک خبر تھی۔ پھر انھوں نے ”انڈین ایکسپریس“ کے سنڈے ایڈیشن میں میرے اور میرے اخبار کے اوپر ایک فیچر لکھا۔ عنوان تھا:’Reading the small print’اس طرح ابھے کمار سے میری دوستی ہوگئی۔ وہ بڑے بھائی کی طرح میری عزت کرنے لگے اور میں نے انھیں ہمیشہ اپنا چھوٹا بھائی سمجھا۔ کل جب انھوں نے جذباتی انداز میں اپنی ملازمت کی خبر سنائی تو مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ آپ میرے دل کے قریب ہیں۔ بلاشبہ ابھے کمار ایک مہذب اور باصلاحیت نوجوان ہیں۔ مجھے ان سے مل کر یا باتیں کرکے ہمیشہ خوشی کا احساس ہوتاہے۔ میں ان کے بہتر مستقبل کے لیے دعاگو ہوں۔ خدا کرے کہ وہ کامیابیوں کی مزید منزلیں طے کریں۔ میری تمام ترنیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں۔
ملک کے موجودہ ماحول میں ابھے کمار جیسے لوگوں کا دم بہت غنیمت ہے۔ انھیں مسلم مسائل کی جتنی جانکاری ہے اتنی تو عام اردو صحافیوں کو بھی نہیں ہے۔ اردو صحافت سے اپنا کیریئر شروع کرنے والے ڈاکٹر ابھے کمار اب طلباء کو علم سیاسیات کا درس دیں گے۔
Comments are closed.