مرکز نظام الدین اور میڈیا کا متعصبانہ اور غیر ذمہ دارانہ کردار

مفتی محمدشرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
امام وخطیب مسجدانوارشیواجی نگر،گوونڈی ممبئی
صحافت اور میڈیا اپنے فرائض،اپنے مواد،اور ملک وقوم سے اس کی مضبوط وابستگی کی بنیاد پر ویسے تو دنیا کے تمام ممالک اور قوم وملت کی تعمیر وترقی اور ادبار و تنزل میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے،لیکن بالخصوص ایک جمہوری ملک میں اپنی ناقابل انکار حیثیت کے باعث یہ ستون کا درجہ رکھتی ہے۔
شعوری طور پر مکمل اہتمام کے ساتھ فن کی صورت میں اس کا وجود اس مقصد کے لیے قائم ہوا تھا کہ اس کے ذریعے صداقت کی تلاش وجستجو کی جائے، سچائیوں کی دریافت کی جائے، سماج میں اسے عام کیا جائے،معاشرے میں وہ کردار وعمل جو اس کی ارتقاء کا زینہ ہوں ،وہ حرکت وعمل جو ملک کی سلامتی کا باعث ہوں، وہ منصوبے اور پلاننگ جس سے سماج میں امن وسکون کی فضا ہموار ہو،ان کی تشہیر کی جائے،ان کی حوصلہ افزائی کی جائے،اور اس کے ذریعے لوگوں میں ملک وقوم کے ارتقاء کا جذبہ پیدا کیا جائے،اور ہر وہ کردار جس سے نقض امن کا خطرہ ہو، ہر وہ عمل جو ملک ومعاشرے کی سلامتی کے سم قاتل ہوں،ہر وہ کردار جس سے ملک میں نفرت کی فضا قائم ہو، اور ہر منصوبے جو قوم کو سماج کو ملک کو ادبار وتنزل کی راہوں پر لے جانے والے ہوں،انہیں بے نقاب کر کے سازشوں کو ناکام کیا جائے،نفرتوں کے کرداروں کو عوام کے سامنے لاکر ان کی حوصلہ شکنی کی جائے،ملک کو ایسے عناصر سے تحفظ کی راہیں ہموار کی جائیں،معاشرے کو فتنہ وفساد سے محفوظ کیا جائے۔
اس میں شک نہیں کہ صداقت ودیانت کا یہ راستہ پرخطر ہے،کانٹوں سے بھرا ہوا ہے،اس راہ میں کبھی سیاسی طاقتوں کی چٹانیں سدراہ ہوتی ہیں،کبھی حکومتی قوتیں دیوار بن کر نصب العین کے سامنے کھڑی ہوجاتی ہیں،کبھی کھنکتے سکوں کی آوازیں مقصد سے انحراف کا سبز دکھاتی ہیں اور ضمیر وقلب کو خریدنے کی کوشش کرتی ہیں،مگر ایک دیانت دار اور صداقت کی علمبردار صحافت اپنے فرائض پر سختی سے قائم رہتی ہے، تو یہی چٹانیں اس کی راہ میں گرد بن جایا کرتی ہیں۔
صداقت کی یہی وہ قربانی اور فرض شناسی کا یہی وہ عمل ہے،جس کی وجہ سے اس پیشہ کو تقدس واحترام کے آسمان پر رکھا گیا،اسے معاشرے میں بلند وقار عطا ہوا،سماج میں اسے اعلی حیثیت سے جانا گیا، اور ملک کی ترقی کا اسے زینہ قرار دیا گیا۔۔
مگر موجودہ عہد کا یہ انتہائی تشویشناک اور افسوسناک المیہ ہے کہ سماج کا یہ محترم پیشہ عالمی پیمانے پر اپنے راستے سے یکسر منحرف ہوگیا،عالمی میڈیا نے اسلام کے خلاف دشمنی اور عناد میں صداقتوں کا خون کرکے اس پیشے کو تار تار کرڈالا جس کی ایک طویل داستان ہے،عراق کی صرف ایک مثال سے اس کا مکمل چہرہ دیکھا جاسکتا ہے جس میں صدام سے متعلق مہلک ہتھیاروں کے الزام کے ذریعے اس ملک کو تاراج کرنے کی فضا ہموار کی گئی اور پھر اسے آگ کے شعلوں میں جھونک دیا گیا۔اس کے اسی غیر ذمہ دارانہ اور متعصبانہ کرداروں اور جھوٹ وافترا پرداز کرداروں کی وجہ سے ایک امریکی دانشور نے کہا ہے،اس عہد میں میڈیا کی تین قسمیں ہیں 1۔ایک وہ صداقت کے راستے پر ہےاور سچائی پر قائم ہے،یہ کھیل اور ثقافت کی خبریں نشر کرتی ہے۔دوسری وہ نیم صداقت پر عمل پیرا ہے اور یہ تجارتی اور اقتصادی اشتہارات کا کام کرتی ہے۔تیسری بدترین قسم وہ ہے جو سراسر جھوٹ،فریب،اور یکسر خلاف واقعہ خبروں کی ساخت کرتی ہے۔
