کیوں غریب کی زندگی بنی لقمہ اجل ؟؟؟

احساس نایاب ( شیموگہ, کرناٹک )
ایڈیٹر گوشہ خواتین بصیرت آن لائن
چاروں طرف پسرا خوفناک سناٹا, ویران سڑکیں سُنسان شہر اُس پہ کھڑکیوں اور بالکنیوں سے جھانکتے اداس چہرے , ہر آنکھ میں موت کی دہشت, لبوں پہ فریاد , یوں محسوس ہوتا ہے مانو ہم کسی زندہ قبرستان میں کھڑے ہیں بیبس لاچار مجسم بنے , وہ مجسم جو بس دیکھ سکتا ہے کر کچھ نہیں پاتا ……
یقین جانیں ان دنوں کچھ یہی کیفیت سے دوچار ہورہے ہیں …..
اللہ جانیں یہ کیسا قبرستان ہے جہاں خوفناک سناٹے دہشت کے ساتھ , بھوکے بچوں کے رونے بلکنے کی آوازیں, بیبس ماؤں کی سسکیاں , دم توڑتی ہوئی ہچکیاں تو کہیں بیماریوں سے جوج رہے لوگوں کا تڑپنا, لاٹھی گولی کھاتے نوجوانوں کی چیخ و پکار اور اپنوں سے دور اپنوں سے ملنے کے خاطر تپتی ہوئی زمین پہ ننگے پیر, بھوکے پیاسے ننھے ننھے بچوں کو سینے سے لگائے پیدل میلوں کا سفر طئے کررہے بھائی بہنوں کی اذیت ناک حالت, اُن کے پیروں میں پڑے چھالوں کی چبھن ہمارے قلب کو چھلنی کئے دیتی ہے , ہم سمجھ نہیں پاتے ہمارے اطراف و اکناف جو کچھ بھی ہورہا ہے آخر یہ سب کچھ کیا ہے ؟ حقیقت ہے یا کوئی ڈراؤنا سا خواب ؟ جو قیامت سے کم نہیں …..
کورونا نامی قیامت جو بلاتفریق انسانی جانوں کے ساتھ اُن کی خوشیاں نگل رہی ہے, بسےبسائے گھر اُجاڑ رہی ہے, سوپر پاور کہلانے والے ممالک بھی اس کی چپیٹ سے آزاد نہیں وہاں پہ بھی آج ماتم برپہ ہے , بڑے سے بڑے تونگر کو بھی گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کردیا ہے …..
جی ہاں اس ایک کورونا نے غفلت میں جی رہے انسانوں کو آج خدا, ایشور, پرمیشور یاد آگیا, چارسو آہا کار مچ چکا ہے, دنیا بھر کی معیشت ماند پڑچکی ہے , جیسے وقت کی سوئی ایک جگہ آکر رُک سی گئی ہو, اپنے فطرت سے ہٹ کر چلنا بھول گئی ہو …… جدھر دیکھو ہر زبان پہ اس آفت سے احتیاط برتنے کی تلقین دی جارہی ہے , شہروں میں پاکی صفائی کا خاص خیال رکھا جارہا ہے, خاص کر کارپوریٹ لیول پہ …… اور کل تک جو لوگ حجاب و نقاب کا مذاق بنایا کرتے تھے آج وہ خود چہروں پہ ماسک لگائے گھوم رہے ہیں , پانچ وقتہ وضو پہ جو سوال اٹھایا کرتے تھے آج وہ ہاتھوں کو بار بار دھونے اور سینٹائز کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں , سرکار و انتظامیہ کی جانب سے بھی لوگوں کو گھروں کے باہر نہ نکلنے آور خود کو پاک و صاف رکھنے کی اپیل کی جارہی ہے جبکہ اسلام میں 1400 سال قبل ہی پاکی صفائی کو آدھا ایمان قرار دیا گیا ہے ……. لیکن یہاں فرق بس آتنا ہے کہ اسلامی احکامات میں امیر, غریب, رنگ یا نسل میں فرق نہیں کیا جاتا , جبکہ انسانی احکامات میں ذات, دھرم, گوتر, امیری, غریبی یعنی انسان کی حیثیت کے مطابق فرمان صادر کئے جاتے ہیں ……
یہی وجہ ہے آج بھارت کے کئی علاقوں میں ایک بڑا غریب مزدور طبقہ بےوقت کے کئے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے بُری طرح سے متاثر ہوا ہے اور اپنی جانیں ہتھیلی میں رکھ کر سینکڑوں کلومیٹر کا راستہ پیدل طئے کرنے پہ مجبور ہیں , سننے میں آیا ہے اس دوران سفر سے نڈھال ایک دو کی جان بھی جاچکی ہے , باوجود نہ سرکار کو ان پہ ترس آیا نہ ہی انتظامیہ نے ہمدردی دکھائ بلکہ انہیں سزا کے طور پہ کہیں گھٹنے پہ چلنے کے لئے کہا جارہا ہے تو کہیں لاٹھیوں سے پیٹا جارہا ہے اور جب اتنے سے بھی دل نہ بھرا تو یوپی کے جلادوں کی طرف سے ستم ظریفی تو دیکھیں یوگی پولس نے ان بدحال, ادھ مرے مزدوروں پہ کیمیکل چھڑکاؤ کرتے ہوئے ساری دنیا کے آگے اس بات کو ثابت کردیا کہ سنگھی بی جے پی کی نظر میں غریب مزدور کیڑے مکوڑوں سے بڑھ کر کچھ نہیں ….. افسوس عیاش سنگھیوں کی سزا آج یہ مزدور بھگت رہے ہیں …..
