کرونا وائرس مرض یا عذاب الہی؟ (رجوع الی اللہ یا تباہی)

از قلم: محمد زبیر ندوی
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
رابطہ: 9029189288
یہ زمین اللہ کی تھی، ہے، اور رہے گی، جس طرح آسمان لاجوردی اور اس کی لامحدود کہکشائیں، خلائیں اور فضائیں خدا کی ہیں اسی طرح کرۂ ارض کا چپہ چپہ اور ذرہ خدا کا ہے، انسانوں کو جس طرح ان کا جسم ایک عارضی امانت کے طور پر دیا گیا ہے اسی طرح یہ زمین اور اس کے ثمرات عارضی امانت ہیں، خدا کی کی زمین پر موجود حکومتیں اور بادشاہیاں عارضی اور فانی ہیں، خدا اپنی زمین پر کفر و شرک تو برداشت کرلیتا ہے مگر ظلم و ناانصافی گوارا نہیں کرتا، ظالموں کو بظاہر مہلت ملتی رہتی ہے مگر جب اس کی پکڑ آتی ہے تو پھر إن بطش ربك الشديد اور
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
کا مظہر صادق سامنے آتا ہے، انسانیت آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتی ہے اور چیخ چیخ کر کہتی ہے کہ
کل کون تھے آج کیا ہوگیے تم؟
کرونا وائرس Corona Virus کی موجودہ وبا نہ بیماری ہے نہ مرض، یہ اللہ کا عذاب ہے، جس نے ظالم و مظلوم اور تماش بینوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، ظالم و مظلوم کے ساتھ خدا کا یہ عذاب دنیا میں تو یکساں رہے گا مگر آخرت میں حسب اعمال جزا و سزا ملے گی۔ بخاری کی روایت ملاحظہ ہو قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” إِذَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِقَوْمٍ عَذَابًا، أَصَابَ الْعَذَابُ مَنْ كَانَ فِيهِمْ، ثُمَّ بُعِثُوا عَلَى أَعْمَالِهِمْ ". (صحيح البخاري رقم الحديث ٧١٠٨ كِتَابُ الْفِتَنِ | بَابٌ : إِذَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِقَوْمٍ عَذَابًا)
خدا کا یہ عذاب اُس ظلم کا بدلہ ہے جو انسانوں نے اس اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں روا رکھا ہوا تھا، جس نے مظلوموں کی چیخوں اور بوڑھوں و بچوں کی صداؤں کو عرش بریں تک پہنچا دیا، اس وقت ایک سو ننانوے ممالک کرونا کی زد میں ہیں
اور دنیا بچشمِ خود اپنا انجام دیکھ رہی ھے؛ لیکن کسی کا ذہن نہیں جارہا کہ پس پردہ اس عذاب کی وجوہات کیا ہیں؟ لوگوں کو نظر اتا ہے کہ حرمین شریفین کے دروازے بند ہوگیے، بیت اللہ کا طواف رک گیا، مساجد و دینی مراکز مقفل ہوگیے اور ہر گھر میں تالے لگ گیے، سب کی نگاہیں لگی ہیں حکومتوں پر، اپنی فریاد و التجاء ہے تو سرکاروں سی، گویا پوری دنیا کا حال وہ ہے جو کہنے والے نے کہا:
راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا
ارے دنیا کے لوگو اور فانی حکومتوں کے پرستاروں!! جب امریکہ دنیا پر ظلم کر رہا تھا اور لاکھوں افغانی گھروں سے بےگھر ہوگیے تھے تب تمہاری آنکھیں کیوں نہیں کھلی تھیں؟
جب حرمین شریفین کے علماء کو نظر بند کیا جارہا تھا اور کال کوٹھریوں کے حوالے کےآ ہے جارہا تھا تو انسانیت کی غمگسار تنظیمیں کہاں مر گئی تھیں؟
