آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد
آیتِ کریمہ اور دفعِ مصیبت
سوال:- مصیبت اور پریشانی میں بہت سے لوگ آیتِ کریمہ یعنی ’’ لا إلہ إلا أنت سبحانک إني کنت من الظالمین ‘‘ کاورد کرتے ہیں ، یہ کہاں تک درست ہے ؟ کیا کسی حدیث میں اس کا ذکر آیا ہے ؟ (ممتاز احمد، نامپلی)
جواب:- حضرت یونس ں کو مچھلی نے نگل لیا تھا ، اس وقت انہوں نے یہ دعا مانگی تھی ، اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور انہیں اس مصیبت سے نجات عطا فرمائی ، خود قرآن مجید میں اس کا ذکر آیا ہے ، (انبیاء: ۸۷)اس لئے اس واقعہ میں خود اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ دعاء مصیبتوں سے نجات پانے کے سلسلہ میں بڑی اہمیت کی حامل ہے ؛ چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص ص نے رسول اللہ ا سے نقل کیا ہے کہ جب بھی کوئی مسلمان کسی چیز کے سلسلہ میں اس کے ذریعہ دعا کرے گا ، اسے قبولیت حاصل ہوگی (تفسیر قرطبی: ۱۱؍۳۲۱) حضرت یونس ں کے اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم اسی طرح اہل ایمان کو نجات عطا کرتے ہیں : وَکَذٰلِکَ نُنْجِي الْمُؤْمِنِیْنَ (انبیاء: ۸۸)علامہ قرطبی نے اس سے یہ نکتہ اخذ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دعاء پر قبولیت اور نجات کا وعدہ کیا ہے (تفسیر کبیر: ۱۱؍۳۲۱) علامہ فخر الدین رازی نے بھی حدیث نقل کی ہے کہ کسی مصیبت میں اس آیت کو پڑھاجائے تو اللہ تعالیٰ اس مصیبت سے نجات عطا فرمائیںگے (تفسیر کبیر: ۱۱؍۱۹۷) ان روایات سے معلوم ہوا کہ دفعِ مصیبت میں اس آیت کا خاص اثر ہے ؛ البتہ اس کی کوئی خاص تعداد متعین نہیں ہے ، جو حدیث سے ثابت ہو ؛ اس لئے اگر کسی خاص مقصد کے حاصل ہونے کے لئے یا دفعِ مصیبت کے لئے اس آیت کو پڑھاجائے تو ان شاء اللہ فائدہ ہوگا ، جس قدر پڑھے بہتر ہے ، چاہے تو اپنی آسانی کے لحاظ سے کوئی تعداد مقرر کرکے پڑھ سکتا ہے ؛ کیوںکہ جس ذکر کے لئے حدیث میں کوئی تعداد مقرر نہ ہو ، اس میں انسان کو اختیار ہوتا ہے کہ حسبِ سہولت جتنا پڑھ سکے ، پڑھ لے ۔
سوکھے ہوئے زخم کی تہہ کے اکھڑ جانے پر وضو کا حکم
سوال:- عام طور پر جب زخم سوکھتا ہے تو ایک خشک تہ چمڑے کے اوپر جم جاتی ہے ، جو آہستہ آہستہ باربار جسم کو دھونے یا اس کو اکھاڑنے سے نکل جاتی ہے ، اگر وضو کرنے کے بعد اس کو اکھاڑ دیا جائے تو کیا دوبارہ وضو کرنا ہوگا یا اس حصہ کو دھونا ضروری ہوگا ؟(جنید عالم، مہدی پٹنم)
جواب:- وضوء اس وقت واجب ہوتا ہے ،جب جسم کے اندر سے کوئی ناپاک چیز جسم کے باہر آجائے ، خواہ فطری طور پر بنے ہوئے راستہ سے آئے یا چمڑے کے پھٹ جانے کی وجہ سے آئے ، جیسے خون نکل کر بہہ جائے ؛ اس لئے اگر زخم کے بعد اس کا جماہوا سوکھا حصہ باہر نکال لیا جائے یا خود اکھڑ جائے تو اس سے وضوء نہیں ٹوٹے گا اور نہ اس کو دوبارہ دھونے کی ضرورت ہوگی ، فقہاء نے اس کی صراحت کی ہے :کالدملۃ وعلیہ جلدۃ رقیقۃ ثم نزعہا ، لا یلزمہ اعادۃ غسل علی ما تحتہا (درمختار مع الرد: ۱؍ ۲۱۷)
مسجد محلہ کی اذان و اقامت کافی ہے
