کورونا وائرس کتنا مہلک ؟ یہ ابھی تک واضح نہیں ۔

تحریر :جان لی ( ماہر علم الامراض)

ترجمہ : محمد اللہ قیصر قاسمی

ہماری قومی تاریخ میں، شخصی آزادی پر طویل ترین پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے ، "بورس جانسن” نے ، دئے گئے سائنسی مشورہ پر پورے عزم کے ساتھ عمل کیا۔ ، حکومت کے مشیر اپنے مابین ٹھوس اتفاق رائے کے سبب پرسکون اور یکجا نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں جبکہ روزانہ واردات/متاثرین کی تعداد بڑھ رہی ہے، مجھے یقین نہیں ہے کہ ایک نئے "وائرل کے خطرہ” کے پیش نظر کسی بھی وزیر اعظم نے اس سے بہت مختلف ایکشن لیا ہو۔

لیکن میں کچھ ایسے نقطہ ہائے نظر پیش کرنا چاہتا ہوں جو پچھلے ہفتوں میں شاید ہی شائع ہوئے ہوں ، اور وہ اعدادو شمار کی ایسی تشریح وتوضیح کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ان سے مختلف ہیں جن کی بنیاد پر حکومت اپنا کام کررہی ہے۔ میں علم الامراض (پیتھولوجی) کا پروفیسر، اور بطور ماہر علم الامراض NHS (قومی خدمات برائے صحت) میں مشیر تھا، حال ہی میں ریٹائر ہوا ہوں، میں نے اپنی جوانی کی زندگی کا بیشتر حصہ ہیلتھ کیئر اور سائنس کے ایسے میدان میں گزارا ہے جن کے متعلق -اکثر و بیشتر – کہا جاتا ہے کہ وہاں یقین سے زیادہ شکوک و شبہات ہوتے ہیں۔ موجودہ اعداد و شمار کی مختلف تشریحات کیلئے گنجائش موجود ہے۔ اگر ان میں سے کچھ دوسری تشریحات درست ہیں ، یا کم از کم حقیقت کے قریب ہیں ، تو مطلوبہ اقدامات کے نتائج اسی کے مطابق تبدیل ہوجائیں گے۔

یہ فیصلہ کرنے کیلئے کہ آیا ہمارے یہاں انتہائی مہلک بیماری ہے، آسان ترین طریقہ ہے کہ شرح اموات پر نظر جائے،۔ کیا مقررہ ایک ہفتہ یا مہینہ میں توقع سے زیادہ لوگ موت کا شکار ہو رہے ہیں؟ اعدادوشمار کی بنیاد پر ، ہمیں خدشہ ہے کہ اس مہینہ، برطانیہ میں تقریبا 51،000 افراد کی موت ہوگی۔ تادم تحریر ، 422 اموات کوویڈ 19 سے جڑے ہیں۔ جو کہ مکمل متوقع اموات کا 0.8 فیصد ہے۔ عالمی سطح پر ، ہمیں اندیشہ ہے کہ سال کے پہلے تین مہینوں میں 14 ملین افراد کی موت ہوگی۔ پوری دنیا میں کورونا وائرس سے ہونے والی 18،944 اموات، مکمل تعداد کا 0.14 فیصد حصہ ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ اعداد و شمار بڑھ جائیں، لیکن یہ ابھی ان دیگر "متعدی امراض” کے مقابلے کم ہیں جن کے ساتھ ہم رہتے ہیں (جیسے فلو)۔ یہ اییسے اعداد و شمار نہیں ہیں، جو بذات خود عالمی سطح پر سخت رد عمل کا باعث بنے۔

