خود احتسابی اور انسانیت زندہ رکھنے کی ضرورت

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

اس وقت ملک سنگین حالات سے گزر رہا ہے ۔ ایسے میں بھی مودی جی نے من کی بات کر ہی لی ۔ 21 دن کے لوک ڈاؤن سے ہو رہی پریشانی کے لئے معافی مانگی مگر اسے ضروری بتایا ۔ تیاری اور سوچے سمجھے بغیر اٹھائے گئے لاک ڈاؤن کے قدم نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی یاد تازہ کر دی ۔ نوٹ بندی کو بھی انہوں نے ضروری بتایا تھا ۔ ملک تب بھی لائنوں میں کھڑے ہو کر تکلیف کو جھیل گیا ۔ لائن میں لگنے سے 125 سے زیادہ لوگوں نے جان گنوائی اور جی ایس ٹی نے کاروبار کو برباد کر دیا ۔ لوگ اب بھی گھروں میں بند ہو کر دقت برداشت کر رہے ہیں ۔ اس بار وجہ جائز بھی ہے کیونکہ سوال زندگی کا ہے ۔ مگر مسئلہ اس بے گھر غریب آدمی کا ہے جو سرکار کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے گاؤں اور شہر کے بیچ پھنس کر رہ گیا ہے ۔ وہ پیدل ہی اپنے گھر کی طرف نکل پڑا ہے ۔ سماجی فاصلہ بنا کر رکھنے کے قاعدہ کے باوجود وہ بس اڈوں کا حصہ بن رہا ہے ۔ اسے ڈر ہے کہ کہیں وہ کورونا سے پہلے بھوک سے نہ مر جائے ۔ مودی جی چاہتے تو اس ڈر کو پنپنے سے روک سکتے تھے لیکن وہ ایسا کرنے سے چوک گئے ۔ معافی مانگنی ہی ہے تو اس غریب، مزدور سے مانگیں جو سر پر بوجھا لادے چھوٹے بچوں کی انگلی پکڑے چار پانچ سو کلومیٹر کے سفر پر پیدل ہی چل پڑا ہے ۔ اس کے پاس نہ کھانا ہے نہ پانی، جیب میں پیسے بھی نہیں ہیں ۔ اوپر سے وہ جگہ جگہ پولس کی بربریت کا شکار بن رہا ہے ۔ کہیں پولس ڈنڈے مار رہی ہے تو کہیں مرغا بنا کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہے ۔

اتنی بڑی تعداد میں دہاڑی و غیر منظم سیکٹر، چھوٹے کارخانوں، تعمیراتی سائٹ پر کام کرنے والے مزدوروں کی نقل مکانی ملک نے شاید پہلے کبھی دیکھی ہو ۔ اس بات کو سوچ کر ہی ڈر لگتا ہے کہ اگر ان میں کچھ کورونا کے مشتبہ مریض ہوئے تو بیماری کہاں تک پہنچ جائے گی ۔ اگر ایسا ہوا تو حالات سنبھالے نہیں سنبھلیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ اس افراتفری کی نوبت کیوں آئی؟ ایک دن کے جنتا کرفیو میں جب پورے ملک نے ساتھ دیا تھا تو مکمل لوک ڈاؤن سے پہلے اس کی تیاری کیوں نہیں کی گئی؟ جنتا کرفیو سے پہلے چار دن کا وقت دیا گیا مگر مکمل بند سے پہلے وقت کیوں نہیں دیا گیا؟ اور کیوں سیاسی جماعتوں، ریاستی سرکاروں اور تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ نہیں کیا گیا؟ سیاسی جماعتوں اور ریاستی حکومتوں کو اعتماد میں لینا ہو سکتا ہے مودی جی کو پسند نہ ہو، مگر اپنی کابینہ سے صلاح مشورہ کرنے میں انہیں کیا دشواری تھی یہ بات سمجھ سے پرے ہے ۔ تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمارے پڑوسی چین اور دنیا کے دیگر ممالک میں کورونا کا شور ہو رہا تھا اس وقت سرکار دہلی الیکشن کو فرقہ واریت کی بنیاد پر جیتنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ دہلی کے فساد کو اس نے شہریت قانون کے حامیوں اور مخالفین کے بیچ کا ٹکراؤ بتا کر نظر انداز کر دیا ۔ مدھیہ پردیش میں چنی ہوئی حکومت کو غیر مستحکم کر مشن لوٹس کو کامیاب کیا گیا ۔ معافی مانگنی ہی ہے تو مودی جی اس بات کے لئے مانگیں کہ انہیں کورونا وائرس سے ہونے والی سنگین بیماری کا احساس بہت دیر میں ہوا ۔