سوال:- اگر محلہ کی مسجد میں اذاں ہوچکی ہو اور کچھ لوگ اپنے گھر میں جماعت کرنا چاہیں تو ان کے لئے اذان دینا ضروری ہے یا نہیں ، اور کیا وہ بغیر اقامت کے جماعت کرسکتے ہیں ؟ (مزمل حسین، گنٹور)
جواب:- اذاں اصل میں مسجد کے شعائر میں سے ہے ؛ اسی لئے رسول اللہ ا نے مدینہ منورہ میں حضرت بلال ص کو مسجدِ نبوی کا اور مکہ مکرمہ میںحضرت ابو محذورہ ص کو مسجد حرام کا مؤذن مقرر فرمایا تھا ؛ البتہ چوںکہ اذاں کا مقصد لوگوں کو جماعت کی طرف بلانا ہے ؛ اس لئے مسجد کے علاوہ بھی کہیں جماعت کی جائے تو بہتر ہے کہ اذاں دے دی جائے ، اس کی دلیل یہ ہے کہ دو صحابی آپ ا کی صحبت سے کچھ دنوں فیض اٹھانے کے بعد واپس تشریف لے جانے لگے تو آپ ا نے انہیں ہدایت فرمائی کہ تم لوگ اذاں دے کر جماعت کے ساتھ نماز ادا کیا کرنا اور تم میں سے جو بڑا ہو ، وہ نماز پڑھائے ، یہ ہدایت رسول اللہ ا نے حالتِ سفر کے لئے دی تھی :إذا أنتماخرجتما فأذنا ثم أقیما ثم لیؤمکما أکبرکما (بخاری، حدیث نمبر: ۶۳۰)لیکن یہ اذان استحباب کے درجہ میں ہے ؛ لہذا اگر کچھ لوگ گھر میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لیں اور اذاں نہ دیں ؛ بلکہ اقامت بھی نہ کہیں ، تب بھی حرج نہیں ، محلہ کی اذان ان کے لئے کافی ہوجائے گی ؛ چنانچہ علقمہ ؒاور اسودؒ نقل کرتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عبد اللہ بن مسعود ص کے دولت خانہ پر حاضر ہوئے ، حضرت عبد اللہ بن مسعود ص نے دریافت فرمایا کہ لوگوں نے تمہارے پیچھے نماز پڑھی ہے ؟ ہم لوگوں نے عرض کیا : نہیں ، آپ ص نے فرمایا : پھر تم کھڑے ہو اور نماز ادا کرو ، یعنی جماعت کرلو ، آپ ص نے اذان اور اقامت کہنے کا حکم نہیں دیا : ’’ ولم یأمر بأذان وإقامۃ ‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ: ۱؍۲۲۰) علامہ نیموی نے اس کی سند کو’’ حسن ‘‘ یعنی معتبر قرار دیا ہے ، (آثار السنن:۱؍۵۷) غرض کہ محلہ کی اذان پر اکتفاء کرکے گھر میں جماعت کی جاسکتی ہے ۔
طبعی ضرورت کے دبائو کے وقت نماز اور اس کا اعادہ
سوال:- پیشاب پائخانہ کے تقاضہ کے وقت نماز پڑھنے سے منع کیا جاتا ہے ؛ لیکن اگر اس طرح نماز پڑھ ہی لی گئی تو نماز ادا ہو جائے گی یا اسے لوٹانا واجب ہو گا ؟ (محمد عدنان، کریم نگر)
جواب:- رسول اللہ ا نے ایسی حالت میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے کہ انسان پر طبعی ضروریات کے لیے بہت زیادہ دبائو ہو اور اس کا مقصد یہ ہے کہ نمازی کی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف یکسورہے ؛ اسی لیے اس سے بچنا چاہیے، ایسے شدید دبائو کے ساتھ نماز ادا کرنا مکروہ تحریمی ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ کراہت تحریمی کے ساتھ جو نماز ادا کی جاتی ہے ، وہ ہو تو جاتی ہے ؛ لیکن اس کا اعادہ کرنا چاہیے، اگر اعادہ نہیں کریں گے تو نقص کے ساتھ نماز ادا ہو جائے گی ، پھر نماز کے اعادہ کے سلسلہ میں یہ تفصیل ہے کہ اگر نماز کا وقت باقی ہو تو اعادہ کرنا واجب ہے اور اگر نماز کا وقت گذر گیا ہو تو نماز لوٹانا مستحب ہے : کذا کل صلاۃ أدیت مع کراھۃ التحریم تجب إعادتھا (درمختار) الظاہر أنہ یشمل نحو مدافعۃ الاخبثین، ووجوب الإعادۃ في أداء صلاۃ مع کراھۃ التحریم بما قبل خروج الوقت أما بعد فتستحب (ردالمحتار: ۱؍۱۴۸)
