تبلیغی جماعت اورمیڈیاکاکردار

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی
علامہ اقبال نے اس ملک کو ساری دنیاسے اچھاقراردیتے ہوئے فرمایا تھا:’’ سارے جہاںسے اچھا، ہندوستاںہمارا‘‘، اس نظم کی اشاعت ۱۶؍اگست ۱۹۰۴ء کوہوئی، یعنی یہ نظم ایک صدی قبل کہی گئی تھی، جس دورمیںیہ کہی گئی تھی، اس دورکی سوچ یہی تھی اورملک بھی ویساہی تھا، اب بھی بعض چیزیںویسی ہی ہیں، جیساکہ اس نظم میںمذکورہیں؛ لیکن چوںکہ ایک صدی سے زائدکاعرصہ بیت چکاہے، ظاہرہے کہ کائناتی اصول کے تحت ہرچیزکے اندربدلاؤآتاہے، ایک صدی کے بعدبدلاؤآناتولازمی ہے، یہاںبھی بدلاؤآیا، جس کوموجودہ دورکے کسی شاعرنے اسی نظم کے اندرکچھ ترمیم کرکے بتایا، علامہ اقبال کاپہلامصرعہ یہ ہے:
سارے جہاں سے اچھا، ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا
لیکن موجوددورمیںاس ملک کی جودرگت بنائی گئی، وہ کسی سے مخفی نہیں، یہاںکی ہرچیزکے اندربگاڑآچکاہے، اسی لئے شاعرنے اس کومحسوس کرتے ہوئے اس مصرعہ کویوں لکھا:
سارے جہاں سے اچھا، ہندوستاں ہمارا
اقبال آج ہوتے، کہتے نہیں دوبارا
اقبال کی اس خوب صورت نظم کوبدلنے کی ضرورت کیوںپڑگئی؟ ظاہرہے کہ شاعرنے اقبال کی نظم اورملک کے حاالات کاموازنہ کیااوردیکھا، پرکھا، مشاہدہ کیا؛ لیکن نظم کے مطابق اس کونہیںپایا؛ اس لئے شاعرنے اس میںترمیم کردی، یہ نہ سوچیںکہ یہ ترمیم آج کل کی ہے؛ بل کہ اس ترمیم پربھی چھ سات سال کاعرصہ بیت چکاہے، یعنی اب حالات اس سے بدترہوچکے ہیں۔
حالات کی اس ابتری کامشاہدہ پہلے بھی کئی بارہوچکاہے؛ لیکن اس وقت سب سے زیادہ ہورہاہے،پوری دنیاکوروناوائرس(…)سے بچنے کے لئے پوری پوری کوشش کرہی ہے، ویکسین ڈھونڈنے کی سعی کررہی ہے، جواس وباسے متأثرہیں، ان کے علاج کے لئے بہترسے بہترقدم اٹھانے میںلگی ہوئی ہے، کہیںسے مددتک لینے سے نہیںچوک رہی ہے، اس وقت پوری دنیااس وباسے نمٹنے کے لئے تقریباً ایک ملک کی طرح ہوگئی ہے، ان تمام کوششوںکے باوجوداب تک اس پرکنٹرول نہیںہوسکاہے، ابھی ابھی ایک ایک دن میںہزاروںکی تعدادمیںہلاکتیںہورہی ہیں، ایسے وقت میںہمارے ملک کوکیاکرناچاہئے اورکرکیارہی ہے؟ اس ملک کے ایک شہری ہونے کی حیثیت سے یہ دیکھنااوردوسروں کودکھاناضروری ہے۔
اس ملک میںکوروناکی سب سے پہلی آہٹ اٹلی کے ٹورسٹوںکے ذریعہ محسوس کی گئی،اس آہٹ کے ساتھ ہی ہمارے ملک کے بااقتدارلوگوںکوتوجہ دینی چاہئے تھی؛ لیکن کیئرلیس کیاگیا، اس کے بعدتوہونایہ چاہئے تھا ملک کے اندرودیشیوںکے آنے پرپابندی لگادی جاتی اورجولوگ اپنے ملک کے باشندے باہرسے آتے انھیںآئیسولیٹ کیاجاتا؛ لیکن سرکارنے ایساکوئی قدم نہیںاٹھایا، اسی لئے بعض سوال اٹھانے والوںنے صحیح سوال اٹھایاہے کہ ملک کی ایک سیلیبریٹی جب باہرسے آئی اورچیکنگ کے دوران پازیٹیوپائی گئی ، اس کے باوجوداسے آئیسولیٹ نہیںکیاگیا، اس نے پارٹی اٹینڈ کی ، جس میںبڑے بڑے چغادری بھی نظرآئے اوروائرل ویڈیوسے معلوم ہورہاہے کہ وہ صرف مصافحہ نہیںکررہی ہے؛ بل کہ گلے بھی مل رہی ہے، توسوال صحیح اٹھایاگیاکہ کیاحکومت اس کے ذریعہ سے ملک میں کوروناخودپھیلاناچاہ رہی تھی؟