چین اور اٹلی کے ابتدائی حاصل شدہ اعداد و شمار سے "ہسپانوی فلو” کی طرح ہی، 5 سے 15 فیصد شرح اموات کا اشارہ ملتا ہے، یہ دیکھتے ہوئے کہ کیسز میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ، اس سے اموات کی شرح میں اضافے کا امکان بڑھ گیا ہے، جس سے نبٹنے میں دنیا کا کوئی بھی "نظام برائے حفظان صحت” کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس منظرنامے سے بچنے کیلئے، نافذ کی گئی تدابیر کو جواز فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ "ہسپانوی فلو” نے 1918 سے 1920 کے درمیان دنیا کی ایک چوتھائی آبادی یا 50 ملین اموات کے ساتھ تقریبا 500 ملین افراد کو متاثر کیا تھا۔ ہم نے وبائی امراض سے نبٹنے کیلئے ہنگامی منصوبے تیار کیے تھے ، جو وبا کے دوبارہ پھوٹ پڑنے کی صورت میں تیزی سے حرکت میں آنے کیلئے تیار تھے۔

تادم تحریر ، برطانیہ میں 422 اموات، اور 8،077 ثابت شدہ معاملات میں موت کی شرح 5 فیصد ہے۔ اکثر وجہ تشویش کے طور پر اس کا حوالہ دیا جاتا ہے، ، جو موسمی بخار سے ہونے والی ہلاکت کی شرح سے متصادم ہے ، جس کا تخمینہ تقریبا 0.01 فی صد ہے۔ لیکن ہمیں اعداد و شمار کو بہت غور سے دیکھنا چاہئے۔ کیا یہ اعداد و شمار واقعی موازنہ کے قابل ہیں؟

برطانیہ میں زیادہ تر جانچ اسپتالوں میں ہوتے ہے ، جہاں کسی بھی انفیکشن کے اثرات قبول کرنے کی صلاحیت رکھنے والے مریضوں کی آمد(توجہ) بہت زیادہ ہوتی ہے۔ جیسا کہ مریضوں کے ساتھ کام کرنے والے ہر شخص کو معلوم ہوگا کہ، کوئی بھی جانچ کا نظام جو صرف اسپتالوں میں ہے وہ انفیکشن کی شدت کا اندازہ لگانے میں مبالغہ سے کام لیتا ہے۔ نیز ہم صرف ان "کوویڈ 19” کے معاملات کو چھیڑ رہے ہیں جن میں لوگ کافی حد تک بیمار ہو چکے ہیں، یا ٹیسٹ کرنے سے کافی پریشان ہیں۔ بہت سارے ایسے لوگ ہیں جنہیں علم ہی نہیں ہوگا کہ ان میں وائرس ہے ، ان میں یا تو کوئی علامت سرے سے نہیں ہوگی یا بہت متوسط ہوگی۔

کوئی بھی جانچ کا نظام جو صرف اسپتالوں میں ہی قائم ہوتا ہے وہ کسی انفیکشن کی شدت کا اندازہ لگانے میں مبالغہ کام لیتا یے۔

اسی وجہ سے ، جب برطانیہ میں 590 تشخیص شدہ معاملات تھے ،اس وقت حکومت کے اعلی سائنسی مشیر "سر پیٹرک والنس” ، نے مشورہ دیا کہ اصل تعداد شاید 5،000 سے 10،000 کے درمیان ہے۔ ، جو 10 سے 20 گنا زیادہ ہے۔ اگر ان کی رائے درست ہے، تو اس وائرس کی وجہ سے ہونے والی اموات کی شرح 10 سے 20 گنا کم رہنے کا امکان ہے ، 0.25 فیصد سے 0.5 فیصد تک کہہ سکتے ہیں۔ اس سے "کوویڈ ۔19” کی شرح اموات "بخار” جیسے انفیکشن کے درجہ میں آجاتے ہیں۔۔

لیکن ایک اور ممکنہ مزید سنگین مسئلہ ہے: یعنی جس طرح سے اموات رکارڈ کئے جاتے ہیں وہ طریقہ۔ اگر برطانیہ میں سانس کے انفیکشن سے کسی کی موت ہوجاتی ہے، تو انفیکشن کی مخصوص وجہ عموما قلمبند نہیں کی جاتی، جب تک کہ بیماری ایک غیر معمولی "قابل شناخت مرض” نہ ہو۔ لہذا برطانیہ میں سانس کی تکلیف سے ہونے والی اموات کی بہت بڑی تعداد کو "برانکو نیمونیا” ، "نمونیا” ، "بڑھاپہ” یا اسی طرح کے نام سے ریکارڈ کرلیا جاتا ہے۔ ہم حقیقتا بخار ، یا دوسرے موسمی انفیکشن کی جانچ نہیں کرتے ہیں۔ اگر مریض کہتا ہے ،اسے "کینسر” ، "موٹر نیورون ڈیزیز” یا کوئی اور سنگین بیماری ہے تو ، اسے ہی موت کی وجہ کے طور پر ریکارڈ کرلیا جاتا ہے ، اگر چہ اس کی آخری بیماری "سانس کا انفیکشن” ہی کیوں نا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ برطانوی "ڈیتھ سرٹیفیکیٹ” میں سانس کے انفیکشن کی وجہ سے ہونے والی اموات کا رکارڈ عام طور پر کم ہوتا ہے۔