بدقسمتی یہ ہے ملک بھارت کی میڈیا نےبھی پورے دھڑلے سے اور علی الاعلان اپنے فرائض کو چھوڑ کر نفرت وعناد اور کذب و افتراء کی راہوں پر چل کر ملک کے امن پسند ماحول کو مسموم کرڈالا ہے،اس کے اسی عمل کی وجہ سے آج ہر انصاف پسند اسے تیسری مجرمانہ قسم میں شامل کرنے پر مجبور ہے،حالانکہ یہ ایک ایسے ملک کی ترجمان تھی جہاں اسے ستون کا درجہ حاصل ہے،جو سرے سے جمہوری ہے،سیکولر ازم جس کی پہچان ہے، مگر تعصب وعناد اور فرقہ پرستی ونسل پرستی کے زیر اثر اس نے سرے سے اپنے بنیادی فرض کو فراموش کرڈلا،یہ سچائی نہیں بلکہ جھوٹ وفریب اور پروپیگنڈوں کے ذریعے فرقہ پرستی کے نظریات کا آرگن بن چکی ہے، یہ کبھی ملک کی ترقی کا زینہ ہوا کرتی تھی مگر عصر حاضر میں یہ ملک میں افراتفری،انتشار ،فتنہ وفساد اور انارکی پھیلانے اور ایک قوم کی دشمنی اور عداوت میں ملک کو ہر لحاظ سے پسماندگی کے غار میں دھکیلنے کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکی ہے،اس نے نظریات کے اختلاف کے باعث انہیں عناصر کو اپنے کردار وعمل سے استحکام عطا کیا ہے جو جمہوریت کے مخالف ہیں،رواداری کے دشمن ہیں،اس نے اپنے ضمیر کو چند سکوں کے عوض فروخت کرکے جھوٹ اور شیشہ سازی اور گمراہی کی اشاعت کی ذمہ داریاں اوڑھ لی ہے، یہ ملک کی،معاشرے کی،سماج کی،ترجمان نہیں بلکہ یہ فرقہ واریت،منافرانہ نظریات، نسل پرستانہ افکار کا مکمل طور پر ترجمان بن چکی ہے،اس کی آواز اپنی آواز نہیں بلکہ انتہا پسند قوتوں کی آواز ہے،اس کا نظریہ اپنا نظریہ نہیں بلکہ ان اذہان کا ہے،جو سیکولر ازم سے ناآشنا ہیں جو رواداری کے خلاف ہیں،جو انصاف ودیانت اور انسانیت کے مخالف ہیں۔
ایسی صورت میں اس شعبے سے خیر کی توقع رکھنا انصاف کی امید رکھنا، سچ اور دیانت کی آرزو کرنا ایسا ہی ہے،جیسے بکری بھوکے شیر کے پاس پناہ حاصل کے لئے قدم بڑھادے، ہرچند وقت کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ خود وہ قوم جو اس کے نشانے پر ہر موڑ پر احتیاط سے کام لے،مگر احتیاط کا سفر بھی تو لامحدود نہیں،کسی نہ کسی حد پر اس کی انتہا لازمی ہے،ملک کے لاک ڈاؤن میں عوام کے شانہ بشانہ مسلم قوم بھی کھڑی ہے، کرونا وائرس
کے معاملے میں مساجد بند کرنے کا حکم صادر ہوا مسلمانوں نے مجموعی طور پر مساجد کو خالی کرڈالا، دوسری قوموں کے ساتھ مسلم قوم نے بھی اپنی ضروریات کو پس پشت ڈال کر گھروں میں مکانات میں قید ہوگئے،وبائی مرض کو پھیلنا تھا وہ پھیلا اور یہ حقیقت ہے کہ سب سے پہلا وہ شخص جو اس موذی مرض کا شکار ہوا وہ مسلمان نہیں بلکہ غیر مسلم تھا اور اب تک تناسب متاثرین کا مسلمانوں میں بہت کم ہے،لیکن باوجود اس کے میڈیا نے ببانگ دہل یہ چیخ و پکار شروع کردی کہ یہ وائرس مسجدوں سے پھیل رہا ہےاور اس کے سب سے زیادہ شکار مسلمان ہیں، حالانکہ سچائی یہ ہےکہ
