کیا کوروناکی وجہ سے امریکہ سے چھن جائے گاسپرپاورکااعزاز؟

محمد عباس دھالیوال ،مالیرکوٹلہ
جب گاؤں ایک ہی وبا میں گھرا ہو. تو اس کے باشندوں کو مختلف راستے اختیار نہیں کرنے چاہئیں اور نہ ہی اس وبا کو پھیلانے کے لئے ایک دوسرے پر الزام لگانے میں وقت ضائع کرنا چاہئے۔ سب سے پہلے وبا کی روک تھام اور علاج کو ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر نکالنے کی کوشش کر نا چاہئے۔ ویسے کہتے ہیں کہ درد ایک دوسرے کے ساتھ بانٹنے سے کم ہوجاتا ہے جبکہ خوشی دوگنی ہوتی ہے۔
آج ہم سب دنیا کو گلوبل وِلیج کے نام سے جانتے ہیں۔ جیسے کہ ہم جانتے ہیں کہ ایک گاؤں مکانات کے جھرمٹ سے بنتا ہے اور ہر گاؤں کے گھروں میں اہل خانہ کی تعداد دنیا کے ممالک کی طرح تعداد سے کم و بیش ہوتی ہے۔ جب دیہات میں سے کسی کنبہ کے افراد پر اچانک کوئی مصیبت آتی ہے تو اس کی مدد کرنا پورے دیہات کو اپنا فرض سمجھنا چاہیے ۔
دراصل آج چونکہ انسان نے اپنی زندگی میں بہت ساری سہولیات کے زیر کر لیا ہے ، ہر ملک کسی نہ کسی طریقے سے دوسرے ملک یا اس کی بنائی چیز وں پر منحصر ہے۔ یعنی ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ ضروریات کے حصول کے چلتے بندھے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کا کوئی بھی ملک خود کو دوسروں سے الگ تھلگ نہیں کر سکتا ۔
دسمبر کے آخر میں COVID-19 نے چین کے ووہان میں دستک دی ۔ لیکن دنیا کے مختلف مملکتوں سمیت سپر پاور کہلانے والوں کو لگا کہ یہ کرونہ وائرس صرف چین تک ہی محدود رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے چین کے درد کو بانٹنے سے اجتناب کیا. اس کے ساتھ مذکورہ وائرس کا علاج نکالنے کی بجائے ، "کورونا وائرس” کو "چینی وائرس” کے نام سے منسوب کرتے ہوئے چین کو دنیا بھر میں ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کی ۔
اسلام میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی مصیبت زدہ شخص کا مذاق نہ اڑاؤ ، کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا اس شخص کو جو اس تکلیف میں مبتلا ہے اسے نکال دے اور مذاق بنانے والے کو اس میں مبتلا کردے. اسلام کے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جب تم کسی علاقے میں طاعون کے بارے میں سنو تو اس میں نہ جاؤ اور اگر کسی علاقے میں طاعون پھیل جائے اور تم اس میں ہو تو اس سے نہ نکلو۔
لیکن اسلام کی مذکورہ تعلیمات اور حضرت محمد صل اللہ علیہ و سلم کی ہدایات پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ آج ہم پوری دنیا کے لوگ بھگتنے کو مجبور ہیں۔
شروع شروع میں کورونا وائرس کے پھیلا نے کو لیکر امریکہ اور چین دونوں کو ایک دوسرے پر وائرس پھیلانے کے الزام لگا رہے تھے. اس ضمن میں جہاں امریکہ کے صدر اور نائب صدر کرونا کو "چینی وائرس” قرار دے رہے تھے ، وہیں چین کے ترجمان یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ کرونا وائرس امریکی فوج کے ذریعہ چین کے ووہان میں چھوڑا گیا ۔
