Baseerat Online News Portal

موجودہ حالات میں پریشان حال لوگوں کی مدد کے تعلق سے شرعی احکام

کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام قرآن و حدیث کی روشنی میں مسئلہ ذیل کے بارے میں:
آج کل پورے ملک میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے غریب عوام خصوصا روز محنت کرکے گزربسر کرنے والے لوگ بے حد پریشانی میں آگیے ہیں۔ ہم لوگوں نے ان غریب لوگوں کی مدد کے لئے دوطرح کے انتظامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے ایک تو یہ کہ وہ مزدور لوگ جو ممبئی میں تنہا رہتے ہیں ان کو کھانے کی پیکیٹ صبح و شام دینا ہے دوسرے یہ کہ جو فیملی والے ہیں ان کو پندرہ دن یا ایک مہینے کا راشن دینا ہے۔ لینے والوں میں کچھ غیر مسلم بھی ہوں گے ۔ اس سلسلے میں چند سوالات ہیں ۔
1. کیا اس مصرف میں زکات کی رقم کا استعمال جائز ہے؟
2. اکثر لوگ زکات رمضان میں نکالتے ہیں تو کیا ابھی ہی ان کے لئے زکات ادا کرنا درست ہوگا؟
3. کچھ لوگ صدقات اور کچھ لوگ بینک سے حاصل ہونے والی انٹرسٹ کی رقم بھی دیتے ہیں تو ان رقموں کا استعمال اس مصرف میں کیسا ہے؟
4. کھانا و راشن لینے والوں میں غریب مسلمانوں کے علاوہ کچھ غیر مسلم بھی ہوتے ہیں تو کیا ان کو بھی اس مشترکہ فنڈ سے کھانا و راشن دے سکتے ہیں جس میں زیادہ تر رقم زکات کی ہوتی ہے، لیکن ساری رقم ملی ہوتی ہے ان میں امتیاز کرنا مشکل ہوتا ہے اور یہ اندازہ مشکل ہوگا کہ کتنی فیصد رقم زکات کی ہے ایسے میں کیا حکم ہے؟
جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں

مولانا محمود دریابادی
حافظ اقبال چونا والا
خلیل احمد غوری
29/ مارچ 2020

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق:
حديث شریف میں ہے کہ وہ شخص مسلمان نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے جبکہ اس کے پڑوس میں کوئی شخص بھوکا رہے۔ اس لئے موجوےحالات میں آپ حضرات کی یہ کوششیں بے حد قابل قدر ہیں اور ایمانی فریضہ ہے۔ اب آپ کے سوالات کے جوابات درج کیے جاتے ہیں:

1. وہ مسلمان جن کو کھانا اور راشن دیا جانا ہے وہ لوگ اگر غریب مستحق زکات ہیں تو اس مصرف میں زکات کی رقم کا استعمال جائز ہے۔ انما الصدقات للفقراء والمساکین وابن السبیل…(القرآن)

2. جب کوئی مسلمان صاحب نصاب بنتا ہے تو چاند کی تاریخ کے اعتبار سے پورے ایک سال بعد اس پر زکات کا اداکرنا فرض ہوتا ہے لہذا ہر شخص کو وہ تاریخ یاد رکھنی چاہئے اور ہرسال اسی تاریخ کے اعتبار سے تمام قابل زکات اموال پر زکات کی ادائیگی کرنی چاہیے، زکات کی ادائیگی کے لئے رمضان کا ہونا ضروری نہیں۔ نیز زکات کی ادائیگی پیشگی بھی کی جاسکتی ہے مثال کے طور پر ایک شخص دس رمضان کو مالدار ہوا تھا جو اس کی زکات کی ادائیگی کی تاریخ ہے لیکن کوئی ضرورت مند سال کے درمیان میں آگیا تو آئندہ سال کی زکات کی نیت سے وہ زکات ادا کرسکتا ہے۔ لہذا موجودہ حالات میں لوگ پیشگی زکات اداکرکے بھی غریب لوگوں کی مدد کرسکتے ہیں، ان کی زکات ادا ہوجائے گی بلکہ بے حد پریشان لوگوں کی انتہائی ضرورت کے وقت مدد کرنے کی وجہ سے انہیں زیادہ اجر بھی ملے گا، انشاءاللہ ۔

3. صدقات تو ہر طرح کے ضرورت مندوں کو دیا جاسکتا ہے۔ بینک انٹرسٹ کی رقم کے بارے میں حکم یہ ہے کہ بغیر ثواب کی نیت کے مستحقین زکات کو دے دیا جائے لہذا مذکورہ مصرف میں انٹرسٹ کی رقم بھی استعمال ہوسکتی ہے۔

4. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ زکات مسلمانوں سے اصول کرو اور انہیں کو دو لہذا زکات کا مستحق صرف مسلمان ہے، ولایصح یدفعھا لکافر (طحطاوی)۔ موجودہ حالات میں اگر کچھ غیر مسلم ضرورت مند بھی ہوں، تو ان کو صدقات و انٹرسٹ کی رقم سے راشن و کھانا وغیرہ دیا جاسکتا ہے۔ کوشش یہ کی جائے کہ زکات، صدقات و انٹرسٹ کی رقم وغیرہ کا حساب کتاب الگ ہو لیکن اگر زکات، صدقات و انٹرسٹ وغیرہ کی رقم ملی ہوئی ہو اور امتیاز کرنا مشکل ہو تو ایک اندازہ کرلیں کہ کتنی فیصد رقم غیر زکات کی ہے اس تناسب کے اندر اندر غیر مسلم کو راشن وغیرہ دے دیا جائے۔
اسکے علاوہ ایک صورت تملیک کی بھی ہے صحیح طور سے تملیک کرلی گئی تو کوئی اشکال ہی نہ رہیگا-

واللہ اعلم بالصواب
جسیم الدین قاسمی
مفتی مرکزالمعارف، ممبئی
4/ شعبان المعظم 1441ھ

بحکم حضرت
مفتی عزیز الرحمن صاحب فتحپوری
(مفتی اعظم مہاراشٹر)

تائیدکنندگان
مفتی عبیداللہ اسعدی شیخ الحدیث و صدر مفتی جامعہ عربیہ ہتھورا باندہ ، مفتی سعید الرحمن فاروقی صدر مفتی دار العلوم امدادیہ ،مفتی محمد آزاد بیگ صدر مفتی معراج العلوم چیتا کیمپ، مفتی محمد اشفاق دار العلوم امدادیہ، مفتی جنید پالنپوری، مفتی حارث پالنپوری، جوگیشوری ، مفتی حسیب الرحمٰن فتح پوری، مفتی ثاقب قاسمی فتحپوری، معراج العلوم

Comments are closed.