موجودہ حکومت کی غیر سنجیدگی کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے ۔ 12 فروری کو جب راہل گاندھی نے ٹویٹ کر کہا تھا کہ کورونا وائرس نے عالمی وبا کی شکل اختیار کر لی ہے ۔ ملک کو اس سے بچاؤ کے لئے تیاری کرنی چاہئے ۔ اس پر راہل گاندھی کو ٹرول کیا گیا ۔ فروری کے آخری ہفتے میں عالمی ادارہ صحت نے ایڈوائزری جاری کر سینی ٹائزر اور ماسک ایکسپورٹ نہ کرنے کی صلاح دی تھی ۔ اس کے باوجود بھارت سے یہ چیزیں ایکسپورٹ کی گئیں ۔ 29 فروری تک بھارت میں صرف دو مریض تھے ۔ وہ بھی باہر سے آئے تھے ۔ 5 مارچ کو مرکزی وزیر صحت نے کانگریس کی جانب سے متوجہ کئے جانے پر غیر ذمہ دارانہ جواب دیا ۔ وہیں بی جے پی کے اراکین گو موتر اور سن باتھ سے کورونا کے علاج کی بات کر رہے تھے ۔ 23 مارچ کو لاک ڈاؤن کا اعلان کرتے وقت وزیراعظم بیماری کو لے کر سنجیدہ دکھائی دئیے ۔ ان کے اپنوں نے ہی لاک ڈاؤن کی دھجیاں اُڑا دیں ۔ اسی بیچ شیوراج سنگھ چوہان نے شاہی تقریب منعقد کر وزیر اعلیٰ کا حلف لیا ۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ ادتیہ ناتھ لاہو لشکر کے ساتھ پہلے نوراترے کو پوجا کرنے ایودھیا پہچ گئے ۔ اس دوران ساکشی مہاراج کے باہر گھومنے کی تصویریں بھی وائرل ہوئیں ۔