لیکن اب جبکہ دنیا بھر کے تقریباب196 ممالک میں کووڈ – 19 پھیل چکا ہے اور اس وائرس سے متاثرین کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔ یہاں تک کہ چین کے بعد اٹلی ، ایران ، اسپین وغیرہ یوروپی ممالک میں وائرس نے ایک طرح سے قیامت برپا کر رکھی ہے اور ہزاروں افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھونے کو مجبور ہو رہے ہیں یہاں تک کہ یورپ میں شاہی خاندانوں کے افراد کے بھی اس مہلک مرض میں مبتلا اور ہلاک ہونے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں. جبکہ یورپین ممالک میں روزانہ ہزاروں کی گنتی میں اس وائرس سے متاثرہ عام افراد بھی جاں بحق ہو رہے ہیں۔
یہاں قابل ذکر ہے آج اس وائرس نے ان ممالک کو بھی گھٹنوں کے بل لا کھڑا کیا ہے جو دنیا بھر میں اپنی بہترین سہولیات کی فراہمی کے لئے مشہور تھے مثال کے طور پر اٹلی جیسے سرکردہ ممالک میں بھی کرونا وائرس م سے متاثر ہ لوگوں کی بڑی تعداد میں اموات رونما ہو رہی ہیں اور ان ملک کے حکام خود کو بے بس وہ لاچار محسوس کر رہے ہیں۔
ادھر خود کو دنیا باس کہلانے والے امریکہ کو بھی”کورونا وائرس” نے گھٹنوں کے بل لا کھڑا کیا ہے. آج صورتحال یہ ہے کہ امریکہ میں کورونا وائرس میں مبتلا افراد کی تعداد پونے دو لاکھ کو تجاوز کر گئی ہے اور اس نے ایک طرح سے چین سمیت دنیا کے سب ممالک کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ اس وبا سے انسانوں کی جانوں کے لاحق ہونے کا اندازہ ہم اسی بات سے لگا سکتے ہیں کہ پچھلے دنوں امریکہ میں امریکہ میں امراض کے کنٹرول اور انسداد کے نگران ڈاکٹر فاؤچی کا کہنا تھا کہ کرونا سے ملک بھر میں 2 لاکھ سے زیادہ امریکی ہلاک ہو سکتے ہیں، جو موجودہ تعداد کا 50 گنا ہے۔ سی این این سے گفتگو میں داکٹر فاؤچی کا کہنا تھا کہ یہ اندازہ مختلف ماڈلز کی بنیاد پر لگایا گیا۔
امریکہ اور چین کے مابین تجارتی تعلقات ایک عرصے سے کشیدہ رہ ہیں. اس سلسلے میں دونوں ممالک ایک دوسرے پر ہمیشہ قابو پانے کی فراق میں کوشاں دکھائی دیتے رہے ہیں۔ اگر زمینی حقائق کی بات کریں تو اس وقت چین دنیا کے قریب 124 ممالک کو اپنا تیار کردہ سامان مہیا کرواتا ہے جبکہ اس ضمن میں امریکہ کی رسائی صرف 56 ممالک تک ہی محدود ہے۔
چین میں کورونا وائرس کے سامنے آتے ہی اس کی طرف سے تیار کردہ سامان کو کچھ ترقی یافتہ ممالک نے ایک منصوبے کے تحت مشکوک بنا کر اس کی تجارت میں خلل ڈالنے کی کوششیں کیں. بلاشبہ اس تناظر میں ، چین کو ایک بہت بڑا معاشی دھچکا لگا۔ لیکن وہ کہتے ہیں نہ "جاگو راکھے سائیاں مار سکے نہ کوئی ” گزشتہ تین مہینے سے مسلسل کورونا وائرس سے لڑ رہے چین نے کوورنا وائرس کو شکست دینے کافی حد تک کامیاب ہوا ہے. یہی وجہ ہے کہ چین اب یورپی ممالک جو کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک ہیں ان کو کورونا وائرس سے متعلق سازوسامان فراہم کررہا ہے۔ وہیں اپنے دوست ممالک کی مدد کے لئے ڈاکٹروں اور اسٹاف نرسوں کو بھی بھیج رہا رہے ۔