حیدرآباد میں مسلم اکثریت کے باعث اگر متاثرین کی تعداد زیادہ نظر آئی تو یہ اسی شہر کے اعتبار سے تھی ٹھیک اسی طرح ناگپور میں غیر مسلم کی تعداد زیادہ ہے،مگر یہ چیز میڈیا والوں نے دانستہ نظر انداز کرکے پورے ملک کے اعتبار سے مسلمانوں کا فیصد زیادہ دکھایا۔
مرکز نظام الدین دہلی سے متعلق بھی ماضی کی طرح اس کا رویہ انتہائی گھناؤنا،متعصبانہ اور فرقہ وارانہ ہے،اس معاملے میں اس نے اس ادارے کو بدنام کرنے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی،ایسا محسوس ہوتا ہےکہ منظم پلاننگ کے تحت اس کو بدنام کرکے اس کے خلاف ملک بھر میں نفرتوں کا بازار گرم کردیا جائے۔
یہ ہر فرد جانتا ہے بلکہ اس اچانک فیصلے سے وہ پریشان بھی ہے،جس میں اچانک نقل وحرکت پر پابندی عائد ہوگئی جو جہاں ہےوہیں رکنے پر مجبور ہوگیا چاہے اس کے پاس رات گذارنے کی جگہ اور کھانے کا انتظام ہو یا نہ ہو،مرکز میں بھی یہی دشواری پیش آئی قانون کے مطابق مولانا سعد صاحب نے پولیس محکمے میں لیٹر لکھا حالات سے آگاہ کیا کہ ہم نے بہت سارے لوگوں کو کسی طرح واپس کردیا ہےاور تقریباً بارہ سو افراد ہمارے یہاں مقیم ہیں محکمہ ان کی واپسی کا انتظام کرے، اس کے باوجود منصوبہ بند طریقے سے مرکز کی عمارت کو فورس کے ذریعے گھیر لیا گیا اس طرح جیسے یہ جرائم کی آماجگاہ ہو۔
حیرت یہ ہےکہ سیکولر ازم کے نام سے جانا جانے والا چہرہ کیجریوال نے بھی اس سازش کا حصہ بن کر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی مانگ کرکے مسلم دشمنی کا نہایت گھناؤنا ثبوت پیش کیا ہے،یہ تو حکومت کی ذمہ داری تھی اور پولیس کا فریضہ تھا کہ جب انہیں باضابطہ اطلاع مرکز کے امیر سے مل چکی تھی تو وہ ٹرانسپورٹ کا انتظام کرتے،لیکن ایسا نہ کرکے انہوں نے الٹا سارا الزام مرکز پر لگا کر اچانک انہیں مجرم کی صف میں کھڑا کردیا اور ان کے خلاف کارروائی کرکے جمہوریت وانسانیت کا گلا گھونٹ ڈالا، سینکڑوں افراد کو قید کرلیا گیا۔ایک انصاف ور شخص اس تناظر میں یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ مرکز سے اطلاع کے بعد اس طرف توجہ نہ کرنا درحقیقت یہ خود جرم ہے جو پولیس محکمہ اور حکومت کی طرف سے ہوا ہے
لیکن کیا قیامت ہے کہ اس جرم کا تو کہیں ذکر نہیں اور جس نے قانون اور ضابطے کی تمام شرائط پوری کی اسے میڈیا نے مجرم کی صف میں کھڑا کردیا، سچ ہے کہ طاقت اور قوت کی حکمرانی ہوتی ہے تو اسی کے مطابق مادہ پرست اور زر پرست اپنے کرداروں کا تعین کرتے ہیں یہاں میڈیا مکمل طور پر اسی راہ پر کھڑی ہے۔