سڑکوں پر چلنے سے کم از کم 24 مزدوروں کے مرنے کی خبر ہے ۔ ایک 38 سالہ نوجوان جے پور سے دو سو کلومیٹر پیدل چل کر آگرہ پہنچا ۔ پیدل چلنے سے اس کی حالت اتنی خراب ہو گئی کہ آگرہ پہنچ کر ہارٹ اٹیک سے اس کی موت ہو گئی ۔ گجرات ممبئی ہائی وے پر 7 مزدوروں کو ایک ٹیمپو نے روند دیا ان میں سے چار کی موت ہوگئی ۔ روزنامہ بھاسکر کی خبر کے مطابق 60 ہزار مزدوروں نے صرف گجرات کے مختلف شہروں کو کورونا کی وجہ سے خیر آباد کہا ۔ دہلی سے بھی بڑی تعداد میں مزدوروں نے پلائن کیا ہے ۔ دو لاکھ لوگوں کے آنند وہار بس اڈے سے لال کنواں تک پہنچنے پر دباؤ میں یوپی حکومت نے ایک ہزار بسیں چلانے کا اعلان کیا ۔ کئی لوگوں نے شکایت کی کہ کرایہ کے نام پر ان سے کئی گنا رقم وصول کی گئی ہے ۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ نے اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے مختلف ریاستوں کو خط لکھ کر یوپی کے مزدوروں کا خیال رکھنے کی گزارش کی ہے ۔ اگر لاک ڈاؤن سے پہلے ریاستوں کے درمیان تال میل قائم کیا جاتا تو مزدوروں کا مسئلہ اتنا سنگین نہ ہوتا ۔ یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ کتنے مزدور اپنے خاندان کے ساتھ گاؤں پہنچے ۔ اور کتنے مزدور و بچوں نے راستہ میں ہی دم توڑ دیا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مزدوروں کو کس چیز نے سڑکوں پر نکلنے کو مجبور کیا ؟
کام چھوٹنا، کھانے پینے، رہنے کا انتظام نہ ہونا اور پولس کے ذریعہ لاک ڈاؤن کو کامیاب کرنے کے لئے باہر نہ نکلنے دینے کو بڑی وجہ بتایا جا رہا ہے ۔ بظاہر یہ بات صحیح معلوم ہوتی ہے ۔ حکومت کی جانب سے تمام اعلانات ان کے لئے کئے گئے جن کا کسی نہ کسی شکل میں سرکار کے پاس اندراج ہے ۔ ایسے میں ان یومیہ مزدوروں، غریبوں اور بے گھر کمزور گھومنتو عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو گیا جن کے پاس وہاں کے سرکاری ریکارڈ میں اندراج کا کوئی ثبوت نہیں تھا جہاں وہ رہتے ہیں ۔ لہذا انہیں اپنی زندگی میں اندھیرا نظر آنے لگا ۔ اتنی بڑی بھیڑ کے بیماری، پولس کے ڈنڈے اور کسی بھی چیز کی پرواہ کئے بغیر نکلنے کی صرف یہی وجہ نہیں ہے ایسا لگتا ہے کہ مرکزی و ریاستی حکومت اور نظام صحت میں عوام کا بھروسہ کم ہوا ہے ۔ انہیں حکومت کی کسی بھی بات پر یقین نہیں ہے ۔ اس کا سبب ہے مصیبت میں بھی سیاست ۔ دوسرے کورونا کے مریضوں کے ساتھ سرکاری اسپتال کے عملے کا رویہ ۔ تیسرے کورونا سے مرنے والے کو چھونے یا آخری رسومات ادا کرنے کے لئے کسی کا تیار نہ ہونا ۔ بلند شہر کے روی شنکر کی مثال سامنے ہے ۔ جس کی ارتھی کو مسلمانوں نے شمشان گھاٹ تک پہنچایا اور آخری رسومات ادا کرائیں ۔ جن ریاستوں نے اس دوران بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا وہ سب غیر بی جے پی حکومت والی ریاستیں ہیں ۔ اس کے برعکس بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں سے مزدوروں، غریبوں کو بے عزت کرنے کے نادر نمونے سامنے آ رہے ہیں مثلاً یوپی کے بریلی میں دیگر علاقوں سے آئے مزدور، مرد عورت اور بچوں کو بیٹھا کر ان پر سینی ٹائز کرنے والی دوائی کا چھڑکاؤ کیا گیا ۔ ان میں سے بہتوں نے آنکھوں میں جلن کی شکایت کی ۔ انہیں اسپتال لے جانے کے بجائے گاؤں جانے کو کہہ دیا گیا ۔ مدھیہ پردیش میں پولس انسپکٹر نے ایک خاتون مزدور کے ماتھے پر لکھ دیا کہ میں نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کی ہے مجھ سے دور رہیں ۔ گجرات پولس نے سبزیوں کے ٹھیلے پلٹ دیئے ۔
افسوس اور شرم کی بات یہ ہے کہ اس مصیبت کی گھڑی میں بیماری کا مقابلہ کرنے کے لئے مل کر کام کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی اور سیاست ہو رہی ہے ۔ مزدوروں کے گھروں سے نکلنے کو مرکزی حکومت دہلی سرکار کو اور دہلی حکومت مرکز کو ذمہ دار ٹھرا رہی ہے ۔ مرکزی حکومت نے دہلی سرکار کے چار بیوروکریٹ جو رسد و فائنانس سے جڑے تھے کو معطل کر دیا ۔ جبکہ دہلی فساد میں لاپروائی برتنے والے کسی بھی پولس اہلکار کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی ۔ وقت اس بات پر دھیان دینے کا ہے کہ علاج کر رہے ڈاکٹروں کے پاس ضرورت کے مطابق اپنی حفاظت کے آلات (پی پی ای) نہیں ہیں ۔ مریضوں کے لئے وینٹی لیٹر کی بہت کمی ہے ۔ ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق دس لاکھ لوگوں پر حکومت صرف 32 لوگوں کا ٹیسٹ کر پا رہی ہے ۔ ایسے میں کیا مشتبہ مریضوں کا پتہ لگ پائے گا۔

