کرونا وائرس بمقابلہ کمیونل وائرس

راحت علی صدیقی
رابطہ نمبر 9557942062
کرونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے، انسانی جانوں کی ہلاکت کے اعداد و شمار میں شب وروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، جانیں تلف ہو رہی ہیں، بیماروں کو تکلیف دہ احوال کا سامنا ہے،انسانیت پر خطرات کا تاریک ترین مرحلہ ہے، امریکہ، اٹلی، جیسے دنیا کے طاقت ور اور ترقی یافتہ ممالک بے بس ہیں، جانوں کے تلف ہونے کا سلسلہ روز بروز بڑھ رہا ہے، دنیا بھر کے اطباء کوششوں میں مصروف ہیں، حکومتیں انسانی جانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہی ہیں، اطباء شب و روز محنت کر رہے ہیں، اپنی جانوں کو داؤ پر لگا کر انسانوں کے تحفظ میں پیش پیش ہیں،کرونا وائرس کی وجہ سے اطباء نے بھی جان گنواء ہے، اِس کے باوجود اُن کے حوصلے ہمت اور محنت میں کوء کمی نہیں آء ہے، پوری دنیا متحد ہو کر اس وباء سے مقابلہ کر رہی ہے، ہمارا ملک ہندوستان بھی اس وباء سے مقابلہ کر رہا ہے، احتیاطی تدابیر کا اعلان کردیا گیا، لوگوں کا جمع ہونا ممنوع ہے، گھروں میں رہنے کی ہدایت دی گء، ایک میٹر کی دوری بنانے کی تاکید کی گء ہے، ماسک لگانے کو بھی بہتر خیال کیا گیا ہے، صوبائی اور ضلعی سرحدیں بند کر دی گء ہیں، انسانوں کے انتقال کا سلسلہ مکمل طور پر منقطع کر دیا گیا ہے، جو شخص جہاں ہے، وہیں محبوس ہو کر رہ گیا ہے، غریبوں مزدوروں مفلسوں کو تکلیف دہ مسائل درپیش ہیں، پیٹ بھر کھانا بھی میسر نہیں آرہا ہے، آشیانہ بھی نہیں ہے، بعض گھروں کو پہنچنے کی خواہش میں پیادہ پا سفر کرتے ہوئے راہء عدم ہو گئے ہیں، حکومت کوشاں ہے، مفلسوں کی پریشانیوں کے ازالہ کے لئے مختلف اسکیموں کا اعلان کیا جا چکا ہے، یہ اسکیمیں کس حد تک غریبوں کے لئے نفع بخش ہونگی؟ غور کیجئے اور جواب تلاش کیجئے، خوش کن بات یہ ہے کہ بہت سے مالدار لوگ بھی غریبوں کی مدد کے لئے کوشش کر رہے ہیں، جس کے باعث بہت سے فاقہ کشوں کو روٹی میسر آرہی ہے، ساتھ ہی تعاون کرنے والوں سے درخواست ہے کہ کسی کی عزت و آبرو سے نا کھیلیں، اگر وہ لوگوں کو شوق دلانے کے لئے اپنے عمل کی تشہیر کرنا چاہتے ہیں، اس کی تصویریں شوشل میڈیا پر وائرل کرنا چاہتے ہیں، تو کوئی حرج نہیں ہے، البتہ غریبوں کے مایوس چہروں کو تصویروں میں قید کرنا مناسب نہیں ہے، یہ عمل اُن کی انا کے آبگینے کو ٹھیس پہونچائے گا، ان کے دل کو توڑ دیگا، بہت سے لوگ سادگی سے عوام کی خدمت انجام دے رہے ہیں، وہ مبارک باد کے مستحق ہیں، ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق غریبوں کا تعاون کرے، دست سوال دراز ہونے کا انتظار نا کریں، ضرورت مندوں کا خیال کریں۔
ملک کرونا وائرس کے خلاف لڑائی کو بخوبی لڑ رہا ہے، جس کے اثرات نمایاں ہیں، اور ہندوستان میں ابھی تک حالات قابو میں ہیں، وائرس کے پھیلنے کی رفتار سست ہے، گذشتہ آٹھ دنوں 998 معاملے سامنے آئے ہیں اور 38 موتیں ہوء ہیں، جو دیگر ممالک کی بنسبت معمولی ہیں، اس تعداد کو محدود رکھنے کے لئے ہمیں احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل پیرا ہونا چاہیے، قوی امید ہے ملک اس وبا کو جلد ہی شکشت دے گا، اور حالات بہتر ہو جائیں گے۔کرونا وائرس کے خلاف پوری دنیا متحد ہے، ہمارے ملک میں بھی اتحاد نظر آرہا ہے، لیکن ایک خبر نے اس اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا ہے، میڈیا نفرت پروس رہی ہے، فرقہ واریت زبانوں پر حاوی ہے، درد و تکلیف کے اس ماحول میں بھی نفرت کی تجارت کی جا رہی ہے۔