اگر گہرائی سے حالات کا جائزہ لیا جائے تو سمجھ آئے گا کہ اس بیماری کو بھارت لانے میں سب سے بڑا کردار سنگھی بھاجپائیوں کا رہا ہے اور ان کی کرتوتوں سے متاثر ہورہا بےسہارا, غریب طبقہ ہے …..
وہ جن کا آج بھی اپنا کوئی گھر نہیں , جو فٹ پاتھ پہ سوتے ہیں , کوڑھے دانوں سے امیروں کی پھینکی جھوٹی روٹیاں نکال کر کھانے پہ مجبور ہیں , جن کا گذارا سگنلس پہ بھیک مانگ کر ہوتا ہے , کھلا آسمان جن کے سر پہ چھت اور کھردیلی ننگی زمین ہی جن کے لئے مخملی فرش ہے , جو اوروں کے جھوٹے برتن دھو کر اپنے بچوں کا پیٹ بھرتی ہیں , ایسے مجبور لوگوں کے آگے پاکی صفائی اور احتیاط کی باتیں کرنا بھدا مذاق نہیں تو اور کیا ہے ؟ جی ہاں ان کی غربت لاچاری , بےبسی کا مذاق ……
عالیشان مکانوں میں ناز و نخروں سے جینے والے ان کی مجبوری کیا سمجھیں گے ؟ بےوقت کے لاک ڈاؤن سے ان کی زندگی جو تتر بتر ہوئی ہے اُس ہریشانی, اذیت کو کیا سمجھیں گے …….
اپنی آرام دہ زندگی سے کبھی فرصت ملے تو ذرا سوچیں ان حالات میں آخر وہ جائیں بھی تو کہاں جائیں , دنیا میں ایسا کونسا گھر ہے جو انہیں سہارا, تحفظ دے گا ؟ آخر وہ صفائی کا اہتمام کریں بھی تو کیسے کریں ؟ خود کو قید کرنا چاہیں بھی تو کس گھر میں ؟ جبکہ ان کا کوئی گھر ہے ہی نہیں …….
صرف یہی نہیں ان کے علاوہ فساد متاثرہ افراد جن کے ہنستے کھل کھلاتے آشیانے ظالموں نے جلادئے , جن کی زندگی بھر کی جمع پونجی راکھ کرکے اُڑادی گئی , جن کے لخت جگر چھین کر آج انہیں گائے بیلوں کی طرح رلیف کیمپوں میں ٹھونسا گیا ہے اب یہ کورونا سے بچنے کے لئے کہاں جائیں ؟؟؟
پہلے ہی ان حالات کہ ماروں پہ قیامت ٹوٹ چکی ہے انہونے تو موت کو بھی اتنے قریب سے دیکھا ہے کہ اب خوفزدہ ہونے کے لئے ان کے پاس کچھ بچا ہی نہیں ؟
خیر ہوسکتا ہے ان پہ کسی کو ترس بھی آجائے , ان کے دوست احباب ہی خیر خواہ بن جائیں, لیکن ان کے علاوہ جو ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں آج ڈٹنشن سینٹرس میں جانوروں سے بدتر زندگی گذار رہے ہیں , جن کا دنیا میں کوئ پرساں حال نہیں ہے آخر وہ کیا کریں ؟
اُن کی صحت اُن کی جانوں کے بارے میں سرکار نے یا کسی اور نے کیا سوچا ہے کیا رائے عامہ تیار کیا ہے ؟
یا اُن کا جینا مرنا کوئی معنی نہیں رکھتا ؟ کیا اُن کی جانوں کا کوئی مول نہیں ؟ کیا اُن کی زندگی لقمہ موت کے لئے ہی بنی ہے ؟
آخر ان سوالات کے جوابات کون دے گا ہمیں ؟؟؟
سچ میں کچھ سمجھ نہیں آتا یہ جو کچھ بھی ہورہا ہے آخر کیا ہے ؟
کبھی اس وبا سے ڈر لگتا ہے تو کبھی مستقل درپیش آنے والے بھکمری کے تصور سے روح کانپ اُٹھتی ہے , جبکہ یہ تصور بھی حقیقی شکل اختیار کرچکا ہے ……….