اب ملاحظہ کریں کہ "کوویڈ 19” کے ظہور کے بعد سے کیا ہوا۔ قابل ذکر بیماریوں کی جدید فہرست بنائی گئی۔ اس فہرست میں "کوویڈ 19” کو شامل کرنے کیلئے ترمیم کی گئی ہے، اسی طرح اس فہرست میں چیچک "smallpox ” (جو کئی سالوں سے معدوم ہوگیا تھا) دنبل/”anthrax”، مالٹا بخار "brucellosis” ، طاعون”plague” اور کتے کی ہڑک/پاگل کتے کے کاٹنے کا جنون "rabies”، جیسے حالات (جنہیں زیادہ تر برطانیہ کے ڈاکٹر اپنے پورے کیریئر میں کبھی نہیں دیکھ پائیں گے) بھی شامل ہیں، . لیکن "فلو” اس میں شامل نہیں ہے، اس کا مطلب ہے کہ "کوویڈ ۔19” کے لئے ہونے والے ہر "پوزیٹیؤ ٹیسٹ” کے متعلق یہ ظاہر کیا جائے گا کہ یہ "فلو” یا کسی دیگر انفیکشن کی وجہ سے نہیں ہے۔

موجودہ فضا میں، "کوویڈ ۔19” "پوزیٹیؤ ٹیسٹ” والا ہر شخص دیکھ ریکھ کرنے والے طبی عملہ کے نزدیک یقینا معروف ہوگا: اگر ان مریضوں میں سے کوئی فوت ہوجاتا ہے، تو اس طرح کے زیادہ تر انفیکشن کی صورت میں معمول کے ضابطہ عمل کے برعکس، عملہ کو "ڈیتھ سرٹیفکیٹ” پر "کوویڈ 19” کا نام قلمبند کرنا ہوگا – موت کا سبب بننے والے "کوویڈ ۔19” اور اس "کوویڈ 19” کے مابین جو کسی دوسری وجہ سے مرنے والے شخص میں پایا جائے بڑا فرق ہے، "کوویڈ ۔19” کو قابل شناخت بنانے سے اموات کی تعداد میں اضافہ کا سبب ظاہر ہو سکتا ہے، چاہے یہ درست ہو یا نہیں، جس طرح اموات ر یکارڈ کئے جارہے صرف اس وجہ سے، ممکن ہے کہ یہ "فلو” کے مقابلہ کہیں زیادہ مہلک دکھائی دے ،۔
اگر ہم "کوویڈ ۔19” کے واقعات کم کرنے کے لئے مؤثر تدابیر اختیار کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اموات بھی کم ہوجائیں گی۔ *ہمیں خطرہ ہے کہ کہیں ہمیں اس بات کا یقین نہ ہو جائے کہ، ہم نے ایسی کوئی چیز ٹال دی ہے جو حقیقت میں اتنی سخت نہیں تھی جتنا ہمیں خدشہ تھا*۔ "کوویڈ ۔19” سے ہونے والی اموات کی اطلاع دہندگی کا یہ غیر معمولی طریقہ اس واضح دریافت کو بیان کرتا ہے کہ اس کے بیشتر متاثرین میں مخفی حالات پائے جاتے ہیں، – اور ان میں عموما دوسرے موسمی وائرس سے اثر پذیر ہونے کی اہلیت ہوتی ہے، جو عملا موت کی ایک خاص وجہ کے طور پر کبھی بھی ریکارڈ نہیں کیے جاتے۔