تبلیغی جماعت کا سلسلہ ملک میں عرصئہ دراز سے جاری ہے، پوری دنیا سے آکر لوگ تبلیغی جماعت میں شامل ہوتے ہیں، اور گھر گھر جا کر دین اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں،لوگوں کو نماز کی دعوت دیتے ہیں، ملک کے مختلف حصوں میں اجتماعات ہوتے رہتے ہیں، مرکز نظام الدین دہلی میں بھی لوگ جمع رہتے ہیں، علاقائی انتظامیہ ہی نہیں پورا ملک اس سے واقف ہے، 13 سے 15مارچ میں مرکز نظام الدین میں اسی نوعیت کا اجتماع ہوا، جس میں ملک اور بیرون ملک سے افراد شریک ہوئے، ڈھائی تین ہزار افراد مرکز میں جمع تھے، جن میں 24 لوگوں کو کرونا پازیٹو بتایا جارہا ہے، مولانا سعد کے خلاف معاملہ درج کر لیا گیا ہے، 1000 لوگوں کو کوارینٹین کیا گیا ہے، میڈیا نے اس خبر کے پس منظر میں پورے ملک کو فرقہ وارانہ نفرت میں دھکیل دیا ہے، کرونا وائرس سے پورا ملک متحد ہو جنگ کر رہا ہے، ایسے وقت میں یہ رویہ انتہائی شرمناک ہے،سیاسی رہنما اسے سازش گردان رہے ہیں، حیرت ہے لوگوں نے اس حساس معاملے میں بھی مذہبی منافرت کو ہوا دینے، اور سیاسی فائدہ حاصل کرنے سے گریز نہیں کیا، مرکز میں لوگوں کے اجتماع کے تعلق سے تبلیغی جماعت کے ذمہ داران واضح طور پر کہ رہے ہیں کہ انہوں نے انتظامیہ کو اس صورت حال سے باخبر کیا تھا، اور اس کا حل تلاش کرنے کی اپیل کی تھی، لیکن اگر یہ بات مان لی جائے کہ تبلیغی جماعت کے ذمہ داران نے انتظامیہ کو باخبر نہیں کیا، جس پر انہیں مجرم خیال کیا جارہا ہے، تو علاقائی انتظامیہ کا اس صورت حال سے بے خبر ہونا بھی بڑی ناکامی ہے، کیوں لوگوں کی مرکز جاتے ہوئے اسکریننگ نہیں کی گء؟ کیوں ضروری جانچیں نہیں کرائیں گئیں؟ کیوں ان کے جانے کے انتظامات نہیں کیے گئے؟پوری دنیا سے افراد آئے، ایئرپورٹ پر ان کی جانچ کو ضروری کیوں نہیں سمجھا گیا؟ اگر ان تمام چیزوں کی طرف کی گء ہوتی تو کیا یہ صورت حال ہوتی؟ کیا اس میں انتظامیہ کی لاپرواہی نہیں ہے؟ کیا اسے محض مرکز تبلیغی جماعت سے متعلق افراد ہی کی کوتاہی پر محمول کیا جاسکتا ہے؟ امانت اللہ انتظامیہ کو باخبر کرنے کا دعوی کر رہے ہیں، صورت حال کا جائزہ لیجیے، ہر ذی شعور کو غور کرنا چاہئے۔
مرکزنظام الدین کے اس واقعہ کو بنیاد بنا مسلمان کو نشانہ بنانا کس حدتک صحیح ہے؟ جو لوگ اس صورت حال میں بھی اپنی روش نہیں بدل رہے ہیں ان سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ ملک میں اور بھی واقعے پیش آئے، جہاں لاپرواہی ہوء، لیکن مذہبی کی نظر سے ان واقعات کو نہیں دیکھا گیا، کسی خاص مذہب کسی خاص قوم کو نشانہ نہیں بنایا گیا، مرکز کا واقعہ جس میں انتظامیہ کی کوتاہی واضح ہے، اس کے باوجود پوری مسلم قوم کو نشانہ بنانا کس حد تک جائز ہے؟ کیا یہ ملک کے لئے نقصان دہ نہیں ہے؟ کیا لوگوں کا ایک دوسرے پر سے اعتماد نہیں ٹوٹے گا؟ دہلی فسادات کے زخم ابھی تک ہرے ہیں، پھر سے مذہبی منافرت کیا یہ دانشمندی ہے؟ جس طرح کی جملے بازی سوشل میڈیا پر ہو رہی ہے، کیا وہ تکلیف دہ نہیں ہے؟شوشل میڈیا پر کرونا جہاد کا لفظ استعمال کیا جارہا ہے، ان حالات میں کیا یہ شرمناک نہیں ہے؟
ملک کے ہر باشندے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کریں، اس طرح کے جملے ادا نا کریں جو دوسروں کے جذبات کو برانگیختہ کرتے ہوں، مذہب کی ہتک کا ذریعہ نا بنیں، کرونا قرآن سے نکلا ہے، مسلمانوں کو نہیں ہوگا، اس طرح کی افواہیں نا پھیلائیں، جو ہدایتیں حکومت اور اطباء کی جانب سے دی گء ہیں، ان پر عمل کریں، اطباء اور انتظامیہ سے متعلق جو افراد ہماری خدمت پر معمور ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، میڈیا کی زمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے حوصلوں کو بحال رکھے، نفرت کی تجارت سے گریز کرے، کسی بھی حادثے اور واقعے کو مذہبی عینک سے نا دیکھا، ملک سب کا ہے، انسانیت کے تحفظ کی اس لڑائی میں پوری انسانیت کو متحد رہنا ہے، سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ دیجئے،وقت اور حالات کی نذاکت کو سمجھئے، غریبوں اورمزدوروں کا تعاون کیجئے، نفرت کی سیاست بند کیجئے۔
Comments are closed.