حکومت کی طرف سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ اس ملک میںجنوری سے ہی اسکریننگ ہوری ہے، یعنی جنوری سے پہلے ہی خدشات نے گھیرلیاتھا، اس کے باوجودبھی پبلک ڈسٹینسنگ کاخیال نہیںرکھاگیا، امریکہ کے صدرآئے، اوراس میںجودھمال مچا، وہ کسی پوشیدہ نہیں، پھراسی دوران مدھیہ پردیش میںسیاسی جوڑتوڑکی گئی اوربکروںکی طرح نیتاؤوںکی خریدوفروخت کاعمل کیاگیا، پھرمارچ کے آخری عشرہ میں، جب کہ کوروناکاعنکبوتی جال پھیلناشروع ہوچکاتھا، حلف برداری کی تقریب عمل میں لائی گئی، جس میںسوشل ڈسٹینسنگ کابالکل بھی خیال نہیں رکھاگیاتھا،بل کہ ایک دووسرے کے ہاتھ میںہاتھ ڈالے اپنے اتحادکامظاہرہ کیاجارہاتھا، کہایہ جارہاہے کہ اس تقریب میںکئی وہ لوگ بھی شامل تھے، جو لکھنؤکی پازیٹیوپائی گئی سیلیبریٹی کی پارٹی میںبھی شریک تھے، سوال اٹھانے والے نے صحیح سوال اٹھایاہے کہ ان تمام لوگوںکا چیک اپ کیوںنہیںہوا؟ اورکہیںیہ بھی تو کوروناکے پھیلنے کاسبب نہیں؟
یہاںیہ سوال ہوسکتاہے کہ ان لوگوںمیںسے کئی کے بارے میںپازیٹیورپورٹ نہیںآئی، جب کہ مرکزکے کئی لوگوںکی رپورٹ پازیٹیوآئی ہے؛ اس لئے یہ کہاجاسکتا ہے کہ یہ لوگ پھرکیسے کوروناکے پھیلنے کاسبب بن سکتے ہیں؟ اس کاجواب میںبس ایک مثال دیناچاہتاہوں، کل یعنی ۳۱؍مارچ کوایک نیوزچینل نے یہ بریکنگ نیوزبنائی کہ رانچی میں کوروناکاپہلا مریض پایاگیا، اوروہ ودیش سے آئی ہوئی جماعت کی ایک خاتون ہے، اسے دن بھرہائی لائٹ کیاگیا، یہاںتک میڈیاپرایمان نہ رکھنے والے ہم جیسے لوگ بھی ڈگمگاگئے ؛ لیکن پھرجے ایم ایم کے لیڈرافروزعالم کی ویڈیوسے معلوم ہواکہ کوئی بھی پازیٹیونہیںہے، بس اس سے سمجھ لیجئے کہ مرکز کے معاملہ میں میڈیاکاکیارول رہاہے، جس کی وضاحت ڈاکٹرسنجے کمارنے بھی اپنی ویڈیومیں کی ہے۔
دراصل آج کی میڈیااپنافرض بھول چکی ہے اوروہ کوئی نہ کوئی مسالہ ڈھونڈنے کے چکرمیںرہتی ہے، مرکزکے معاملہ کوایک توہائی لائٹ کیاگیااورساراالزام مرکز پرڈال دیاگیا؛ حالاںکہ حکومت بھی کم ملزم نہیںہے، کیوںکہ سوال اٹھانے والے نے صحیح سوال اٹھایاہے کہ وزیراعظم کے بقول جنوری سے ہی اسکریننگ ہورہی ہے، اورمرکزمیںآئے ہوئے تین سوودیشی ہیں، جن میںسے کچھ میںکوروناپازیٹیوپایاگیا، اب سوال یہ ہے کہ جب وہ پازیٹیوتھے تومرکزتک پہنچے کیسے؟ کہیںایساتونہیںآپ نے جان بوجھ کرانھیںمرکز تک پہنچایا؛ تاکہ جب معاملہ ہمارے ہاتھ سے نکلتانظرآئے اورعوام کاغصہ ہم پراترنے لگے توہم اک دھماکے سے عوام کے ذہنوں کوموڑدیںگے؟ ویسے بھی کئی خاص مواقع پردھماکے کرائے گئے اوراپنے لوگوں کاخون کردیاگیا۔
دوسراسوال یہ ہے کہ تلنگانہ سے نودس لوگوں کی لسٹ آئی تھی، جن کے بارے میں کہاگیاتھاکہ مرکزسے آئے تھے اوروہ پازیٹیوتھے، یہ نیوزبھی جنگل کی آگ کی طرح پھیلی تھی، حکومت بہری تونہیں کہ اس کے کانوں تک بات نہیں گئی، پھراس نے کیوںپورے مرکزکوآئیسولیٹ نہیںکیا؟ کیاآپ کوانتظارتھا کہ وہاںسے لوگ پھیلیں اورپورے ملک میں کوروناپھیلائیں؟یا اس لئے کہ جب اپنی ناکامی لوگوں کونظرآنے لگے توعوام کارخ کسی اورطرف پھیردیاجائے گا؟