آئیے ہم "کوویڈ ۔19” کے نقشہ پر بھی غور کریں ، جس میں کیسیز اور اموات میں غیر معمولی اضافہ دکھایا گیا ہے۔ یہ بڑے خوفناک لگتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اسی طرح سے "فلو” یا دیگر "موسمی وائرسوں” کا سراغ لگاتے تو ان میں بھی غیر معمولی اضافہ نظر آتا۔ ہم آگے پیچھے کچھ ممالک کا بھی جائزہ لیں گے، اور نمایاں شرح اموات پر بھی نظر ڈالیں گے۔ مثلا ریاست ہائے متحدہ کے مرا کز برائے انسداد امراض "فلو” کیسیز کے ہفتہ وار تخمینے شائع کرتے ہیں۔ تازہ ترین اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ستمبر کے بعد سے ، 38 ملین امریکی، "فلو” سے متاثر ہوچکے ہیں، 390،000 کو اسپتال میں داخل کیا اور 23،000 کی موت واقع ہوگئی۔ اسے لوگ خوف زدہ نہیں ہوتےہیں، کیونکہ لوگ "فلو” سے مانوس ہوچکے ہیں۔

"کوویڈ ۔19” کے اعداد و شماربڑی حد تک ایک ملک سے دوسرے ملک میں مختلف ہیں۔ اٹلی اور جرمنی کے اعداد و شمار دیکھیں۔ تادم تحریر تحریر، اٹلی میں 69،176 معاملے درج ہوئے ہیں جبکہ 6،820 اموات ہوئیں ہیں ، جن کی شرح 9.9 فیصد ہے۔ جرمنی میں 32،986 "کیسز” اور 157 "اموات” ہوئی ہیں ، جس کی شرح 0.5 فیصد ہے۔ کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان قریبی ممالک میں وائرس کی ساخت اتنی مختلف ہے کہ یہ عملی طور پر مختلف بیماریاں لگتی ہیں؟ یا یہ کہ دونوں کی آبادی وائرس سے متاثر ہونے کی اہلیت میں اس قدر مختلف ہے کہ اموات کی شرح بیس گنا سے بھی زیادہ مختلف ہوسکتی ہے۔ اگر نہیں، تو ہمیں یہ لگنا چاہئے کہ اس میں "انتظامی غلطی” کا شبہہ ہے، کیوں کہ کہ ہم مختلف ممالک سے لئے گئے "کوویڈ 19” کے جو اعداد و شمار دیکھ رہے ہیں ان میں سرے سے کوئی موازنہ ہے ہی نہیں۔

دیگر شرحوں پر نظر ڈالیں: اسپین میں 7.1 فیصد ، امریکہ میں 1.3 فیصد ، سوئٹزرلینڈ میں 1.3 فیصد ، فرانس میں 4.3 فیصد ، جنوبی کوریا میں 1.3 فیصد ، ایران میں 7.8 فیصد۔ ہم بہت اچھی طرح سیب کا سنترے کے ساتھ موازنہ کر سکتے ہیں۔ وائرس کے "پوزیٹیو کیس” کا ریکارڈ، "وائرس” کو موت کا اصل سبب قرار دینے سے بہت ہی مختلف ہے۔
"آئس لینڈ” جو ایک ایسا ملک ہے جہاں ملکی آبادی میں، وسیع پیمانے پر، جانچ کے لئے، ایک بہت مضبوط ادارہ ہے، وہاں کے ابتدائی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ پچاس فیصد کے بقدر انفیکشن وہ ہیں جن میں تقریبا سرے سے علامات ہیں ہی نہیں۔ باقی سب نسبتا معمولی ہیں۔ دراصل، ” آئس لینڈ” کے اعداد و شمار کے مطابق، 648 کیسز اور اسی سے منسوب دو اموات ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ موت کی شرح 0.3 فیصد ہیں، چونکہ دنیا میں آبادی کی جانچ کہیں زیادہ پھیل جاتی ہے، ایسے میں وہاں کیسز کا بہت بڑا تناسب نظر آتا ہے، جہاں انفیکشن پہلے ہی آچکے ہوچکے ہوں، اور اس کے بہت ہلکے اثرات مرتب ہوئے۔ در حقیقت، جیسے جیسے وقت آگے بڑھتا جارہا ہے، عام طور پر یہ بھی ایک طے شدہ سچائی بن جائے گی، کیوں کہ وبائی بیماری میں اضافہ ہونے کے ساتھ ہی، زیادہ تر، انفیکشن کی شدت میں بھی کمی آجاتی ہے۔
ایک خوبصورت واضح اشارہ اموات ہیں۔ اگر ایک نیا انفیکشن بہت سارے افراد کی موت کا سبب بن رہا ہے (ویسے ہی دم توڑ چکے لوگوں میں انفکشن کے برعکس) تو یہ مجموعی طور پر، اس کی وجہ سے شرح اموات میں اضافہ ہوگا۔ لیکن تب بھی ہمیں دنیا کے کسی حصہ میں ہونے والی اضافی اموات کے اعداد و شمار پر مبنی شواہد دیکھنے ہوں گے۔