جب ملک شام پر ستم ڈھایا جارہا تھا اور ایک معصوم بچہ کہتا ہوا ماردیا گیا کہ میں اپنے رب سے جاکر سب بتاؤں گا، تو ساری حکومتیں کہاں سوگیی تھیں؟
جب فلسطینیوں کو رسیوں میں جکڑ کر ٹرکوں میں بھر کر زندہ در گور کیا جارہا تھا تو مسلم ممالک اور یورپ و امریکہ کے انسانیت کے علمبردار کہاں کھوگیے تھے؟
جب سرزمین عرب پر بت پرستوں اور ہزاروں مسلمانوں کے قاتلوں کو ہار پہنایا جارہا تھا اور ایواڈ سے نوازا جارہا تھا تو عربوں کی غیرت کہاں مرگیی تھی؟
جب سرزمین حجاز پر فحاشی کے اڈے، ڈانس بار اور فلم گاہیں کھولی جارہی تھیں تو مسلمانوں نے سد باب کیوں نہیں کیا؟
جب ہزاروں اخوانیوں کو تختۂ دار پر چڑھایا جارہا تھا اور اخوانی خواتیں کی عزت لوٹی جارہی تھی تو اے دین و دنیا کے ٹھیکیداروں اس وقت تم نے صداے احتجاج کیوں نہیں بلند کی؟
جب برما کے مسلمانوں کو کاٹا جا جارہا تھا، ان کے گھروں کو جلایا اور گرایا جارہا تھا ان کو بے گھر و در کیا جارہا تھا تو تم نے ان کے حق میں آواز کیوں نہیں اٹھائی؟
جب لاکھوں مائیں بہنیں شاہین باغ میں بیٹھی ظلم کے خلاف علم بغاوت پلند کییے ہویی تھیں تو عالمی میڈیا کے منہ پر کس نے تالے لگا دییے تھے، کیا شاہین باغ میں وفات پانے والے بچے نے اپنے رب سے ان ظالموں سرکشوں اور عقل و دانش کے دشمنوں کی شکایت نہ کی ہوگی؟
اور اے دنیا کے ظالم باشندوں! کیا کشمیر کے باشندے اور وہاں کی مائیں بہنیں تمہیں یاد نہیں؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ وہ سات مہینوں سے قید و بند کی صعوبتوں میں پڑے ہیں، اے انسانیت پر کلنک انسانوں! کیا تم نے اس وقت آواز اٹھائی تھی؟ اے انسانیت کے ٹھیکیداروں اٹلی، امریکہ و یورپ! کیا تمہیں اس وقت انسانیت یاد نہیں آئی تھی؟ اے عرب کے حکمرانوں! تم نے کیوں نہیں بھارت کی حکومت سے سفارش کی؟ تم نے تو کہا تھا ہماری معیشت خراب ہوگی، "احسن ما اصاب” جو ہورہا ہے بہتر ہورہا ہے، اے چین و امریکہ اور اٹلی و یورپ! تم تو ان کے اشکوں، آہوں اور چیخوں کو سن کر "well done” کہتے تھے.
آج جب ہم اؤر تم حالات کی زد میں آئے ہیں تو کیوں ہائے ہائے اور وایے وائے کی آوازیں آرہی ہیں؟ آج جب اللہ نے ہمیں مقید کردیا ہے تو کیوں رو رہے ہو؟ سوچو دنیا چلی تھی ہندی مسلمانوں کو بے گھر کرنے کے لئے آج کیوں گھروں میں رہنے کو کہا جارہا ہے؟
الجھے ہیں پاؤں یار کے زلف دراز میں
لو خود ہی اپنے دام میں صیّاد آگیا
کیا آپ کو یقین تھا کہ شامی بچے کی آواز خدا نہیں سنے گا؟ کیا آپ جانتے تہے کہ شام و فلسطیں کے مظلوموں کی آہیں اور فریادیں رائیگاں جائیں گی؟ کیا اخوانیوں کا خون رنگ نہیں لایے گا؟ کیا افغانیوں کی بد دعائیں اور سسکیاں عرش بریں تک نہیں جاسکتیں؟ کیا مظلوم کشمیری خواتین کا نالہ و شیون اور ڈبڈبائی آنکھیں خدا کے عرش کو نہیں ہلائیں گی؟ کیا برما کے مظلوموں کی آوازیں نہیں سنی جائیں گی؟ کیا دہلی کے فساد متاثرین کی ماؤں بہنوں اور معصوم بچوں کی فریادیں خدا نہیں دیکھ رہا؟ کیا شاہین باغ کی مظلوم اور بے آواز خواتین کی سرد آہوں اور نیم شب کی بد دعاوں کی زد سے تم بچ جاؤں گے؟ بولو! سچ کہو کیا یہ ظلم خدا دیکھتا رہے گا اور تمہیں دوچار نہیں کرے گا؟؟ خدا کے اصول بڑے سخت بھی ہیں اور محکم بھی، وہ دیتا ہے تو چھپڑ پھاڑ کر مگر جب لیتا ہے تو تھپڑ مار کر لیتا ہے، اس کے یہاں دیر تو ہے مگر اندھیر نہیں۔