گزشتہ دنوں چین کے صدر شی جنپنگ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک "مہلک وبا سے نمٹنے کے لئے متحد ہوجائیں”۔ انہوں نے ٹرمپ کو یہ بھی کہا کہ "چین امریکہ کے ساتھ معلومات اور تجربے کا تبادلہ خیال جاری رکھنا چاہتا ہے”۔ شی جنپنگ نے کہا کہ یقینا اس وقت امریکہ اور چین کے تعلقات "نازک موڑ” پر ہیں۔ لیکن موجودہ معاملے میں ، دونوں کے مابین ہم آہنگی زیادہ کارآمد ثابت ہوگی۔ انہوں نے ساتھ ہی اس امید کا بھی اظہار کیا کہ امریکہ موقع کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے تعلقات میں بہتری لانے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس وبا سے صرف تال میل سے ہی نمٹا جاسکتا ہے۔
یہاں قابل ذکر ہے کہ جس طرح سے امریکہ اس وقت کورونا وائرس کی زد میں ہے اس کے چلتے چین کی کچھ ریاستیں ، شہر اور کمپنیاں بھی امریکہ کو طبی ساز و سامان اور دیگر مدد فراہم کروا رہی ہیں۔ ایسے نازک حالات میں چین و امریکہ کے مابین ہونے والی بات ایک اچھا قدم ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ٹیلیفون پر گفتگو ہونے سے قبل امریکہ کے رویئے میں چین کو لیکر اس وقت کچھ نرمی دیکھنے کو آئی تھی جب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پچھلے "چائنیز وائرس” والے بیان پر نظر ثانی کی بات کہی تھی انھوں نے کہا کہ اگر ان کو (چین) کو ہمارا ا یسا کہنا ناگوار گزرا ہے تو ہم ایسا نہیں کہیں گے. اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کے چین کے ساتھ بہت اچھے رشتے ہیں۔
چین اور امریکہ کے مابین ہونے والی مذکورہ گفتگو یقیناً ایک خوش آئند بات ہے چاہے یہ بات ابھی کرونا وائرس کے ضمن میں ہی ہوئی ہے امید ہے آنیوالے دنوں میں اس کے اچھے اور مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔
دوسری طرف امریکی انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹجیک سٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل کوری شیک کا کہنا ہے کہ امریکہ اپنی ناقابلیت کے چلتے دنیا کا رہنمائی نہیں رہیگا. ان کا ماننا ہے کہ امریکہ اس مہلک بیماری کے بارے میں دنیا کو امکانی خطرات سے چوکس کروا سکتا تھا. لیکن اس مصیبت کی گھڑی میں اس نے صرف اپنے مفاد کو ترجیح دی. جبکہ ہاروڈ یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلق سے وابستہ پروفیسر سٹیفن ایم والٹ کا خیال ہے کہ مہاماری کے بعد طاقت اور رہنمائی کا اثر پچھم سے پورب کی طرف منتقل ہو گا. ادھر سنگاپور یونیورسٹی کے ایشیا ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں وگیانی کشور محبوب بانی کا خیال ہے کہ امریکی سینٹرل گلوبلا ئزیشن کے مقابلے چین سینٹرل گلوبلائزیشن کی شکل میں تبدیلی واقع ہوگی. ایسا امریکی آبادی کے گلوبلازیشن سطح پر عالمی ٹریڈ میں اعتماد کھونے کے چلتے ہو گا. مذکورہ ماہرین کی آراء کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں اس وبا کے اختتام کے بعد جو دنیا ابھر کر سامنے آئے گی اس کی تصویر مختلف ہوگی. قوی امکان ہے کہ امریکہ سے سپر پاور چھِن جائے۔

Comments are closed.