"کوویڈ ۔19” کچھ مریضوں میں، خاص طور پر سینے کی پریشانی میں مبتلا، اور تمباکو نوشی کرنے والوں کیلئے، واضح طور پر سانس کی نالی میں خطرے کا سبب بن سکتا ہے۔ بوڑھوں کو شاید زیادہ خطرہ ہو، کیونکہ انہیں کسی بھی طرح کے انفیکشن کا اندیشہ رہتا ہے۔ اٹلی میں مرنے والوں کی اوسط عمر، 78.5 سال ہے، 10 میں سے تقریبا 9 اموات 70 سال سے زیادہ عمروالوں کے درمیان ہوئی ہیں۔ اٹلی میں متوقع مدۃ حیات 82.5 سال ہے- یعنی وہ عرصہ جن میں آپ پیدائش کے وقت سے زندہ رہنے کی توقع رکھتے ہیں، تمام چیزیں مساوی ہیں۔لیکن جب کوئی نیا "موسمی وائرس” پھیلتا ہے، تو سبھی چیزیں برابر نہیں رہ پاتیں۔
اب یہ یقینا معقول لگتا ہے، کہ تھوڑی دیر کے لئے ، خاص طور پر بوڑھوں اور ناقص "قوت مدافعت” والوں کو ایک حد تک "معاشرتی دوری” بناکے رکھنی چاہئے۔ لیکن جب سخت اور مؤثر تدابیر متعارف کرائے جائیں، تو وہ واضح شواہد پر مبنی ہوں۔ "کوویڈ ۔19” کے معاملے میں، ثبوت واضح نہیں ہیں۔ "برطانیہ” کے "لاک ڈاؤن” کے متعلق ماڈل پی
مضمون نگار: جان لی، ماہر علم الامراض۔
ترجمہ: محمد اللہ قیصر

ہوئے، بتایا گیا کہ کیا ہوسکتا ہے۔ ان نمونوں کے متعلق مزید جاننے کی ضرورت ہے۔ عمر ، پہلے سے موجود حالات ، بدلتی ہوئی ہلاکت خیزی ، "ڈیتھ سرٹیفکیٹ”اور دوسرے حقائق کے اثرات کے سبب، کیا وہ درست ہیں؟ ان میں سے کسی بھی مفروضے کو اٹھالیں، نتائج (اور اموات کی متوقع تعداد) یکسر تبدیل ہوسکتے ہیں۔
"کوویڈ ۔19” کے بیشتر نتائج کی وضاحت اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ ہم اس وائرس کو جس انداز سے دیکھ رہے ہیں، اب سے پہلے کسی وائرس کو اس طرح نہیں دیکھا گیا تھا۔ اطالوی اسپتالوں کے مناظر اب تک حیران کن رہے ہیں ہیں اور وہ "ڈراؤنے ٹیلی ویژن” کے لئے بنائے گئے ہیں۔ لیکن ٹیلی ویژن سائنس نہیں ہے۔
واضح طور پر ، مختلف "لاک ڈاؤن” "کوویڈ ۔19” کا پھیلاؤ کم کردیں گے، لہذا اس کے کیسز کم ہوں گے۔ جب ہم تدابیر میں نرمی کریں گے تو ، مزید کیسز دوبارہ سامنے آئیں گے۔ لیکن یہ "ضروت” "لاک ڈاؤن” کو برقرار رکھنے کی وجہ نہیں ہوسکتی: اگر ہم غیر معمولی مہلک وائرس سے نمٹ رہے ہیں تو ڈرنے والی چیز صرف اور صرف کیسز کا پھیلاؤ ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ڈیٹا ریکارڈ کرنے کا طریقہ بہت اہم ہوگا۔ جب تک ہم صرف وائرس سے ہونے والی اموات کی ریکارڈنگ کے معیار کو سخت نہیں کرتے ( دوسرے حالات کی وجہ سے مرنے والوں میں، موجود انفکشن کے برعکس) ، ممکن ہے سرکاری اعداد و شمار میں وائرس کے سبب ہونے والی اموات کی تعداد، حقیقت سے بہت زیادہ نظر آ ئیں۔ پھر کیا؟ ایک متوقعہ خطرہ سے بچانے کیلئے، لوگوں کی جان، ان کی نوکری ، فرصت کے لمحات اور ان کے مقاصد سے انہیں دور کر نے کے نتیجہ میں ظہور پذیر صحت کی حالت کا اندازہ کیسے لگا سکتے ہیں؟ جس سے کم سے کم نقصان ہو؟