میڈیاکوچاہئے کہ ان سوالات کاجواب حکومت سے مانگے؛ لیکن وہ نہیں مانگے گی؛ کیوںکہ اس کاکھانابھی تواس وقت تک ہضم نہیں ہوتا، جب تک کہ ہندومسلم بناکرکوئی خبرشائع نہ کرے، واقعی میڈیاکے اس رول پرافسوس ہے، میڈیاکاکام تویہ ہے کہ وہ ملک کے مفادمیںکام کرے، نہ کہ کسی پارٹی کے مفاد میں، لیکن یہاںکی میڈیاپورے طورپرپارٹی کے مفادمیں کام کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ مشہورنیوز اینکررویش کماریہ مشورہ دیتے نہیں تھکتے کہ اگراپنے ذہنوں کوصحیح رکھناہوتوٹی وی دیکھنابندکریں۔
کوروناوائرس کی وجہ سے پورے ملک کوبغیرکسی پلان کے لاک ڈاؤن کیاگیا، جس کی وجہ سے عوام کوبے حدپریشانیاں ہوئیں، بالخصوص ان عوام کوجنھیں دہاڑی مزدورکہاجاتا ہے، بالآخرلاکھوں کی تعدادمیں وہ بلبلاتے ہوئے نکل پڑے، حکومت نے ان کے لئے کوئی نظم نہیں کیا، بسوں اورٹرینوں کی آمدورفت بندکرادی، جس کی وجہ سے چھ چھ سواورہزار ہزار کیلومیٹرپیدل چل کرلوگ اپنے اپنے گھرپہنچے، کتنے بیمارلوگوں کی جانیں بھی گئیں، ان تک دوائیاں نہیں پہنچ سکیں، کھانے پینے کی مشقتیں ہوئیں اورہورہی ہیں، کتنے ویڈیوایسے وائرل ہوئے، جن میں لوگ سسکتے اوربلکتے نظرآئے، ان ناکامیوں پراب سوال اٹھنے لگے تھے، ظاہرہے کہ جب سڑکوںپربھیڑاترے گی اورلاک ڈاؤن کی خلاف ورزی ہوگی، جو میڈیاکے سامنے کورکیاجائے گا، کچھ میڈیاوالوںنے یہ کورکرناشروع کردیاتھا، ذاتی چینل والوںنے سوالات داغنے شروع کردئے تھے، لہذا اب لوگوں کو بھٹکاناضروری تھااورشایدیہی وہ موقع تھا، جس کاانتظارتھا، بس کیاتھا تماشاآپ کی نگاہوں کے سامنے ہے۔
اس سلسلہ میںیہ بات بھی بتانی ضروری ہے کہ جوکوروناچین، اٹلی، فرانس، کوریا، امریکہ اورایران وغیرہ ملکوںمیںصرف ایک وائرس تھا، ہمارے ملک میںآکروہ ’’مشرف بہ اسلام‘‘ ہوگیا، لوگوںنے بالخصوص حکومت اورمیڈیاوالوںنے اسے ہندومسلم بناکرکھڑاکردیا، کوروناکی خطرناکی بالکل ختم ہوگئی، اب مرکزپرسوال ہونے لگے، اسے بندکرنے کی بات کی جانے لگی، بل کہ بعض گندی سوچ والوںنے تو’’کوروناجہاد‘‘ کورونابم‘‘اورنہ جانے کن کن ناموںسے یادکرنے لگے، آج بھی ٹیوٹرپر Covid 786 ,NizamuddinIdiots,TabligiJamatVirusٰٰٓٓجیسے ناموںسے ہیش ٹیگ ٹرینڈکررہے ہیں، یہ کون سی سوچ ہے؟ اگرکسی مسلمان کوپازیٹیوپایاگیاتووہ کوروناجہادہوگیااورکسی غیر مسلم کوپایاگیاتوکوروناجنگ نہیں ہوئی؟ افسوس ہے اس سوچ پراورافسوس ہے اس سوچ کے پھیلانے والوںپر!
اب آپ ہی بتایئے کہ کیاعلامہ اقبال کاقول’’سارے جہاںسے اچھا، ہندوستاں ہمارا – ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گل ستاں ہمارا‘‘درست ہے یا ’’سارے جہاں سے اچھا، ہندوستاں ہمارا- اقبال آج ہوتے، کہتے نہیں دوبارا‘‘کہنادرست ہے ؟ فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے!
Comments are closed.