اب بھی موقع ہے کہ انسانیت جاگ جایے، ٹرمپ صاحب کے سپر پاور کا نشہ بھی اب کچھ کم ہوا ہے اور انہوں نے بھرے ایوان میں قرآن کی تلاوت کرادی، برطانوی پارلیمنٹ میں اذان بھی ہوچکی ہے، چین کے وزیر اعظم نے مسجد کا رخ کرلیا ہے، اٹلی کی آبادی بلا تفریق مذہب و ملت کھلے آسمان تلے سجدہ ریز ہے ہوچکی ہے، یہ ہشیار ہیں سمجھ رہے ہیں اصل طاقت تو اسی کے پاس ہے جس کا قرآن ہے، جس کی مسجد اور اذان ہے، یہ سمجھ رہے ہیں کہ عذاب جہاں سے آیا ہے وہیں سے ختم ہوسکتا ہے۔
اے ہندوستاں کے باشندوں!! اب ذہن میں لاؤ علامہ اقبال کا وہ شعر جو انہوں نے سالوں پہلے بطورِ پیشینگوئی کہا تھا:
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
اے میرے قوم کے لوگو! اپنی آنکھیں کھولو، اور اپنے رب کے حضور گریہ و زاری سے پہلے ان مظلوموں سے معافی مانگو جو اب تک زندہ ہیں، اور ان مظلوموں سے معافی مانگو اور ان کے لیے دعا خیر کرو جو دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں؛ کیونکہ اس معاملے میں ظالم اور ظلم کے تماشائی دونوں برابر کے گنہگار ہیں، ظالموں کا گناہ یہ ہے کہ انہوں نے ظلم کیے، ستم کی انتہا کی، عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کیا، ماؤں کی گودیں خالی کیں، اور تماش بینوں کا گناہ یہ ہے کہ انہوں نے ظلم کے خلاف اف تک نہ کی، ان ہاتھوں کو روکا نہیں، ظلم پر ٹوکا نہیں، خدا کی سرزمین پر ننگا ناچ ہوتا رہا، زمین لہو لہان ہوتی رہی، مظلوم روتے رہے بلکتے رہے مگر ہم تماشائی بنے رہے ہم نے کبھی ان کے لیے احتجاج نہیں کیا،اپنی معیشت و تجارت کو اہمیت دی اس لئے گناہگار ہم بھی ہیں اور خدا کا وہ قانونی کوڑا پوری دنیا پر مسلط ہوا جس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث مبارکہ میں دی أَلَا وَإِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الظَّالِمَ لَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ، أَوْشَكَ اللَّهُ أَنْ يَعُمَّهُمْ بِعِقَابِهِ، (مسند أحمد رقم الحديث ٢٩ مُسْنَدُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ)
اس لیے مظلوموں سے معافی اور ان کا تعاؤن لازم ہے، پھر اپنے رب کی طرف رجوع کرو، بیشک وہ غفور رحیم ہے، کہنے والے نے کہا اور کیا خوب کہا:
سبھی دروازے ہونگے بند تو یہ فیصلہ ہوگا
چلو توبہ کریں، توبہ کا دروازہ کھلا ہوگا
خدا تعالی اس تحریر کی روشنی میں ہمیں مزید غور و فکر کی توفیق عطا فرمائے اور ظلم سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین۔
Comments are closed.