مایوسی اور نااُمیدی کی حالت کے لئے دُعاء
سوال:- حوادثِ زمانہ نے جس شخص کی قوت ارادی کو کمزور کردیا ہو اور وہ نااُمیدی کا شکار رہتا ہو ، اسے کونسی دُعاء کرنی چاہئے کہ نااُمیدی اور زندگی سے مایوسی کی کیفیت ختم ہو ؟ ( مجیب الرحمٰن، گنتکل)
جواب:- رسول اﷲ ا نے ارشاد فرمایا کہ جس کو کوئی غم یا فکر درپیش ہو ، وہ ان کلمات کے ذریعہ دُعاء کرے :
’’اللہم أنا عبدک ، وابن عبدک ،وابن أمتک ، ناصیتی بیدک ، ماض فیّ حکمک ، عدل فیّ قضاء ک ، أسألک بکل اسم ہولک سمیت بہ نفسک أو أنزلتہ فی کتابک أو علمتہ أحدًا من خلقک أو استأثرت بہ في علم الغیب عندک ، أن تجعل القرآن ربیع قلبی ونور بصری وجلاء حزنی وذہاب ہمی‘‘(الاذکار النووی:۱۷۲)
اے اﷲ ! میں آپ کا بندہ ہوں ، آپ کی بندی کی اولاد ہوں ، آپ کے قبضہ میں ہوں ، میری پیشانی آپ کے ہاتھ میں ہے ، مجھ پر آپ کا حکم جاری ہے ، میرے بارے میں آپ کا فیصلہ مبنی بر انصاف ہے ، آپ نے اپنے آپ کو جن جن ناموں سے موسوم کیا ہے ، میں اس کے حوالہ سے آپ سے سوال کرتا ہوں ، ان ناموں کے حوالہ سے بھی جن کو آپ نے اپنی کتاب میں اُتارا ہے یا اپنی کسی مخلوق کو اس کا علم دیا ہے یا جو آپ ہی کے نزدیک علم غیب میں ہے ، کہ آپ قرآن کو میرے سینے کی روشنی ، میرے دل کی بہار ، میرے غم کا مداوا اور میری فکر کا علاج بنادیجئے۔
آپ اگر عربی الفاظ کو یاد کرسکیں ، تو اسے یاد کرکے پڑھا کریں ، چوںکہ یہ الفاظ رسول اﷲ ا کے ہیں ؛ اس لئے ظاہر ہے کہ اس میں برکت و سعادت زیادہ ہے ، اور اگر اس میں دشواری ہو تو اس کا اُردو ترجمہ اچھی طرح ذہن میں بٹھالیں اور نمازوں کے بعد نیز حسب موقع پڑھا کریں ، نیز اپنے اندر قوت ارادی پیدا کریں ، اﷲ تعالیٰ آپ کو صحت کاملہ عاجلہ مستمرہ عطا فرمائے ۔
میڈیکل ایڈ اسکیم میں شرکت
سوال:- جنوبی افریقہ میں میڈیکل ایڈ کی اسکیم گورنمنٹ کی طرف سے چلتی ہے ، یہ اسکیم نہ تجارت کرتی ہے اور نہ منافع کماتی ہے ؛ بلکہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اسکیم میں شامل لوگ ماہانہ کچھ رقم ادا کرتے ہیں ، یہ رقم اس شرط کے ساتھ ہوتی ہے کہ اس میں شامل لوگوں اور ان کے قریبی متعلقین میں سے جو بیمار پڑے ، اس جمع شدہ رقم سے ان کا علاج کیا جائے ، اور اگر وہ بیمار پڑے تو وہ بھی اس اسکیم سے فائدہ اٹھائے گا ، اس رقم سے ادارہ کی انتظامیہ کوئی نفع نہیں اٹھاتی ہے ؛ بلکہ جو رقم بچ جاتی ہے وہ مریضوں ہی کے علاج پر آئندہ خرچ کردی جاتی ہے ، واضح رہے کہ جنوبی افریقہ میں علاج بہت مہنگا ہے اور متوسط آمدنی کے لوگوں کے لیے بھی علاج کے اخراجات برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے ، کیا مسلمان اس اسکیم میں حصہ لے سکتے ہیں ؟ (احمد پٹیل، جنوبی افریقہ )