اخلاقی بحث "زندگی” بنام "پیسہ” کی نہیں ہے۔ یہ زندگی بمقابلہ زندگی کی بحث ہے۔ ہم جو کچھ کر رہے ہیں اس کے وسیع تر مضمرات کا اندازہ لگانے میں مہینوں ، شاید سالوں لگ سکتے ہیں، ،( *اگر کبھی کبھی ہوا تو*، )۔ بچوں کی تعلیم کے نقصانات ، حد سے زیادہ خودکشی ، ذہنی صحت سے متعلق مسائل میں اضافہ ، صحت سے متعلق دوسری مشکلات جن کا ہم مؤثر طریقے سے مقابلہ کر رہے ہیں ان سے وسائل کی دوری ۔ جن کو ابھی طبی امداد کی ضرورت ہے لیکن وہ اس کی تلاش نہیں کر سکتے ، یا شاید انہیں نہیں دی جا سکتی، کھانے پینے کی پیداوار، اور عالمی تجارت پر ہونے والے اثرات کے متعلق کیا کہا جائے گا؟ جس سے ہر عمر کے لوگ ، بالخصوص ترقی پذیر معیشت والے ممالک میں رہنے والوں کیلئے ناقابل قیاس نتائج برآمد ہوں گے؟
ہر جگہ کی حکومتوں کا کہنا ہے، کہ وہ سائنس کی ہدایات پر عمل کر رہی ہیں۔ برطانیہ کی پالیسیاں حکومت کی غلطی نہیں ہیں۔ وہ دئے گئے سائنٹفک مشوروں کی بنیاد پر ذمہ داری کے ساتھ کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن حکومتوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ "جلدباز سائنس تقریبا ہمیشہ ہی خراب سائنس ہوتی ہے”۔ ہم نے پہلے ہی ظہور پذیر اضافی نقصانات کے ٹھوس ثبوت اور جواز فراہم کرنے والے مناسب "سائنسی تفتیش” کے بغیر ہی، غیر معمولی طور، بڑی بڑی پالیسیوں کا فیصلہ کرلیا ہے۔

اگلے کچھ دن اور ہفتوں میں ، "کوویڈ 19″ کے ثبوت ملتے ہی ہمیں ان پر تنقیدی اور سنجیدہ نظر رکھنی چاہئے۔ سب سے بڑھ کر ، ہمیں ایک کھلا ذہن رکھنے کی ضرورت ہے، – اور اسے دیکھنا ہوگا کہ وہ اصل میں کیا ہے، نہ کہ اسے جسکا ہمیں خدشہ ہے کہ وہ ہو سکتا ہے۔

*”جان لی” پیتھالوجی کے حالیہ ریٹائرڈ پروفیسر اور سابقہ ​​NHS مشیر ماہر علم الامراض ہیں۔

Comments are closed.