بیشک آج ہم اور آپ اپنے اپنے گھروں میں قید ہونے کی وجہ سے بور ہورہے ہیں لیکن شکر ادا کریں پرسکون جی تو رہے ہیں, پیٹ بھر کھا پی رہے ہیں, کئی اقسام کے لذیز تر پکوانوں کے مزے چکھ رہے ہیں اور مستقل سوئی جتنی بھی پریشانی نہ ہو اس کے لئے اناج بھی اکٹھا کر رہے ہیں ………… جبکہ اسی درمیان کہیں کوئی گیارہ سالہ معصوم بچہ بھوک سے مرگیا, روٹی کے انتظار میں اس بےحس دنیا کو ہمیشہ کے لئے الودہ کہہ گیا , کہیں کسی نے مفلسی فاقوں سے تنگ آکر خودکشی کرلی تو کہیں پولس نے دودھ اور کھانا لانے گئے باپ کو لاٹھیوں سے پیٹ پیٹ کر مارڈالا اور بچے ترستی نگاہوں سے انتظار کرتے رہ گئے لیکن کھانے کی جگہ ………..
یہ تمام حالات , ان مفلسوں کی فریاد ہر پیٹ بھر کھاکر ڈکار دینے والے وجود پہ شرمناک داغ ہے , ہمارے انسان ہونے پہ سوالیہ نشان ہے …….
یاد رہے جب تک ہمارے آس پاس معصوم بچے بھوک سے بلک رہے ہیں اُس وقت تک ہمارے جسم میں جارہا ایک ایک لقمہ بھی ہمارے لئے زہر ہے حرام ہے کیونکہ ہمارا کوئی حق نہیں بنتا کہ ہماری ہانڈیوں میں لذیذ پکوان بنیں , ہمارے دسترخوان میوؤں و شربتوں سے سجیں اور بڑی شان سے ہم اس کو اپنا نصیب کہیں ……….
کیونکہ یہ ہمارا نصیب ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ آرام دہ زندگی یہ میوے , یہ عیش و عشرت دولت سب کچھ اللہ کی طرف سے ہمارے لئے آزمائش ہے , سخت ترین آزمائش جس میں ہمیں کھرا اترنا ہے ورنہ آسمان سے فرشتے بھی ہم پہ لعنت برسائیں گے …………
ہمارے آس پاس اگر ایک بھی معصوم بھوک کی شدت و بنا علاج کے اس دنیا سے چلا گیا تو اللہ سبحان تعالی ہمیں کبھی معاف نہیں کرینگے ……
آج ہمارا مال و دولت ہمارے گلے میں کسی طوق سے کم نہیں ہے …….
آخر یہ سب کچھ ہم کس لئے اکٹھا کرتے ہیں ؟ بیشک ایسے ہی آفات, ناگہانی صورتحال کے لئے نہ, بھلے وہ حالات ہمارے ہوں یا کسی اور کے کیا فرق پڑتا ہے ؟
ہیں تو سبھی انسان, ایک ہی آدم و حوا کی اولاد, اس ناطے سبھی ہمارے بہن بھائی ایسے میں ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے اُس مال کو ان بےسہارا بہن بھائیوں پہ خرچ کریں ….
ورنہ ایک جانور میں اور ہم کوئی فرق نہیں رہ جائے گا ………..
ویسے بھی حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ہر صاحب استطاعت کو امداد کے لئے انفرادی طور پہ خود سے آگے آنا ہوگا ……..