جواب :- جو صورت آپ نے لکھی ہے اس میں یہ بات ظاہر ہے کہ یہ ادارہ تجارتی نقطۂ نظر سے کام نہیں کرتا ، اسکیم میں شریک ہونے والوں کو نہ رقم واپس کی جاتی ہے اور نہ سالانہ بچ جانے والی رقم کو ادارہ اپنے نفع کی حیثیت سے خرچ کرتا ہے ، رہ گیا رقم جمع کرنے والوں کا بھی بہ وقت بیماری اس سے استفادہ کرنا تو یہ وقف کے مماثل ہے ؛ کیوں کہ وقف کی ہوئی چیز سے وقف کنندہ خود بھی استفادہ کر سکتا ہے ؛ اس لیے میرے خیال میں یہ صورت جائز ہے اور یہ امدادی انشورنس ( التامین التعاوني ) کے حکم میں ہے ، جس کے جائز ہونے پر عالمِ اسلام اور ہندوستان کے علماء و اربابِ افتاء متفق ہیں ۔
مجنوں باپ کی جائداد
سوال:- احمد نے نسیم نامی ایک شخص سے ایک جائداد ۵۰؍ ایکڑ پر مشتمل کا ایگریمنٹ کیا ، مبلغ ۶۸؍ ہزار روپے فی ایکڑ زمین کا اس معاہدہ پر معاملہ کیا کہ قانونی کاروائی اور ضرورت پڑے تو عدلیہ کی ذمہ داری سب احمد خریدار ہی کے ذمہ ہوں گے ، اور فی الفور بطور بیعانہ ۲؍ لاکھ روپے ادا کئے جائیں گے ، بقیہ رقم زمین کے فروختگی کے بعد حوالہ کی جائے گی، چنانچہ اس معاہدہ کے مطابق رقم بیعانہ ادا کردی گئی ، سلیم کے ساتھ جائداد کے کاروبار میں احمد کے والد سالم بھی ۸؍ ایکڑ زمین کے حقدار تھے ، اور وہ اس معاملہ پر راضی تھے ، اب جب کہ زمین تمام جھگڑوں اور کاروائیوں کے بعد قابلِ فروخت ہوگئی ہے اور احمد نے ایک کمپنی کو فروخت بھی کردی ہے اور اس کی رقم کی قسطیں آنے لگی ہے ، تو احمد کے دوسرے بھائی حامد کا مطالبہ ہے کہ والد صاحب کی ۸ ؍ ایکڑ زمین میرے حوالہ کردی جائے اور احمد کا ارادہ ہے کہ والد صاحب کے حصہ کے بقدر رقم ان کے کھاتہ میں جمع کردی جائے والد صاحب بقید حیات ہیں، البتہ دماغی توازن ٹھیک نہیں ہے ، دریافت طلب امر یہ ہے کہ حامد کا یہ مطالبہ کہ آٹھ ایکڑ زمین اس کے حوالہ کردی جائے ، جب کہ اس پورے معاملہ میں حامد کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ، کہاں تک شرعا درست ہے ؟( محمد عاطف، محمد نگر)
جواب:- اس صورت میں آٹھ ایکڑ زمین کے مالک احمد کے والد سالم ہیں ، اگر سالم نے دماغ کے عدم توازن سے پہلے احمد سے یہ معاملہ کیا تھا کہ وہ اس کے حصہ کی زمین بھی فروخت کر دے تو احمد کی حیثیت سالم کی طرف سے وکیل بیع کی ہوگئی؛ لہذا اس زمین کو فروخت کرنا درست ہے ، چوںکہ سالم ابھی زندہ ہے گو دماغی اعتبار سے علیل ہے ، اس لیے وہ خود اس رقم کا مالک ہے اور اس کے لڑکوں کو اس پر ولایت حاصل ہے ، اس لیے یہ بات مناسب ہوگی کہ یہ رقم اس کے کھاتہ میں جمع کردی جائے اور اس کے جتنے لڑکے ہوں کھاتہ ان سب کے درمیان جوائنٹ ہو اور یہ رقم سالم اور اس سے متعلق احباب ہی پر خرچ کی جائے ، ہاں ! اگر سالم کے بعد بھی کچھ رقم بچ رہے تو حسب حکم شرعی تمام ورثہ میں تقسیم کردی جائے ۔
جذامی کو مسجد میں آنے سے روکنا
سوال:- مسجد کے مصلیان جذامی کے مسجد میں آنے سے کراہت محسوس کرتے ہیں، ایسی صورت میں کیا مسجد کمیٹی انہیں مسجد آنے سے روک سکتی ہے ؟(عبدالکریم، محبوب نگر )
جواب:- اگر جذامیوں کے اختلاط سے لوگ گھن محسوس کرتے ہوں ، تو انہیں مسجد اور ایسے اجتماعی مواقع میں آنے سے روکا جا سکتا ہے ۔ (موسوعہ فقہیہ: ۸؍۷۸) بلکہ ایسی تمام باتیں جو جماعت کی کثرت کو متاثر کرتی ہوں ، حکمت کے ساتھ ان کا سدِ باب کرنا چاہئے ۔
Comments are closed.