اپنے دامن کو سیاہ کرتوتوں سے داغدار کرنے والی اس بدنام زمانہ میڈیا کو اس تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ قانونی اعتبار سے مرکز نے اپنا فرض ادا کیا ہے یا نہیں،اسے بس ایک موقع مل گیا اور اس کے خلاف ایک محاذ کھول دیاکہ ان لوگوں نے لاک ڈاؤن کی پروا نہیں کی اور قانون کی خلاف ورزی کی،اس مرکز میں بہت سے لوگ وائرس کا شکار ہیں، جو ملک کی تباہی کا ذریعہ ہیں،حالانکہ یہ ایسا ہی سفید جھوٹ ہےجس طرح دوپہر کو کوئی شخص رات کہ دے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اب تک ایک فرد بھی اس وائرس سے متاثر نہیں ہوا ہے،اور اطلاع نامہ کی کاپی بھی موجود ہے۔
میڈیا کے اینکروں کو یہاں تباہی نظر آگئی مگر اسی لاک ڈاؤن میں وزارت کا جشن،تھالیاں بجانے کا جلوس،نظر نہیں آیا، نظام الدین میں مسلمانوں کے اجتماع سے اسے ملک میں وائرس پھیلنے کا خطرہ محسوس ہوگیا مگر اسی ملک کے ایک صوبے کے وزیر اعلی کا جشن بنیاد اور اس سلسلے میں بے شمار لوگوں کے اجتماع میں کوئی خرابی نظر نہیں آئی، دہلی کے اس مرکز میں ایک ساتھ لوگوں کا قیام اس بیماری کے پھیلنے کا ذریعہ یقینی درجہ میں ہوگیا۔مگر دہلی سے ہزاروں کی تعداد میں ایک ساتھ سفر ایک ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور ایک ساتھ قیام میں اسے کوئی قباحت نظر نہیں آئی،اور نہ ہی اس مخلوق کے دلوں میں ان کے متعلق کوئی درد پیدا ہوا جو پیدل ہزار ہزار کلومیٹر کے سفر کی وجہ سے دم توڑ گئے،صبح میں مخصوص اوقات میں بازاروں کے کھلنے کی وجہ اچانک پبلک کے اژدہام میں ان افراد کو کہیں بھی کرونا معلوم نہیں ہوسکا۔
اگر اس شعبے میں ذرا بھی انصاف کی رمق ہوتی اور ذرا بھی صداقت اور انسانیت ہوتی تو ملک کے وہ لاکھوں افراد جو اچانک کرفیو کی وجہ سے افلاس کی وجہ سے،فاقہ کشی کی وجہ، سے موت کے منہ میں چلے گئے،ان کے بارے میں اظہار خیال کرتی،اس کے اینکر ان کے مسائل پر بات کرکے ان کے انتظام کی راہ ہموار کرتے، ہزاروں افراد جو ہزاروں کلومیٹر کے سفر میں موت وحیات کی کشمکشِ میں ہیں ان کی زندگی ان کی دشواری اور ان کی بے کسی کے متعلق آواز اٹھا کر ان کو منزلوں تک پہونچا کر ان کی سالمیت کو یقینی بناتے۔
مگر یہاں وہ تمام بنیادی مسائل اس قدر بے حیثیت ہیں کہ ان کا کہیں ذکر تک نہیں ہے،کیا یہی انسانیت کی خدمت ہے؟ کیا اسی کو انصاف اور قوم کی خدمت کہیں گے؟ کیا یہی جمہوریت اور جرنل ازم کا فرض ہے،کہ ملک کے تمام سیاسی،معاشی ،اقتصادی مسائل سے آنکھیں بند کرکے منصوبہ بند طریقے سے صرف ایک قوم کے خلاف محاذ کھول دیا جائے۔
دنیا کا انتہائی غیر مہذب شخص جسے تمدن کی ہوا بھی نہیں لگی ہو وہ بھی اسے سیاہ کردار کہے گا، وہ اس اعلان پر مجبور ہوگا کہ میڈیا کا یہ مجرمانہ رویہ تعصب ہے،تنگ نظری ہے،فرقہ پرستی ہے، نفرت کی سوداگری ہے، یہ جرنلزم نہیں بلکہ ملک کو بدنام کرنے والی ،امن و سلامتی کو تار تار کرنے والی،انسانوں کے درمیان تفریق پیدا کرنے والی فسطائیت کی وہ آواز ہے جس نے معاشرے میں فرقہ واریت کی آگ پھیلا کر اس کی سالمیت اور استحکام کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔
Comments are closed.