سرکار انتظامیہ کے بھروسے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے ہم خاموش نہیں بیٹھ سکتے کیونکہ موجودہ سرکار نکمی ہے, جو اس صدی کے ڈریکئولرس سے کم نہیں, جو معصوم غریب عوام کا خون چوستے ہوئے انہیں لاشوں پہ سیاست کررہی ہے یا جذباتی ڈرامہ کرتے ہوئے عوام کو بلی کا بکرا بنارہی ہے جیسے پلوامہ کے 40 شہید نوجوانوں کے نام پہ ووٹ مانگے گئے, اور اب کرونا کی دہشت دلاکر عوام کی جیب لوٹی جائے گی جس کا آغاز ہوچکا ہے حال ہی میں کرناٹک کے سی ایم نے لوگوں سے مدد مانگی تھی, ابھی ملک کا حکمران جناب موذی عوام سے چندہ مانگ رہے ہیں , ایسے میں اس نکمی سرکار سے کوئی امید کرنا بیوقوفی ہے ویسے بھی آدھے ہندوستان کو تو اس نے کب کا بیچ دیا ہے ابھی اس بھوکی ننگی عوام کو بیچنا باقی ہے ……….
رہی بات ملی و سیاسی قائدین اور تنظیموں و این جی اوس کی تو ان کی شان میں ہم کسی کا کہا شعر کہیں گے ……..
قوم کے غم مین ڈننر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈرس کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ …….
جی کسی نے بجافرمایا ہے قوموں کے نام پہ قوموں کو لوٹنے کے لئے چندہ اب دھنڈا بن چکا ہے , چندگ, فنڈنگ والا دھندا , ایک دیڑھ ماہ قبل ہم نے اپنے ایک آڈیو میں اس بات کا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے مسلمانوں سے گذارش کی تھی کہ این آر سی, سی اے اے کی مخالفت میں شاہین باغوں کے علاوہ کئے جانے والے غیر ضروری پروگرامس میں اسٹیجس و مائکس , بینرس وغیرہ کے نام لاکھوں کا پیسہ پانی کی طرح نہ بہایا جائے, بلکہ اُس پیسے کو آنے والے وقت کے لئے جمع کیا جائے لیکن افسوس …….
کاش آج وہی پیسہ ہمارے پاس ہوتا تو ہم لاکھوں مجبور و بےسہارا لوگوں کا سہارا بنتے, وہ پیسہ ہوتا تو کم از کم آج کوئی بھوکا نہ سوتا ……
"خیر اب پچھتاکر کیا ہووت ہے
جب چڑیا چوک گئی کھیت ” ….
جو ہونا تھا سو ہوگیا لیکن اب ہمیں خواب خرگوش سے جاگنا ہوگا ہوش کے ناخن استعمال کرنے ہونگے اور دھندے والوں کو دور رکھ کر خودی سے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق ضرورت مندوں کی مدد کرنی ہوگی اس ذمہ داری کو خود سے نبھانا ہوگا اور اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ ہمارے آس پاس کوئی بھوکا نہ رہے, کوئی بنا علاج کے نہ مرے, آج اُن تمام کی ذمہ داری ہم سبھی کے کاندھوں پہ ہے ان شاءاللہ ہم تمام آگے بڑھ کر ان کا سہارا بنینگے تو دنیا میں کہیں کوئی بےسہارا نہیں رہے گا ….
رہی بات جہاں تک ہماری پہنچ نہ ہو وہاں کسی ایماندار, امانت دار , نیک و مخلص شخص کو یہ ذمہ داری سونپ سکتے ہیں بںشرط قوم کے ایک ایک پیسہ کا حساب دینا اُس شخص پہ لازم ہے چاہے وہ حساب ایک بچہ بھی کیوں نہ مانگے …..
اگر قوم کے باشعور افراد اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائینگے تو ان شاءاللہ بہت جلد امداد کے نام پہ چندہ دھنڈا بند ہوکر امدادی کام صحیح سمت میں ضرورت مندوں تک پینچے گا اور اُن کے دلوں سے نکلی دعائین کورونا کیا, کورونا کے باپ کو بھی فنا کردیں گی …… اگر اتنا سب کچھ کہنے سننے کے باوجود ہم ہوش میں نہیں آئے تو یقین جانیں مستقل درپیش آنے والے بدترین حالات کے چلتے انسان کورونا سے مرے نہ مرے اللہ نہ کریں بھوکمری سے ضرور مرجائے گا اور ان مفلسوں کی آہیں بارگاہ الہی میں ایسی فریاد کرینگی جس کے بعد کورونا ہی نہیں کورونا سے خطرناک عذاب ہم پہ نازل ہونگے جو بنا کسی تعصب کے ہر عام و خواص, امیر غریب کو لقمہ اجل بنائیں گے ……..
Comments are closed.