بی جے پی حکومت اور اس کا خوشامدی میڈیا اس بیماری کو بھی مذہبی رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے ۔ یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ گویا ملک میں کورونا وائرس تبلیغی جماعت کے مرکز سے پھیلا ہے ۔ تبلیغی جماعت کے مرکز میں 13 سے 15 مارچ کے بیچ 1500 لوگ تھے ۔ لاک ڈاؤن کے دن تک یہاں صرف ایک ہزار لوگ رہ گئے تھے ۔ اس کی اطلاع مرکز کے ذمہ داروں نے مقامی پولس اسٹیشن کو دی تھی ۔ لاک ڈاؤن کے دوران سرکاری احکامات کی پابندی کرتے ہوئے مرکز کو بند کر دیا گیا تھا اور پھنسے ہوئے لوگوں کو ان کے گھر تک پہنچانے کے لئے 17 بسوں کی اجازت مانگی تھی جو نہیں ملی ۔ اس معاملہ میں تبلیغی مرکز کے بجائے پولس، انتظامیہ زیادہ قصور وار ہے ۔ خوشامد پسند میڈیا حقیقت سے صرف نظر کر مرکز نظام الدین کو ولین کے طور پر پیش کر رہا ہے ۔ میڈیا نوئیڈا کی سیز فائر کمپنی میں ملے 31 پازیٹو مریضوں اور کمپنی کے ذریعہ معلومات چھپانے پر بات نہیں کر رہا ۔ جبکہ نوئیڈا میں کورونا یہیں سے پھیلا ہے اور پوری ریاست کے لئے خطرہ بنا ہے ۔ بات ویشنو دیوی میں پھنسے چار سو لوگوں پر بھی نہیں ہو رہی ۔ 16 سے 18 مارچ تک سدھی ونائک، مہا کالیشور اجین، شرڈی، کانسی وشوناتھ اور ویشنو دیوی مندر کے کھلے ہونے کی کوئی بات نہیں کر رہا ۔ ذکر 23 مارچ تک چل رہی پارلیمنٹ کا بھی نہیں ہو رہا جس میں کئی ایسے ممبران آ رہے تھے جو کوڈ۔19 کی متاثرہ کنیکا کپور کی پارٹی میں شامل تھے ۔

یہ وقت اپنا احتساب اور مل کر اس بیماری کا مقابلہ کرنے کا ہے ۔ افواہ یا غیر تصدیق شدہ باتوں کے فروغ سے بچا جائے ۔ اس وبا نے انسان کی زندگی کو خطرے میں ڈالا ہے، لیکن انسانیت کو زندہ رکھنے کا موقع بھی فراہم کیا ہے ۔ جس کا ہمیں فائدہ اٹھانا چاہئے، مذہب، ذات، سیاسی مفاد سے اوپر اٹھ کر اپنی بساط کے مطابق کمزوروں، مزدوروں اور بے سہارا لوگوں کی مدد کی جائے ۔ اندھیرے کو کوسنے سے کچھ نہیں ہوگا بیماری کو ہرانے کے لئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا ۔ وقت کا کیا وہ تو گزر ہی جائیگا مگر اس وقت کی گئی مدد سب کو یاد رہے گی ۔

Comments are closed.